جان گسل حالات سے گزررہے ہندوستان کا عام جمہور پسند طبقہ ایک ایسی اجتماعی سیاسی قوت کی تلاش میں ہے جو حکمراں بھارتیہ جنتاپارٹی کے خلاف نہ صرف مزاحمت کاداعیہ رکھتی ہو بلکہ عملی اور راست اقدام میںبھی اس کا کوئی مخفی ایجنڈا آڑے نہ آئے۔لیکن ملک کا موجودہ سیاسی منظر نامہ ایسی کسی سیاسی قوت کی تشکیل کا بار برداشت کرنے کا اہل نظر نہیں آرہا ہے۔ کچھ عرصہ قبل ترنمول سپریمو ممتابنرجی اور کے چندر شیکھر رائو وغیرہ حکمراں جماعت کے خلاف مزاحمت کی ایسی ہی کسی اجتماعی قوت کیلئے پیش پیش تھے لیکن بوجوہ اب ان کی ہمت بھی پست ہوچکی ہے اور وہ ایسی کوششوں سے بچتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ ممتابنرجی کی ترنمول کانگریس نے تو باضابطہ ’اکیلاچلنے ‘ کا اعلان ہی کردیا ہے۔ یہ منظرنامہ اگر ایسا ہی رہا تو 2024 کا عام انتخاب کسی تبدیلی کے بجائے بی جے پی کیلئے اقتدار کے تسلسل پرمنتج ہوگا۔
اس صورتحال سے ہندوستان کو بچانے کیلئے کانگریس ایک بار پھر سرگرم عمل ہوئی ہے اور ہم خیال جماعتوں کے ساتھ اشتراک عمل شروع کردیا ہے۔کانگریس نے آج دعویٰ کیا ہے کہ عام انتخابات میں اپوزیشن کو متحد کرنے، وزیراعظم نریندر مودی اور حکمراں بی جے پی کو چیلنج کرنے کی کوششوں میں اس نے تاریخی اقدام کیا ہے۔یہ تاریخی اقدا م اپوزیشن کو متحد کرنے کیلئے کانگریس کے صدر ملکارجن کھڑگے اور سینئر پارٹی لیڈر راہل گاندھی کی دہلی میں بہارکے وزیراعلیٰ وجنتادل متحدہ کے لیڈر نتیش کمار اور ان کے نائب راشٹریہ جنتا دل کے تیجسوی یادوسے ملاقات ہے۔اس ملاقات کے بعد راہل گاندھی، نتیش کمار اور کھڑگے نے مشترکہ طور پر پریس کانفرنس سے بھی خطاب کیا اور کہا کہ اپوزیشن کو متحد کرنے کا یہ تاریخی قدم ہے۔ ہم ملک کیلئے نظریاتی جنگ لڑرہے ہیں، اس جنگ میں جیت اور ہار کا فیصلہ ہونے تک ہماری کوششیں جاری رہیں گی اور ہم ملک کیلئے مل جل کر ساتھ کھڑے ہوں گے۔ بی جے پی کو ہرانے کیلئے ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ اپوزیشن پارٹیاں متحد ہوکر انتخاب لڑیں گی۔ ہمارے ساتھ جو آنا چاہے،ان کا ہم خیر مقدم کریںگے۔نتیش کمار نے کہا کہ ان کی کوشش ہوگی کہ وہ زیادہ سے زیادہ اپوزیشن پارٹیوں کو متحدکریں اور مل کر آگے بڑھیں۔ نتیش نے یہ بھی واضح کیا کہ وہ وزیراعظم کے عہدے کی دوڑ میں نہیں ہیں، لیکن وہ چاہتے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ اپوزیشن پارٹیاں بی جے پی کے خلاف اکٹھی ہوںاورکانگریس مرکزی کردار ادا کرے۔
کانگریس اور بہار کے اتحادیوں کے درمیان ہونے والی یہ مفاہمت ایک ایسے وقت میں ہوئی ہے جب کرناٹک،مدھیہ پردیش، راجستھان اور چھتیس گڑھ میں اسمبلی انتخاب ہونے ہیں۔ایک طرح سے یہ 2024کے عام انتخابات سے قبل کی ریہرسل بھی ہے۔کھڑگے -راہل – نتیش -تیجسوی ملاقات اس لیے بھی اہم ہے کہ اپوزیشن اتحاد کی راہ میں جو سب سے بڑی رکاوٹ ہے وہ ہے وزیراعظم کا عہدہ۔ کم و بیش تمام علاقائی پارٹیوں کے سربراہان کی خواہش ہے کہ وزیراعظم وہ خود بنیں۔ این سی پی کے شرد پوار ہوں یا ترنمول کانگریس کی ممتابنرجی یا پھرتلنگانہ کے کے سی آر،ان سبھی نے کھل کر تو یہ اعلان نہیں کیا کہ وہ وزیراعظم بننے کے خواہش مند ہیں، لیکن اسی ایک معاملے پر اختلاف رائے کے بعد ان کی راہ کانگریس سے الگ ہوتی گئی اور 2019کے بعدسے اب تک اپوزیشن اتحاد کی ہر کوشش اسی وجہ سے ناکام بھی ہوئی ہے۔ بہار کو اس معاملے میں استثنیٰ ہے کیوں کہ وہاںراشٹریہ جنتادل اور کانگریس پرانے حلیف ہیں اور بی جے پی سے الگ ہونے والی جنتادل متحدہ کے ساتھ ’عظیم اتحاد‘ روبہ عمل ہے۔ اب جب کہ نتیش کمار نے واضح کردیا ہے کہ وہ کانگریس کے محور کے گرد اپوزیشن پارٹیوں کو اکٹھا کرنے کے خواہش مند ہیں اور وزیراعظم کے عہدہ کی دوڑ میں بھی شامل نہیںہیں تو اس سے اب ملک گیر سطح پر اپوزیشن اتحاد کی پیش رفت تیز ہوتی نظرآرہی ہے۔ اڈانی معاملے میں اپوزیشن کے موقف سے الگ اپنی راہ بنانے والے شرد پوار بھی اپنی غلطی کا احساس کرچکے ہیں۔اب ضرورت ہے کہ کانگریس اور ممتابنرجی،کے چندر شیکھر رائو اور مایاوتی کی بی ایس پی کے درمیان پیدا ہوئی خلیج کو بھی کم کرکے انہیں اس بات پر قائل کیاجائے کہ اپنی الگ الگ بے ذائقہ کھچڑی پکانے کے بجائے وہ وسیع تر اپوزیشن اتحاد کے مستحکم اور مضبوط سیاسی متبادل میں شامل ہوجائیں تاکہ بی جے پی کے خلاف جنگ کو بامعنی بنایاجاسکے۔
[email protected]
اپوزیشن اتحاد کی جانب ایک اور قدم
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS