خواجہ عبدالمنتقم
کل یعنی 14اپریل،2023کو پوری قوم بڑے زور شور سے ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر کا132 واں یوم پیدائش منائے گی اور اس میں کچھ ایسے لوگ بھی شامل ہوں گے جنہیں حقیقتاً یا مصلحتاً امبیڈکرتو بہت عزیز ہیں مگر ایک زمرہ کی دوسرے زمرہ پر حکمرانی کو اپنا حق سمجھتے ہیں جبکہ آئین کی دفعہ14 میںبڑے وثوق کے ساتھ یہ بات کہی گئی ہے کہ سبھی لوگ بغیر کسی امتیاز کے ملک کا جو بھی قانون ہے، اس کے تابع ہوں گے اور کسی شخص کو خواہ اس کا کوئی بھی درجہ یا حیثیت ہو، قانون کی نظر میں کوئی بالا دستی حاصل نہیں ہوگی۔ ڈاکٹرامبیڈکر ہمیشہ سماجی جمہوریت اور انسانی حقوق کے نہ صرف حامی رہے بلکہ انہوں نے ایک جہدکار کردار بھی بخوبی نبھایا۔ انہوں نے25نومبر،1949 کو آئین کے مسودہ سے متعلق اپنی آخری تقریر میں کہا تھا :
’ہم جو کچھ کرنا چاہتے ہیں وہ محض سیاسی جمہوریت سے حاصل نہیںہو سکتا۔ہمیںسیاسی جمہوریت کو سماجی جمہوریت کی شکل دینی ہوگی۔سیاسی جمہوریت کی بقا اس بات پر منحصر کرے گی کہ اس کی بنیاد سماجی جمہوریت پر ہو ۔‘
ہماری سپریم کورٹ نے والسما پال بنام کوچین یونیورسٹی والے معاملے ((1996(3)G u9L.R.92PP98,99. میں سماجی جمہوریت کی تعریف اس طرح کی تھی:
’سماجی جمہوریت‘ وہ نظام حیات ہے جو آزادی، مساوات اور اخوت کو زندگی کے اصولوں کے طور پر تسلیم کرتا ہے اور انہیں الگ نہیں کیا جا سکتا اور اگر ایسا کیا جاتا ہے تو اس سے جمہوریت کا مقصد ہی فوت ہوجائے گا۔بغیر مساوات کے آزادی عطا کرنے کا مطلب ہو گا چند لوگوں کی اکثریت پر بالا دستی قائم کرنا ۔بغیر آزادی کے مساوات کا مطلب ہو گا انفرادی پیش قدمی پر قدغن لگانااور بغیر اخوت کے آزادی اور مساوات کی حقیقی پیش رفت میںرکاوٹ پیدا کرنا۔۔۔‘
ڈاکٹرامبیڈکر ہمیشہ سماجی جمہوریت اور انسانی حقوق کے نہ صرف حامی رہے بلکہ انہوں نے ایک جہدکارکردار بھی بخوبی نبھایا۔جہاں تک ڈاکٹر امبیڈکر کے انسانی حقوق کے علمبردار ہونے کی بات ہے تو وہ اس وقت ان حقوق کی لڑائی لڑرہے تھے جب انسانی حقوق کا عالمگیر اعلامیہ وجود تک میں بھی نہیں آیا تھا۔ ان میں اس لڑائی کاجذبہ توکمزور طبقات کے ساتھ زیادتی کے مدنظر اور خود اپنے اور اپنے خاندان کے ساتھ دلت ہونے کے ناطے غیرمنصفانہ رویے کے باعث طالب علمی کے زمانے سے ہی پنپنا شروع ہوگیا تھا۔ وہ آئین جس کی ڈرافٹنگ میں انہوں نے کلیدی رول ادا کیا، اس کے حصہ 3 اور حصہ 4کو اگر انسانی حقوق کا چارٹر کہا جائے تو غلط نہ ہوگا اور اگر ہم ان حصوں میں درج دفعات کے نفس موضوع کا موازنہ انسانی حقوق کا عالمگیر اعلامیہ کے نفس موضوع سے کریں تو ہم یقینی طور پر اس نتیجے پر پہنچیںگے کہ ان میں تقریباً تمام بنیادی انسانی حقوق کو شامل کرلیا گیا ہے۔
امبیڈکرصرف فہرست بند ذاتوں اور قبائل سے تعلق رکھنے والے طبقات کے ہی مسیحا نہیں تھے ، وہ تو تمام طبقات کے مسیحا تھے۔ اگر وہ تنگ ذہن ہوتے تو انہیں بھارت کے آئین کی ڈرافٹنگ کا کام نہیں سونپا جاتا۔جہاں انہیں ہزار ہا سال سے چھوت چھات کی مار جھیلنے والوں کی فکر تھی تو ساتھ ہی انہیں اس بات کا بھی پورا پورا خیال بھی تھا کہ مراعات نایافتہ اور عدم استطاعت والے لوگوں کو مساوی تحفظ فراہم کیا جائے۔ جہاں تک اقلیتوں کے مسائل اور ان کے حقوق کی بات ہے، ہمارا آئین انہیں ہر شعبۂ حیات میں مکمل تحفظ فراہم کرتا ہے۔ آئین تو انصاف کی کسوٹی پر ہمیشہ کھرا اترا ہے، اگر لغزش ہوئی ہے تو ان سے جنہیں آئینی التزامات کو ایمانداری سے عملی جامہ پہنانے کی ذمہ داری سونپی گئی تھی۔ ایس کے اگروال نے اپنی ہندی کتاب بعنوان’امبیڈکر کی درشٹی میں مسلم کٹرواد‘ میں یہ بات صاف طور پر لکھی ہے کہ ڈاکٹر امبیڈکردیگر طبقات کی طرح ہندوستانی مسلمانوں کے بارے میں بھی اتنے ہی فکرمند تھے۔ ان کی کتاب سے ماخوذ درج ذیل اقتباس بشکل اردو ترجمہ اس بات کا دستاویزی ثبوت ہے:
’ڈاکٹرامبیڈکر ہندوؤں اور مسلمانوں کے بیچ جوگہری خلیج سی پیدا ہوگئی تھی، وہ اس کی بابت فکر مند رہتے تھے کیونکہ اس کے سبب آئے دن فسادات ہوتے رہتے تھے۔ وہ اس فر قہ وارانہ تعصب سے دونوں کو نجات دلانا چاہتے تھے۔ ان کی خواہش تھی کہ وہ(ہندو اور مسلمان) ان باتوں میں الجھنے کے بجائے اپنے ہر شعبۂ حیات میں ترقی کی راہ پر گامزن ہوں۔ وہ ایک حقیقت پسند مفکر کی حیثیت سے اس بات کو قبول کرتے ہوئے صدق دلی سے اس بات کے خواہاں تھے کہ ہندوؤں اور مسلمانوں کے بیچ جوگہری خلیج سی پیدا ہوگئی ہے، اسے دور کرنے کے لیے کوئی پائیدار حل نکالا جائے۔‘
ان کی آتما بھارت واسیوں سے سوال کر رہی ہے: ٭تم میں سے کچھ لوگ سرعام آئین و دیگر قوانین کی دھجیاں کیوں اڑا رہے ہو جبکہ آئین تو کسی کو بھی اس سے انحراف اور تجاوز کی اجازت نہیں دیتا؟تمہارا یہ بنیادی فرض ہے کہ تم آئین پر کاربند رہو،مذہبی تفرقات سے قطع نظر عوام کے مابین یکجہتی اورعام بھلائی کے جذبے کو فروغ دو، ملک کی ملی جلی ثقافت کی قدر کرو اور ایسی حرکات سے باز رہو جن سے خواتین کے وقار کو ٹھیس پہنچے۔
٭کیا تم بھول گئے کہ ہندوستا نی تو اپنی تہذیب،مذہبی رواداری اور ملی جلی ثقافت کے لیے ہمیشہ سے پوری دنیا میں مشہور رہے ہیں مگر تم میں سے کچھ نے اس کے متضاد روش راہ اختیار کر لی ہے؟
٭کیا آئین میںتمہیں ہر طرح کی آزادی بشمول مذہبی آ زادی اس لیے عطا کی گئی تھی کہ تم ایک دوسرے کی عبادت گاہوں کی بے حرمتی کرو،ایک دوسرے کے خلاف قابل اعتراض نعرے لگاؤ،کسی کے لباس، کھان پان اور طرززندگی کی بابت طعنہ کشی کرو، سر تن سے جدا کرنے کی بات کرو،پتھر بازی کرو، قانون کو اپنے ہاتھ میں لے کر بے گناہ لوگوں کی سر عام لنچنگ کرو، خواتین کے ساتھ درندگی کا برتاؤ کرو اور ان کے وقار کو ٹھیس پہنچاؤ؟
ارے تمہیں کیا ہوگیا؟ تم تو میرے کیا؟ گاندھی جی کے مجسموں کو بھی منہدم کرنے سے باز نہیں آرہے ہو!
یاد رکھو! ایک لمحہ کی خطا کے نتائج صدیوں تک بھگتنے پڑتے ہیں۔توڑنا بہت آسان ہے مگر جوڑنے میں بہت وقت لگتا ہے۔کیا تم بھول گئے کہ کتنی قربانیوں کے بعد ہمیں یہ آزادی ملی ہے۔ میری ایک بار پھر تمہیں نصیحت ہے کہ تم سب آئین پر کاربند رہو اور کوئی بھی ایسا کام نہ کرو جس سے عوام کے مابین یکجہتی اور بھائی چارے کو زک پہنچے اور نہ کوئی ایسی بات کہو اور نہ کسی ایسے تصور کا حوالہ دو جس کا آئین میں بالواسطہ ، بلا واسطہ حوالہ اور یہاں تک کہ اشارہ تک نہ ہو۔ ہمارا ملک تا ہنوز ایک سیکولر جمہوریہ ہے، کوئی مملکت خداداد یا کسی دھرم، مذہب یا عقیدے پر مبنی نظام حکومت نہیں۔ یہاں رام،رحیم،کرتار،ڈیسوزا،لنگڈوہ،واڈیا،یو،کانگ،مہاویر،غرض یہ کہ تمام مذاہب اور عقائد سے تعلق رکھنے والے ایک ہی کنویں کا پانی پیتے ہیں اور اگر کوئی انہیں ایک کنویں سے پانی پینے سے روکتا ہے تو وہ تعزیری قانون کے تحت مستوجب سزا ہے۔
اگر تم نے میری نصیحت پر عمل نہیں کیا تو یاد رکھو میری آتما کو کبھی شانتی نصیب نہیں ہوگی!
(مضمون نگار آزاد صحافی، مصنف، سابق بیورکریٹ اور عالمی ادارہ برائے انسانی حقوق سوسائٹی کے تاحیات رکن ہیں)
[email protected]