عبیداللّٰہ ناصر
امام الہند مریادا پرشوتم بھگوان شری رام چندر جی کے یوم پیدائش رام نومی کو بھی بھارتیہ جنتا پارٹی یا یوں کہیں سنگھ پریوار نے گزشتہ کچھ برسوں سے ملک میں فرقہ ورانہ تشدد اور ووٹوں کے پولرائزیشن کا ذریعہ بنا لیا ہے۔ دراصل 80-90کی دہائی میں رام مندر تحریک شروع کرکے سنگھ پریوار نے بھگوان رام کو ایک طرح سے اپنی پارٹی کا رکن اور اپنے لیے ووٹوں کا اے ٹی ایم بنا لیا تھا اور اس کے بعد سے کوئی الیکشن ایسا نہیں ہوا جس میں بی جے پی نے بھگوان رام کے نام کو نہ بھنایا ہو، وہ بھگوان رام پر اپنی اجارہ داری ثابت کرکے باقی سب کو رام ورودھی یا بھگوان رام مخالف ثابت کرتی رہی ہے اور اس کی اچھی سیاسی فصل بھی کاٹی ہے۔ بی جے پی آج جو کچھ بھی ہے، اس میں سنگھ پریوار کے کارکنوں کی بے لوث محنت، مقصد کے تئیں ایمانداری، اچھی سیاسی حکمت عملی کے ساتھ ساتھ بھگوان رام پر اجارہ داری ثابت کرنا بھی ایک بڑا فیکٹر رہا ہے۔ حالانکہ انتخابات میں مذہبی معاملات کو شامل کرنا آئینی طور سے غلط ہے اور ماڈل کوڈ آف کنڈکٹ کی خلاف ورزی ہے لیکن بی جے پی کی خوش قسمتی تھی کہ جب اس نے بھگوان رام کے نام کو اس طرح انتخابی ایشو بنا نا شروع کیا توسیشن جیسا الیکشن کمشنر اس کے سامنے نہیں تھا، دوسرے یہ ایک ایسا جذباتی اور مذہبی مسئلہ تھا جس کے بارے میں آنجہانی وزیر اعظم نرسمہا راؤ نے کہا تھا کہ بی جے پی ہر چناؤ میں کوئی ایسا مذہبی اور جذباتی ایشو کھڑا کر دیتی ہے جس سے لڑنا مشکل ہو جاتا ہے، ہم آر ایس ایس بی جے پی سے تو لڑسکتے ہیں لیکن بھگوان رام سے کیسے لڑیں۔
گزشتہ دنوں بہار کے بہار شریف اور نالندہ شہروں، مہاراشٹر کے اورنگ آ باد(اب سانبھا جی نگر)، بنگال اور گجرات کے کچھ شہروں میں رام نومی کے جلوس کے دوران تشدد، آگزنی اور تخریب کاری کی وارداتیں ہوئیں لیکن کشیدگی کا ماحول پورے ملک میں رہا۔ بہار شریف کے سو سال سے زیادہ قدیمی مدرسہ عزیزیہ میں جو ہوا، وہ بہت ہی افسوسناک رہا، یہاں گولی لگنے سے ایک بچے کی موت بھی افسوسناک ہے لیکن مدرسہ عزیزیہ میں جو نایاب کتابیں مخطوطات اور قران کریم کے نایاب نسخے نذر آتش ہوئے، ان کی بھرپائی بہت مشکل بلکہ تقریباً نا ممکن ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ایک سوچے سمجھے منصوبہ کے تحت اس مدرسہ اور اس کی لائبریری کو جلایا گیا جس کا مقصد ایک من گڑ ھت واقعہ ہے کہ تاریخی نالندہ یونیورسٹی اور اس کے کتب خانہ کو بختیار خلجی نے جلوایا تھا، جن لوگوں نے یہ شرمناک حرکت کی وہ دل ہی دل میں یہی سوچ کر خوش ہو رہے ہوں گے کہ انہوں نے نالندہ یونیورسٹی کو جلائے جانے کا بدلہ لے لیا۔ آج کے مہذب سماج میں اس طرح کی خرافاتی سوچ کو بھی قبولیت مل سکتی ہے، یہ شرمناک ہے مگر کیا کیا جائے اقتدار اور نفری طاقت کا نشہ اس وقت ہندوستان میں ایک مخصوص طبقہ کے سر پر چڑھ کر بول رہا ہے۔
فساد کی پولیٹیکل اکنامی سمجھنا ضروری ہے۔ فساد اگر مقامی وجہ سے مقامی لوگوں کے درمیان ہو تو وہ وقتی ہوتا ہے اور علاقہ کے سمجھدار با اثر افراد آپس میں مل بیٹھ کر وہ مسئلہ سلجھا لیتے ہیں لیکن یہ تبھی ممکن ہوتاہے جب سیاسی پارٹیاں اس سے دور رہیں اور انتظامیہ سیاسی دباؤ میں نہ ہو لیکن جب فساد لمبا چلے، انتظامیہ سیاسی دباؤ میں ہو، صاف ظاہر ہے کہ یہ سیاسی وجوہ سے کرایا گیا فساد ہے۔ زیادہ دور نہ جائیے ، گجرات کا2002کا فساد یاد کیا جائے، اس فساد سے پہلے گجرات میں بی جے پی کی حالت بہت خستہ تھی۔ کیشو بھائی پٹیل اور بی جے پی میں ہی ان کے سیاسی حریفوں میں تلواریں کھنچی تھیں، بی جے پی حجوریہ اور کھجوریہ نام کے دو گروپوں میں منقسم تھی، اس کا انجام یہ ہوا تھا کہ لوکل باڈی کے چناؤ میں بی جے پی کا بھٹہ بیٹھ گیا تھا، کانگریس نے زیادہ تر سیٹوں پر قبضہ کر لیا تھا اور ایسا لگ رہا تھا کہ اسمبلی الیکشن میں بی جے پی کا سوپڑا صاف ہو جائے گا۔ بی جے پی کی مرکزی قیادت گجرات کا اپنا قلعہ کھونا نہیں چاہتی تھی، اس نے گجرات کے مقامی لیڈروں کے بجائے مرکز سے نریندر مودی کو وزیراعلیٰ بنا کے بھیجا۔ مودی کے پاس وقت کم اور مشن بہت اہم تھا، ان کے وزیراعلیٰ بننے کے کچھ مہینوں بعد ہی گودھرا ٹرین المیہ ہوا اور پھر گجرات فرقہ وارانہ فساد کی آگ میں جل اٹھا۔ در حقیقت اسے فرقہ وارانہ فساد کہنا ہی غلط ہے، وہ عام منظم طریقہ سے مسلمانوں کی نسل کشی نہیں تو قتل عام ضرور تھا۔ یہاں تک کہ وزیراعظم اٹل بہاری واجپئی کو مودی سے کہنا پڑا تھا کہ وہ راج دھرم نبھائیں ۔ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ اس فساد کے بعد میں غیر ملکوں میں کیا منہ دکھاؤں گا۔لیکن اس کا سیاسی فائدہ کیسا ملا، یہ سب کو معلوم ہے، آج گجرات بی جے پی کا مضبوط بلکہ نا قابل تسخیر قلعہ ہے اور نریندر مودی ’ہردے سمراٹ‘ بن کر ملک پر حکومت کر رہے ہیں اور فی الحال ناقابل تسخیر بھی ہیں۔
مظفر نگر کا فساد یاد کیجیے،وہ بھی تقریباً تقریباً منی گجرات تھا جس نے صدیوں سے چلے آ رہے جاٹ-مسلم اتحاد کو ایسا توڑا کہ زخم آج بھی مندمل نہیں ہوئے ہیں مگر مغربی اترپردیش بی جے پی کا مضبوط قلعہ بن گیا ہے۔ کلیان سنگھ کی پہلی حکومت کے بعد کبھی بھی اتر پردیش میں بی جے پی مکمل اکثریت نہیں حاصل کر سکی تھی اور پارلیمنٹ کی دس سیٹیں بھی ملنا اس کے لیے محال تھا لیکن اس فساد کے بعد اسے2014 میں پارلیمنٹ کی80میں سے71سیٹیں مل گئیں اور اسمبلی الیکشن میں پہلی بار اس کو مکمل اکثریت ملی اور کسان تحریک، کورونا کی اموات، گرانی، بے روزگاری، ان سب کے باوجود دوبارہ بھی مکمل اکثریت سے اس کی حکومت بن گئی۔ آج حالت یہ ہے کہ مسلم دشمنی ملک کی سیاست کاسکہ رائج الوقت ہے اور بی جے پی کا ہر وزیراعلیٰ ایک سے آگے نکل کر مسلم دشمن بننا چاہتا ہے۔
اب ذرا حالیہ فساد کی پولیٹیکل اکنامی سمجھئے، جسے مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے بہار شریف کے فساد کے دوسرے ہی دن پڑوسی شہر کے ایک جلسہ عام میں خود واضح کردیا۔ انہوں نے وہاں موجود لوگوں سے کہا کہ اگلے سال پارلیمانی الیکشن میں مودی جی کو بہار کی چالیس میں سے چالیس سیٹیں دیجیے اور2025میں بہار میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی مکمل اکثریت والی سرکار بنوائیے، ہم دنگائیوں کو الٹا ٹانگ دیں گے۔ سوچئے ملک کا وزیر داخلہ، جس پر ملک میں امن و قانون برقرار رکھنے کی ذمہ داری کے ساتھ ساتھ سبھی شہریوں کو مکمل اور یکساں تحفظ فراہم کرنے کی ذمہ داری ہے، فساد زدہ علاقہ میں امن و امان قائم رکھنے، فرقہ وارانہ ہم آہنگی برقرار رکھنے اور آپس میں مل جل کر رہنے کی اپیل کرنے کے بجائے اپنی پارٹی کے لیے ووٹ مانگ رہا ہے اور خاص طبقہ کو دنگائی بتا کر انہیں الٹا لٹکا دینے کی بات کر رہا ہے جیسے سزا دینا عدالت کا نہیں سرکار کا کام ہو۔فساد کے دوران دونوں جگہوں کی ضلع انتظامیہ کی کوتاہی کھل کر سامنے آئی ہے۔ دنگائیوں کو تقریباً چار گھنٹوں کی کھلی چھوٹ کیسے ملی رہی، اس کی اعلیٰ سطحی جانچ ہونی چاہیے۔ انتظامیہ میں کالی بھیڑوں کی بھرمار ہے، جہاں بی جے پی کی حکومتیں ہیں وہاں تو ان کی چاندی ہے اور وہ کھل کر اس کے مسلم دشمن ایجنڈے کو پورا کرتے ہیں لیکن جہاں غیر بی جے پی سرکاریں ہیں، وہاں ا س سرکار کو بدنام کرنے کی بھی سازش کرتے ہیں، ان کی شناخت اور ان کو کنارے لگانے کی ضرورت ہے۔
ذرا تفصیل اور گہرائی سے سمجھئے۔ دعوے چاہے جتنے لمبے چوڑے کیے جائیں، میڈیا اور پیڈ انتخابی جائزوں کے ذریعہ مودی کے ناقابل تسخیر ہونے کا چاہے جتنا پرچار کیا جائے، حقیقت یہ ہے کہ راہل گاندھی کی بھارت جوڑو یاترا اڈانی گیٹ کولے کر مودی سے براہ راست پوچھے جانے والے سوالات خاص کر ان کی فرضی کمپنیوں میں بیس ہزار کروڑ روپے کس کا ہے، پھر راہل کی رکنیت سے برخاستگی، ان کا گھر خالی کرانا ،اس سے راہل کے لیے پیدا ہونے والی ہمدردی، مودی جی کی ڈگری پر اٹھنے والے سوالوں اور اروند کجریوال پر گجرات ہائی کورٹ سے جرمانہ، جس نے اس معاملہ کو سپریم کورٹ تک جانے کا راستہ ہموار کر دیا ہے۔سپریم کورٹ خاص کر چیف جسٹس چندرچوڑ، مسز جسٹس ناگ رتنا اور مسٹر جسٹس جوزف کا سخت رویہ مودی کے لیے پریشانی کی وجہ بنا ہوا ہے۔ادھر مہاراشٹر میں کانگریس نیشنلسٹ کانگریس اور اودھو ٹھاکرے کے اتحاد، بہار میں لالو نتیش اور کانگریس کا اتحاد،جھارکھنڈ میں کانگریس اور جھارکھنڈ مکتی مورچہ کا اتحاد، تمل ناڈو میں کانگریس اور ڈی ایم کے کا اتحاد، مودی کے لیے2024میں مشکلات پیدا کرنے والا ہے۔اتر پردیش کی80سیٹوں کی طرف سے وہ فی الحال بے فکر ہیں کیونکہ یہاں ابھی تک اپنی اپنی ڈفلی اپنا اپنا راگ والا ماحول ہے لیکن کل کیا ہوگا نہیں کہا جا سکتا۔ ان علاقائی سیاسی اتحاد کی وجہ سے تقریباً200سیٹوں پر بی جے پی کی پوزیشن تادم تحریر بہت کمزور ہو چکی ہے۔ ہندی بیلٹ کی جن ریاستوں مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ، راجستھان، ہریانہ اور پنجاب میں اس کا کانگریس سے براہ راست مقابلہ ہونا ہے، وہاں بھلے ہی وہ زیادہ سیٹیں حاصل کر لے گی، مگر سبھی سیٹوں پر پہلے کی طرح قبضہ کر لے گی یہ نا ممکن ہے۔ اس طرح آج کی تاریخ میں بی جے پی کو تقریباً سو سے ایک سو پچیس سیٹوں کا نقصان دکھائی دے رہا ہے، اس لیے یہاں اپنی پوزیشن مضبوط کرنے کے لیے وہ بھگوان رام کے نام پر فساد کا سہارا بھی لے رہی ہے، مسلمانوں کے ووٹوں پر بھی نظر ہے کیونکہ اس کو خفیہ اطلاع مل چکی ہے کہ اس بار 18-20فیصد مسلم ووٹر تھوک بھاؤ میں کانگریس کی طرف جا رہا ہے، اس لیے وہاں پھوٹ ڈ لوا کر کچھ فیصد مسلم ووٹ حاصل کرنا چاہتی ہے۔ اس کے لیے مسلمانوں میں پسماندہ مسلمانوں پر ڈورے ڈال رہی ہے۔اس کے علاوہ اس کے ترکش میں ابھی اور بھی تیر ہیں۔ ہند-پاکستان سرحد پر کچھ ہو جائے تو کسی کو حیرت نہیں ہونی چاہیے، آخر پلوامہ نے سابقہ الیکشن کی بازی پلٹ دی تھی کہ نہیں۔2024آتے آتے ملک اور سرحد پر کیا کیا گل کھلیں گے،کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ اللہ پاک سب کو اپنے حفظ و امان میں رکھے۔
(مضمون نگار سینئر صحافی و سیاسی تجزیہ نگار ہیں)
[email protected]