سیف الرحمن
گزشتہ دنوں دہلی میں مسلمانوں کے تھینک ٹینک کے طور پر سمجھے جانے والے اِدارہ ’انسٹی ٹیوٹ آف آبجیکٹو اسٹڈیز‘ نے مسلمانوں کے ڈراپ آؤٹ سے متعلق ڈیٹا جاری کیا جِس میں بتایا گیا ہے کہ ہندوستان میں ڈراپ آؤٹ کی سب سے زیادہ شرح مسلمانوں میں ہے اور اْن میں بھی مسلم لڑکیوں کے ڈراپ آؤٹ کی شرح زیادہ ہے۔ موقع پر بتایا گیا کہ مسلمانوں میں گیارہ سال کی عمر سے ہی ڈراپ آؤٹ شروع ہو جاتا ہے – یہ ڈیٹا اْس قوم کے بارے میں ہے جس کے بارے میں سچر کمیٹی نے تبصرہ کیا ہے کہ انکی حالت دلتوں سے بھی بدتر ہے – اور 2011 کی مردم شماری میں بتایا گیا کہ ان کے صرف 2.76 فیصد لوگ ہی گریجویشن مکمل کر پاتے ہیں؛ جن میں خواتین کا حصہ ÷36.65 ہے جبکہ بارہویں تک 4.44 فیصد و دسویں تک 6.33 فیصد اور پرائمری تک 16.8 فیصد لوگ ہی پہونچ پاتے ہیں – اگر مجموعی طور پر دیکھا جائے تو 43فیصد مسلمانوں نے کبھی اسکول کا منہ بھی نہیں دیکھا ہے- اگر ہم ’انسٹیٹیوٹس آف نیشنل امپورٹنس‘ کو دیکھتے ہیں تو ان اداروں میں جن پر حکومت اپنے اعلیٰ تعلیم کے بجٹ کا 52 فیصد حصّہ خرچ کرتی ہے اْسکے 2013 کے ڈیٹا کے مطابق اْن کے ایک لاکھ طلباو طالبات میں مسلمان طلباو طالبات بس دو ہزار تھے – ہاں اگر غیر سرکاری رپورٹ کی مانی جائے تو 2020 تک مسلمانوں میں گریجویٹ لوگوں کی تعداد 5.45 تک پہونچی ہے تو وہیں بطور اساتذہ کی بھی انکی تعداد 2.95 فیصد سے 5.55 فیصد تک پہونچ گئی ہے جوکہ ایک اْمّید جگاتی ہے لیکن یہ تبدیلی بھی ضرورت کے مطابق نہیں ہے – جب کہ ایک پہلو یہ بھی ہے کہ سچر کمیٹی رپورٹ کے بعد مْلک بھر میں تعلیمی بیداری کے نام پر سیکڑوں تنظیمیں بنیں ،ہزاروں پروگرم منعقد ہوئے اور سینکڑوں مضامین بھی لکھے گئے – اور یقیناًیہ بات بھی سچ ہے کہ ان تنظیموں،جلسوں اور مضامین کے اثر سے مسلمانوں کے دیہی علاقوں تک تعلیمی بیداری پیدا ہوئی ہے جس کے بعد اْن گاؤں و محلوں میں جہاں کبھی ایک سے دو گھر کے بچّے پڑھتے تھے وہاں آج اکثر گھروں کے بچّے مدرسہ، مکتب اور اسکول بھیجے جا رہے ہیں۔ان سب کے باوجود اگر ضرورت کے مطابق نمائندگی نہیں ہو پا رہی ہے تو ہمیں غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے کہ ہماری حکمت عملی کیا ہونی چاہئے؟اور اس غور و فکر میں میرے سامنے جو چند باتیں سامنے آئی ہیں جو یہ کہ :ہمیں چند محاذ پر منظّم کوششیں کرنی ہوگی جس میں ترجیحات کا تعین،نچلی سطح تک تعلیمی کونسلنگ و گائیڈنس،ٹیچرس کی تربیت،سرکاری پالیسیوں کو زمین پر لانے کیلئے محنت و بیداری، اداروں کا قیام،اسکول و مدارس کے نصاب میں اصلاح اور یونیورسٹیوں میں کیریئر گائیڈنس اور فکری تربیت کے سسٹم کا قیام۔
ترجیحات کا تعین:کسی بھی زمانے میں وہ قوم عقل مند ہوتی ہے جو کہ مارکیٹ کے ڈیمانڈ کے مطابق سپلائی کرتی ہو یعنی کہ وہ جانتی ہو کہ آج کے وقت میں کن محاذوں کے ماہرین پیدا کرنے کی زیادہ ضرورت ہے اور کن محاذوں کے کاریگر کی کم ضرورتِ ہے ساتھ ہی اپنی ضروریات سے متعلق محاذوں کی سمجھ بھی رکھتی ہو لہٰذا ضرورتِ ہے کہ ہم بھی زمانے کے تقاضوں اور اپنے چیلنجز کے مطابق محاذوں کے لئے موجود کورسز کا اِنتخاب کریں و اس پر توجہ کریں اور کم ضرورت والے کورسز پر اْس سے کم توجہ دیں ۔
تعلیمی کونسلنگ و گائیڈنس: نئے زمانے میں کونسلنگ اور گائیڈنس کا سسٹم بہت ہی معروف اور کامیاب سسٹم ہے، جس میں چھوٹے چھوٹے گروپ کو جمع کرکے دلائل کے ساتھ آسان زبان میں کس بھی معاملے کے تمام نکات کو سمجھایا جاتا ہے۔ اِس کی ضرورت مسلمانوں کی تعلیمی ترقی کیلئے اس لئے اہم ہے کہ آج مسلمانوں کے درمیان سب سے بڑا تعلیمی چیلنج یہ ہی ہے کہ وہ اعلٰی تعلیم کورسز سے بالکل نابلد ہے، سوائے چند گنے چنے کورسز کے انکو کچھ بھی نہیں پتا کہ کس کس کورسز میں جا سکتے ہیں اور اْسکے کیا اسکوپ ہیں اور کیا چیلنجز ہیں اور نہ ہی ان کو یہ معلوم ہے کہ قومِ مسلم کو تاریخ داں کی ضرورت ہے کیونکہ آج مسلمانوں کی شناخت پر زبردست حملہ ہے۔ ٹیکنالوجی کے ماہرین کی ضرورت ہے کیونکہ پوری جنگ آج ٹیکنالوجی پر مبنی ہے۔ سول سروس میں جانے والوں کی ضرورت ہے کیونکہ آج سیکورٹی سے اور پالیسی سے متعلق اکثر مسائل وہیں سے آرہے ہیں،صحافیوں اور نظریات کی سمجھ رکھنے والوں کی ضرورت ہے کیونکہ نظریہ اور ذرائع ابلاغ کی سطح پر ایک سرد جنگ ہمارے اور ہمارے مد مقابل طبقات و ممالک کے بیچ جاری ہے ،ڈیٹا سائنٹسٹ کی ضرورت ہے کیوں کہ اس ترقی یافتہ دور میں سارے معاملات کا انحصار اعداد و شمار پر ہی ہے۔ لاء اور جوڈیشیری میں لوگوں کو بھیجنے کے ضرورت ہے کیونکہ وہاں سے ہی انصاف کے فیصلے ہو رہے جو کہ ہمارے تحفظ، تعلیم اور ترقی سب پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ سوشل سائنس کے دیگر کورسز میں آنے کی ضرورت ہے کیونکہ وہ سب ہمارے عقائد، جان و مال کی حفاظت اور ترقی کے لئے بہت اہمیت رکھتے ہیں۔ ان تمام باتوں سے پوری مسلم قوم اس طرح نابلد ہے کہ ایک مسلم لڑکا یا لڑکی گریجویشن مکمل کر لینے تک ان باتوں کی سمجھ سے دور رہتا ہے اور اس قدر دور رہتا ہے کہ گریجویٹ ہونے تک بھی اسکا مقصد متعین نہیں ہوتا ہے۔ لہٰذا ضرورت ہے کہ صاف اور آسان زبان میں پی۔پی۔ٹی وغیرہ کی مدد سے ایک ایک محلہ تک نچلی سطح تک تعلیمی کونسلنگ کی جائے اور صحیح و مْکمل گائیڈنس فراہم کی جائے جس میں بتایا جائے کہ آپ کیا کیا کر سکتے ،کیا کرنا چاہیے ،کیسے کر سکتے،اْس میں کیا اسکوپ اور کیا چیلنجز ہیں۔ یہ کام ایک تعلیمی بیداری کانفرنس کے پیسے میں شاید پورے دو ضلع کے ہر ایک گاؤں کے اندر مکمل ہو جائے اور اسکا فائدہ ایک تعلیمی بیداری کانفرنس سے درجنوں فیصد زیادہ ہوگا لہذٰا صوبائی سطح پر اسکا نظام قائم ہونا چاہیے اور نوجوانوں کے اندر اس کلچر کو لے کرفکر پیدا کی جانی چاہیے تاکہ گاؤں کی سطح تک یہ کام ممکن ہو سکے۔
ٹیچرس کی تربیت:آج ہزاروں مسلم اسکول کھل چْکے ہیں اور گاؤں گاؤں میں کوچنگ سینٹرز ہیں۔ لیکِن وہ قوم مسلم کے لیے مفید ثابت نہیں ہو سکے۔ اْس کی وجہ ہے خود وہاں کے اساتذہ کا غیر تربیت یافتہ اور بیدار نہیں ہونا۔ لہٰذا ضرورت ہے کہ ایک ایسا تربیتی ورکشاپ سسٹم بنایا جس کے ذریعے ان تمام اسکولوں و کوچنگ سنٹر کے اساتذہ کو اس لائق بنا دیا جائے کہ اْن کے ہاتھوں میں موجود قوم کا ہزاروں ریسورس حقیقی ریسورس بننے کی طرف گامزن ہو جائے۔
سرکاری پالیسیوں کو نافذ کرنے کی کوششیں اور اس کی بیداری:مرکزی و صوبائی حکومتیں عمومی تعلیمی تقویت کے متعلق بہت سی پالیسیاں بناتی ہیں اور بہت سی پالیسیاں الگ الگ اقوام کی ترقّی کیلئے بناتی ہیں جس میں مسلمانوں سے متعلق پالیسیاں بھی شاملِ ہیں۔ جس سے کہ اس محاذ پر بہت زیادہ مدد مل سکتی ہے مگر اْس میں سے کسی پالیسی کا فائدہ مسلمان اٹھا نہیں پاتے کیوں کہ وہ اس سے بیدار نہیں ہوتے لہٰذا ضرورت ہے کہ ایسے افراد تیار کیے جائیں و ایسی تنظیمیں قائم کی جائیں جوکہ ان پالیسیوں پر ہمیشہ نظر رکھیں، زیادہ سے زیادہ مسلمانوں تک اسکا فائدہ پہنچنا یقینی بنائیں اور مسلمانوں میں ایسی پالیسیوں کو لے کربیداری بھی پیدا کی جائے۔
اداروں کا قیام:آج پرائیویٹ اداروں کی اہمیت تعلیم کے میدان میں سب سے زیادہ اہم ہوگئی ہے جس میں وہ کالجز بھی شامل ہیں جو کہ بْنیادی و اعلیٰ تعلیم دونوں طرح کے کورسز کراتے ہیں اور وہ ادارے بھی جو کہ مقابلہ جاتی امتحانات کی تیاری کراتے ہیں۔ ایسے ادارے ہمارے راستے کو بہت آسان کر سکتے ہیں , یہی وجہ ہے کہ گزشتہ سالوں میں مسلمانوں میں اسے لیکر بیداری نظر آئی ہے جس کی وجہ سے رحمانی 30،شاہین گروپ،زکوٰۃفاؤنڈیشن،پٹنہ و لکھنؤ حج کمیٹی کے سول سروس سینٹر اور اس جیسے درجنوں اِداروں کا قیام ہوا اور ساؤتھ انڈیا میں ساؤتھ کے سرسید کہے جانے والے محب الحق سامنے آئے،بدر الدین اجمل و مولانا حذیفہ وستانوی کی اہم ترین کوششیں سامنے آئیں ساتھ ہی اے۔ ایم۔پی جیسی تنظیمیں متحرک ہوئیں اور ان تمام کا بہت ہی مثبت و انقلابی اثر بھی دیکھنے کو ملا ہے۔ لیکِن ضرورت ہے کہ اس محاذ پر ہر ایک ریاستِ میں کام ہو اور ایسے ادارے ابھی سیکڑوںکی تعداد میں قائم کیے جانے چاہیے۔
مدارس و اسکول کے نصاب تعلیم میں اصلاح:آج ہمارے اسکولوں کا نصاب تعلیم ایسا ہے کہ وہ بچوں پر بوجھ تو بہت ڈالتا ہے لیکن 12 و 13 سال کا ایک لمبا وقت لینے کے بعد بدلے میں اْتنا ہی دیتا ہے جو کہ چند سالوں میں دیا جا سکتا ہے اور طلباو طالبات کے ذہن و اسکلس کو کچھ خاص ترقّی نہیں دے پاتا ہے جس سے کہ وہ ایک کامیاب سفر شروع کر سکے لہٰذا اسکولز کا ایک ایسا نصاب مرتب کیا جائے جو کہ عیسائی مشنری کو مقابلہ دے سکے ساتھ ہی اْن بچوں کی اتنی فکری تربیت بھی ہو جائے کہ وہ مضبوط اِسلامی فکر کے ساتھ کسی نہ کسی محاذ کا ماہر بھی بن کر قوم کا بہتر ریسورس بن کر سامنے آئے – اس کے علاوہ ہمارے تعلیمی نظام کا ایک بہترین سسٹم مدارس کاسسٹم ہے جس نے بھارت میں اسلام کی بقا کا کردار نبھایا ہے اور آج بھی تعلیم و سیاست اور عقائد کی حفاظت سمیت تمام اہم محاذوں پر کام کرنے والوں کا مدارس سے ہی رشتہ ملتا ہے – مگر یہ بھی ایک سچائی ہے کہ آج زمانے کی زبان و نظریات اور اسکلس سے نا آشنا ہونے کی وجہ سے فارغین مدارس کا ذاتی کیریئر بھی تباہ نظر آتا ہے اور وہ اپنا فرض منصبی بھی ادا نہیں کر پاتے ہیں لہٰذا ضرورت ہے کہ مدارس کے حقیقی مقاصد کے مْطابق ضروری اصلاحات مدارس کے نصاب تعلیم میں کیا جائے ساتھ ہی طلبامدارس کی بھی آنے والی زندگی و فرائض کو لیکر کیریئر کونسلنگ کا ایک سسٹم بنے تاکہ ہر محاذ پر قوم کو حقیقی امام حاصل ہو سکے۔
یونیورسٹیوں میں کیریئر کونسلنگ و نظریاتی تربیت کا نظامِ:جیسا کہ آج ہماری پوری قوم مستقبل کے اْمیدوں و چیلنجز سے متعلق مْکمل طور پر انجان ہیویسے ہی یونیورسٹیوں میں موجود ہمارے طلباو طالبات بھی دنیا سے و مواقع سے اور اپنے فرائض سے نا آشنا ہیں۔ ساتھ ہی مذہب بیزاری کے دلدل میں پھنس کر اپنی آخرت کی بربادی کی طرف جا رہے ہیں اور قوم کے لئے غیر مفید بھی ثابت ہو رہے ہیں- ایسے میں ضرورت ہے کہ یونیورسٹیوں میں موجود ہمارے طلباو طالبات کی کیریئر کونسلنگ کیلئے بھی کوئی انتظام ہو جس میں انہیں مقابلہ جاتی امتحانات کی طرف و ابروڈ کے مواقع اور دیگر ضروری کورسز کی طرف گائیڈ کیا جائے اور اْسکی تیاری میں مدد کی فراہمی کو بھی یقینی بنایا جائے۔ ساتھ ہی اْنکی فکری تربیت بھی کرے تاکہ وہ اپنی آخرت کی حفاظت کے ساتھ ترقّی کرے اور قوم کیلئے ایک مفید ترین رکن بن کے سامنے آ سکے نہ کہ اْن ہزاروں جیسے بن جائیں جن کی کامیابی پر قوم نے خوب تالیاں بجائی لیکِن وہ مذہب بیزاری اور مادیت پرستی کی وجہ سے ذرہ برابر بھی سودمند ثابت نہ ہو سکا۔ یہ سارے کام بہت مشکل نہیں لیکن اخلاص اور منصوبہ بندی کی ضرورت رکھتا ہے۔ گاؤں کی سطح سے لے کرصوبائی اور ملکی سطح پر ان نکات سے متعلق منصوبہ سازی اور عمل در آمد کی ضرورت ہے۔
lql