ہندوستان کی تاریخ فرقہ وارانہ فسادات سے بھری پڑی ہے۔ مگرکچھ فسادات ایسے خونچکاںہے جو آج تک یادداشت سے محونہیں ہوئے ہیں۔ان میں ایک فساد میرٹھ ہاشم پورہ کا بھی ہے جس کو ملیانہ ہاشم پورہ قتل عام بھی کہاجاتاہے۔ان طویل فسادات اور کشیدگی کے دوران کے ایک واقعہ میں یوں تو سرکاری طورپر اموات کی تعدادپونے دوسوبتائی جاتی ہے مگر ملیانہ قتل عام میں72مسلمانوں کو بے رحمانہ انداز سے موت کے گھاٹ اتار دیے گئے تھے۔ 36 سال بعد بھی آج تک اس سفاکانہ اور وحشیانہ کارروائی کے قصوروارو ں کو کیفر کردار تک نہیں پہنچایا جاسکا۔ پچھلے دنوں ایک ذیلی عدالت نے اس قتل عام کے 39 ملزموں کو بری کردیا۔23مئی 1987کو ہونے والے اس قتل عام کے دوران اترپردیش کی پی اے سی نے مبینہ طورپرملیانہ گائوں کو چاروں طرف سے گھیر کر مسلمان مردوں ، عورتوں اور بچوں کو مبینہ طور پرموت کے گھاٹ اتارا۔ا س سے قبل پی اے سی کے ہی لوگوں نے ہاشم پورہ کے 42مسلمانوں کو ایک گاڑی میں بھر کر قریب ایک نہر کے پاس اتارا اور ان کو گولی مار کر ان کی لاشیں پانی میں پھینک دی گئی تھیں۔2016کی دہلی ہائی کورٹ نے اس معاملہ میں ہاشم پورہ قتل عام کے قصورواروں کو جن کی تعداد 16تھیں مجرم قرار دیا تھا۔دہلی ہائی کورٹ نے ایک نچلی عدالت کے پی اے سی کے اہلکاروں کو بری کرنے کے فیصلے کو الٹ دیاتھا۔
حالیہ معاملے میں ملیانہ تشدد میں ملوث 39افراد کو ایڈیشنل ڈسٹرکٹ سیشن عدالت نے بری کردیا۔عدالت کا کہنا تھا کہ ان افراد کے خلاف ایسے شواہد نہیں پیش کئے جاسکے جن سے ان کو مجرم قرار دیاجاسکے۔ اس بابت انگریزی کے ایک اخبار میں شائع ایک رپورٹ میں بتایاگیاہے کہ محمد یعقوب نامی شخص نے 93افراد کے خلاف ایک رپورٹ درج کرائی تھی۔عدالتی کارروائی اتنی طویل کھینچی کہ 93 ملزموںمیں سے 23لوگ کی موت ہوچکی تھی جب کہ 31افراد کون تھے،کہاں رہتے تھے اس بات کا پتہ نہیں لگایا جاسکا۔یہ لوگ لاپتہ قرار دیے گئے۔انگریزی اخبار میں دئے گئے ایک بیان کے مطابق محمد یعقوب کا کہناہے کہ اس کارروائی میں پی اے سی کے رول کا کہیں ذکر بھی نہیں ہوا۔محمد یعقوب اس واقعہ کے دن ان لوگوں میں شامل تھے جن کو پی اے سی نے جمع کیاتھا۔ان کا کہناہے کہ پی اے سی نے یہ کارروائی کسی بغیر کسی اشتعال انگیزی کے لئے کی تھی اور ہم لوگوں کو بری طرح مارا پیٹا تھا۔پی اے سی نے مبینہ طور پرگھروں پرحملہ کرنا شروع کردیاتھا اوراس کی سرپرستی میں ہجوم نے لوٹ مار شروع کردی تھی۔علا ء الدین صدیقی جو کہ ایک وکیل اور اس معاملہ میں متاثرین کی پیروی کررہے ہیں، کا کہنا ہے کہ اس وقت عدالتی کارروائی چل رہے تھے اس وقت 39لوگوں کو جھوڑدیاگیاتھا ان کا کہناہے کہ 34افراد کے پوسٹ مارٹم تک نہیں کئے گئے، نہ ہی ملزموں کے خلاف سی آر پی سی کے دفعہ313کے مطابق ان کے بیانات بھی درج نہیں کئے گئے اور نہ ان سے پوچھ گچھ کی گئی تھی۔ علاء الدین صدیقی کا کہناہے کہ اس فیصلے کے خلاف ہم ہائی کورٹ میں اپیل دائر کریں گے۔ڈپٹی ڈسٹرکٹ کونسل (اے ڈی جی سی) سچن موہن نے علاء الدین صدیقی کی اس دلیل کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ پولیس نے اس وقت ووٹر لسٹوں سے 93لوگوں کے نام نکال لیے تھے اور ان میں وہ لوگ بھی شامل تھے جو کہ مرچکے تھے اور ان کی موت ان واقعات سے ایک سال پہلے ہوچکی تھی۔
میرٹھ کے کورٹ کے فیصلے کے بعد ملیانہ گائوں کے لوگوں کا کہنا ہے کہ ان کو عدالت کے اس فیصلے سے بہت چوٹ پہنچی ہے، بربریت کا یہ ننگا ناچ ہماری آنکھوں کے سامنے ہواتھا ،پورے کے پورے خاندان کوقتل کردیے گئے تھے لیکن ہمیں عدالت پریقین ہے کہ ملزموں کو کیفر کردار تک پہنچایاجائے گا۔خبررساں ایجنسی کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے مہتاب کاکہناہے کہ یہ فیصلہ منصفانہ نہیں تھا، اس واقعہ میں ان کے والد یٰسین کی موت ہوگئی تھی جن کو گولی مار کر موت کے گھاٹ اتاردیاتھا، وہ بے قصور تھے اور کام سے گھر لوٹ رہے تھے کہ ان ماردیا گیا، ان کی لاش ایک شکر میل کے قریب سے پائی گئی تھی۔ایک اور چشم دید وکیل احمد نے کہا کہ پی اے سی کے لوگوں نے مبینہ طور پر ان افراد کو تحفظ فراہم کیا جو مسلمانوں کے گھروں کو لوٹ رہے تھے اور متاثرین کو آگ میں جھونک رہے تھے۔ان کا کہناہے کہ فسادیوں کو شدت پسندانہ عناصر نے ہمارے خلاف بھڑکایاتھا ۔
1987میں ہونے والے واقعات اس وقت رونماہوئے تھے جب بابری مسجد کو پوجا پاٹ کے لئے کھول دیاگیاتھا۔فیض آباد کے عدالت کے اس فیصلے کا اثر پوری ریاست میں محسوس کیا گیاتھا۔ کانگریس کے دور میں ہونے والے اس واقعہ سے ملک بھر میں ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات کی یاد تازہ ہوگئی تھی۔کانگریس کے دوراقتدار میں بھیانک فسادات ہوئے۔
1967میں بڑے واقعات ہوئے تھے۔ بعدازاں 1884میں دہلی میں دنگا ہوا تھا بڑی تعداد میں سکھوں کونشانہ بنایاگیا تھا۔ 1983میں آسام کا بدنامہ زمانہ نیلی قتل عام ہواتھا اور 1980کے مرادآباد فسادات کو آج تک لوگوں کے ذہن میں تازہ ہے۔2اپریل کے میرٹھ کی عدالت کے فیصلہ میںجولوگ بری ہوئے ہیں وہ کیلاش بھارتی، کالی چرن، سنیل پردیپ، دھرم پال، وکرم تلک رام،ساراچند، دیاچند، پرکاش رام جی لال، غریب داس ، بھکاری نترام،مہندر ویرسنگھ، راکیش، جیتے، کتنو، شانش، نریندر، کانتی،ترلوک چند، اوم پرکاش، کنہیا، اشوک، روپ چندر، اوم پرکاش، پورن،نریش کمار، راکیش، کندر پرکاش، ستیش ، لکشمی، وجندر اورپانچ دیگر شامل ہیں۔ راجیوگاندھی کے دوراقتدار میں ہونے والے فسادات کی 28جون 1987میں سی بی آئی نے بھی جانچ شروع کی تھی۔
سینئر صحافی قربان علی نے اس معاملہ میں الٰہ آباد ہائی کورٹ میں 2022میں عرضی داخل کی تھی اور اس عرضی میں مطالبہ کیاتھاکہ پی اے سی کے رول کی جانچ کی جائے اور متاثرین کومعاوضہ دیا جائے۔ اپریل سے جون 1987 تک چلنے والے میرٹھ ملیانہ ہاشم پورہ فسادات میں مجموعی طور پر 174 افراد جاں بحق ہوئے تھے۔ یہ سرکاری اعداد وشمار تھے،مگرغیر سرکاری اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ ان فسادات میں 350 لوگ مارے گئے تھے۔کسی بھی قانون ،نظم ونسق سے متعلق معاملہ میں پولیس ، قانون نافذ کرنے والے اداروںاور سرکاری انتظامیہ کا رول اہم اور کافی حدتک فیصلہ کن ہوتاہے۔ پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی غیر جانبداری ظالم میں ڈراورمظلوم میں ہمت اور حوصلہ عطا کرتی ہے۔ اگر اس طرح کے واقعات میں بھی مگر جہاں پولیس اور قانون نافذکرنے والے اداروں کو ان کے کرتوتوں کیلئے سزا نہ ملے تو یہ پورے نظام ،نظم ونسق اور عدل پرسوالیہ نشان لگتا ہے۔ اس طرح کے واقعات کو دیکھ کرقومی اور بین الاقوامی سطح پرہمارے اداروں کا وقار دائو پر لگا ہوتا ہے۔tq
ملیانہ قتل عام :نظام انصاف کا ٹیسٹ کیس
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS