نصاب میں تبدیلی

0

عام طور پر یہ کہاجاتا ہے کہ تاریخ قدیم واقعات، حقائق، حکمرانوں اور دیگر اہم شخصیات کے کارناموں کا تحریری ثبوت ہوتی ہے۔ اس میں مختلف ممالک اور مختلف ادوار کے سیاسی، سماجی، اقتصادی اور ثقافتی حالات کی نشان دہی کی جاتی ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ تاریخ کا میدان اس سے بھی بہت وسیع ہے۔ادنیٰ اعلیٰ اور پست و بالا کی کسی تفریق کے بغیر اس میں بنی نوع انسان کی پوری زندگی تحریری شکل میںدرج کی جاتی ہے۔زندہ قومیںتاریخ کے ان ہی اوراق سے اپنے لیے سبق اورعبرت حاصل کرکے ان غلطیوں سے خود کو باز رکھتی ہیں جو غلطیاںماضی کی قوموں کو ذلت، رسوائی، پسپائی اور زوال کی طرف لے گئیں۔ لیکن آج ہندوستان میں تاریخ سے سبق اور عبرت پکڑنے کا کام لینے کے بجائے اندھی عصبیت اور مسلم دشمنی میں تاریخ کو مٹانے اور نئے سرے سے لکھنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
خبر ہے کہ نیشنل کونسل آف ایجوکیشنل ریسرچ اینڈ ٹریننگ (این سی ای آرٹی) نے درجہ دہم کے تاریخ، علم سماجیات اور ہندی کے نصاب میں کئی تبدیلیاں کی ہیں۔ان تبدیلیوں کی وجہ یہ بتائی گئی تھی کہ اس سے اسکولی بچوں کے کندھوں سے اسکول بیگز کا بوجھ کم کرنا ہے۔ لیکن ان تبدیلیوں کو دیکھ کر یہ لگ رہاہے کہ اس کی وجہ اور مقصد اسکول بیگز کا وزن کم کرنا نہیں بلکہ نصاب سے ایسے تمام مواد کو ہٹانا ہے جو موجودہ حکمرانوں کے سیاسی نظریہ کے علی الرغم اوران کی نفرت انگیز سیاست کی راہ میں روڑہ ہیں۔تاریخ کی کتاب سے مغلیہ سلطنت سے متعلق ابواب کو ہٹا یا گیا ہے تو ہندی کے نصاب سے سوریہ کانت ترپاٹھی نرالا اور رگھوپتی سہائے فراق گورکھپوری کی غزلوں کو نکالاگیا ہے۔ ان تبدیلیوں پر ماہرین تعلیم اور سول سوسائٹی کا ایک بڑا طبقہ سخت معترض ہے۔ جب سے بی جے پی مرکز اوردیگر ریاستوں میں برسراقتدار آئی ہے، ایسے کئی اعتراضات مسلسل ہورہے ہیں کہ حکومت، سنگھ-بی جے پی کے سیاسی نظریات کو عام آدمی پر تھوپنے کی کوشش کررہی ہے جو ہندوستان کے کثیر ثقافتی اور جمہوری پس منظر میں لایعنی و بے فیض ہی نہیں بلکہ مستقبل کیلئے ضررر ساں بھی ثابت ہوگا۔
علم سماجیات میں ’سردجنگ‘ سے متعلق ابواب ختم کردیے گئے ہیں۔ تاریخ کے نصاب سے مغلیہ دور سے متعلق کئی حصے جیسے ’بادشاہ اور تاریخ: مغل دربار (16ویں اور 17ویں صدی)‘ اوردرجہ دوازدہم کی تاریخ کی کتابوں سے نکالے گئے موضوعات میں ’اکبر نامہ‘ (اکبر کے دور کی سرکاری تاریخ) اور ’بادشاہ نامہ‘ (مغل بادشاہ شاہ جہاں کی تاریخ)، مغل بادشاہ اور ان کی سلطنتیں، مخطوطات کی تشکیل، مثالی ریاست، دارالحکومت، عدالتیں،تحفے، شاہی خاندان، شاہی بیوروکریسی، مغل اشرافیہ، اطلاعات و سلطنت اور سرحدیں نمایاں ہیں۔ علم سماجیات میں ’امریکی بالادستی‘ اور ’سرد جنگ کا دور‘ جیسے ابواب کوخارج کر دیا گیا ہے۔ موجودہ تعلیمی سال سے ہونے والی یہ تبدیلیاں صرف درجہ دوازدہم تک ہی محدود نہیں ہیں، بلکہ دہم اور یاز دہم جماعتوں کی کتابوں سے بھی بہت سے ابواب ہٹا دیے گئے ہیں۔ درجہ یازدہم کی تاریخ کی کتاب سے ’مرکزی اسلامی خطے‘، ’تہذیبوں کا تصادم‘ اور ’صنعتی انقلاب‘ جیسے ابواب کو ختم کردیا گیا ہے۔ اسی طرح درجہ دہم کی کتاب ’جمہوری سیاست-2‘ سے ’جمہوریت اور تنوع‘ ’مقبول جدوجہد اور تحریک‘ اور ’جمہوریت کے چیلنجز‘ جیسے اسباق بھی ہٹائے جاچکے ہیں۔نصاب میں یہ تبدیلی ملک بھر کے ان تمام اسکولوں اور طلبا پر لاگو ہوگی جہاںاین سی ای آر ٹی کی کتابیں نصاب کا حصہ ہیں۔ اس میں سی بی ایس ای اور اترپردیش بورڈ بھی شامل ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ نصاب میں یہ تبدیلی صرف اسکولی تعلیم تک محدود نہیں ہے بلکہ اسے یونیورسٹی کی سطح پر بھی نافذ کیا جارہا ہے۔ بی جے پی اور آرایس ایس کا یہ پرانادعویٰ ہے کہ تاریخ کی کتابیں بائیں بازو کے مورخین نے لکھی ہیں جنہوں نے ہندو بادشاہوں اور سلطنتوں کے تعاون کو نظرانداز کرکے مغل دورحکومت کے بارے میں حاشیہ آرائی کی ہے۔
نصاب میںیہ تبدیلیاں اپنے ساتھ کون سے ثمرات لے کر آئیں گی، یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا لیکن ان تبدیلیوں سے اتنا ضرور ہوگا کہ ہماری تعلیم حاصل کرنے والی نسل نہ صرف اپنی تاریخ کے اہم حقائق و واقعات سے محروم رہ جائے گی بلکہ دوسرے ممالک کے ایسے واقعات بھی اس کی نظروں سے اوجھل رہیں گے جنہوں نے دنیا کی صورت گری میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔ہمارے بچے پہلی عالمی جنگ کاسبب بننے والے عناصراربعہ غیر اخلاقی اتحاد، سامراجیت، عسکریت پسندی اور قوم پرستی کی مضرت رسانی سے ناواقف توہوں گے ہی دنیا کو بدل دینے والے صنعتی انقلاب کے اسباب و علل کے علم سے بھی محروم ہوجائیں گے۔نہ تو خون ریز روسی انقلاب کی تباہ کاریاں علم میں ہوںگی اور نہ دنیا فتح کرنے والے نپولین کے حوصلوں سے ہمارے بچے سبق لے سکیں گے اور نہ ہٹلر کی آمریت کے نقصانات کا انہیں اندازہ ہوگا۔ نصاب میں ایسی تبدیلی ہماری نسلوں کو علم سے سیراب کرنے کے بجائے انہیں ہی تاراج کرنے کا سبب بن سکتی ہے۔بہتر ہوگا کہ حکومت تاریخ مٹانے اور نئے سرے سے لکھنے کے لایعنی اورضرر رساں عمل سے گریز کرتے ہوئے تاریخ کے تجربات سے سبق پکڑے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS