آزادی کے بعد جب ملک پر ہندوستانی آئین کا نفاذ ہوا ہے اس میں تمام پسماندہ، محروم طبقات کی فلاح و بہبود نیز انہیں قومی دھارے میں شامل کرنے کے لیے خصوصی طورپر ریزرویشن کا حق دیاگیا، لیکن یہ بھی ایک المیا ہے کہ اس کے چند ماہ بعد ہی ایک صدارتی حکم نامہ سے سیکولر آئین کو مذہب کے رنگ میں رنگ کر تمام غیرہندوں کو ریزرویشن کے آئینی حق سے محروم کردیاگیا۔ حالانکہ یہ آئینی حق آئین کی دفعہ 341 کے تحت پیشہ سے دلت و پسماندہ طبقات کے لوگوں کی پسماندگی دور کرکے انہیں قومی دھارے میں شامل کرنے کے لیے دیاگیاتھا، یہ ریزرویشن بلاتفریق مذہب تمام ہندوستانیوں کو ان کی اقتصادی، سماجی، تعلیمی پسماندگی کے خاتمہ کے لیے دیاگیاتھا، تاکہ دیگر ہندوستانیوں کے ساتھ ساتھ ان طبقات کی آئندہ نسلیں بھی مساوات کا عملی ثبوت بن سکیں ۔ لیکن ہمارے ملک کے سیکولر آئین کو مذہب سے جوڑ کر نہ صرف یہ کہ ایک خاص طبقہ کوموقع دیاگیا بلکہ ایک خاص طبقہ کو تمام آئینی حقوق سے محروم کرکے انہیں پسماندہ سے انتہائی پسماندہ بنادیاگیا۔ ان کے سماجی، معاشی، تعلیمی کے ساتھ ساتھ سیاسی حقوق پر قدغن لگا دیاگیا۔ 26جنوری 1950کو ملک میں نیا آئین نافذ ہوا، جس کی دفعہ 341میں پیشہ سے دلت تمام طبقات کو خصوصی مراعت دی گئیں لیکن ،اگست 1950میں صدارتی حکم نامہ سے اس میں غیرہندووں پرپابندہ عائد کرکے ملک کے دستور کو بدرنگ کرنے کی مذمو م کوشش کی گئی۔ جس کے منفی اثرات آج تک مرتب ہورہے ہیں اور کئی نسلیں اس کی زد میں آکر پسماندگی کا شکار ہوچکی ہیں۔ بعد میں اس میں کچھ ترمیم کرکے بودھ اور سکھ دلتوں کو اس کا حق دلایاگیا لیکن ملک کی سب سے بڑی اقلیت مسلمان اور ا س کے بعد عیسائی آج تک اس سے محروم ہیں۔ اس کے بعد جب جب ریاستی حکومتوں نے مسلمانوں کی پسماندگی دور کرنے کے لیے کسی خصوصی مراعت کی کوشش کی تواسے مذہب کے نام پر غیر آئینی قرار دیاجانے لگا۔ اس کی مخالفت ہوتی رہے، حالانکہ ایسا کہنے والوں کی زبان پر آج تک یہ بات نہیں آئی کہ کسی ریاست نہیں بلکہ پورے ملک میں جو نا انصافی ہورہی ہے اور آئینی کی قدروں کو پامال کیا جارہا ہے۔ سیکولر آئین کو مذہب کے رنگ دیا جارہا ہے۔ اس سے بھی ختم ہونا چاہئے، آئین کی روح سے تمام ہندوستانیوں کو عملی طورپرمساوی حقوق ملنا چاہئے ۔ انہیں تعلیم ، ملازمت ، سیاست میں بھی حق ملنا چاہئے۔ کیونکہ 341 پر مذہب کی پابندی کے سبب جو ظاہری نقصان ہورہا ہے اس سے زیادہ سیاسی نقصان بھی ہورہا ہے۔ کیونکہ اسی آئین نے دلت پسماندہ طبقات کی پارلیمنٹ اور اسمبلیوں میں نمائندگی کو یقینی بنانے کے لیے جن اسمبلی و پارلیمانی حلقوں کو ان کے لیے ریزرو کیا ہے اس میں اسی طبقہ و پیشہ سے وابستہ مسلمان ووٹ تو دے سکتا ہے لیکن الیکشن نہیں لڑسکتا۔ اس سے بڑھ جو ظلم ہے وہ یہ پورے ملک میں جن پارلیمانی و اسمبلی حلقوں کو ان طبقات کے لیے ریزرو کیاگیا ،ا ن میں سے بیشترحلقوں میں آبادی کاتناسب مسلمانوں کا زیادہ ہے۔ اس سے سینکڑوں نشستوں پر اکثریت کے باوجود مسلمان کبھی کامیابی حاصل نہیں کرسکتے۔ کرناٹک میں مسلم ریزرویشن کے خاتمہ کی جو لوگ طرفداری کررہے ہیں انہیں اس جانب بھی توجہ مرکوز کرنا چاہئے کہ یہ جو73 سال سے نا انصافی و ظلم ہورہا ہے اس کو کیسے ختم کیاجائے۔ کیسے تمام ہندوستانیوں کو مساوی حق دلایاجائے۔ آخر آخر جسٹس راجندر سچر کمیشن، رنگ ناتھ مشرا کمیٹی کی رپورٹ میں بھی انکشافات ہوچکے ہیں کہ مسلمانوں کو خصوصی ریزرویشن کی اشہد ضرور ت ہے کیونکہ اس سے ملک کا بڑا نقصان ہورہا ہے۔ یہ تمام نقصانات کانگریس ہی کے دور حکومت سے شروع ہوئے ہیں۔ جو آج تک جاری ہیں۔ گزشتہ دنوں موجود وزیراعظم نے پسماندہ مسلمانوں کو قریب لانے کی بات کہہ یہ تو ثابت کردیاکہ ملک کو ان کی ضرورت ہے لیکن کیا صرف ووٹ بینک تک کیوںکہ اس پراب تک کوئی پختہ لائحہ عمل مرتب نہیں ہوا کہ انہیں کیسے قریب لایاجائے گا۔بلکہ حکومت کی جانب سے آئین کی دفعہ 341پر سے مذہب کی پابندی ہٹائے جانے کے بجائے اس کا اندازہ لگانے اور تخمینہ لگانے کے لیے مزید ایک کمیٹی بنادی گئی، جس کی رپورٹ آئندہ پارلیمانی الیکشن 2024کے بعد آئے گی، یعنی ایک بارپھر پسماندہ مسلمان کو صرف ووٹ بینک کی طرح استعمال کرلیا جائے۔ وزیراعظم کے اس بیان سے یہ بھی ثابت ہوگیا ہے کہ موجود ہ حکومت کو باخوبی اندازہ ہوگیا ہے کہ ا س کا ووٹ بینک کھسک رہا ہے۔ لہٰذا پسماندہ مسلمانوں کا ووٹ حاصل کیاجائے۔ شروع شروع میں تو پسماندہ طبقات اور برادریوں کے لیے کام کرنے والی تنظیموں نے وزیراعظم کے بیان کا خیر مقدم کرتے ہوئے ستائش بھی کی، لیکن جیسے انہیں انداز ہ ہو ا کہ یہ بھی صرف ایک سیاسی فائدہ حاصل کرنے کا حربہ تو وہ بھی محتاط و مستعد ہوگئے ، انہوں نے مطالبہ کرنا شروع کردیا کہ جب آئین کی دفعہ 341 سے مذہب کی پابندی میں جزوی ترمیم کرکے بودھ اور سکھوں کو اس کا فائدہ دلایا جاسکتا ہے تو مسلمانوں اور عیسائیوں کو کیوںنہیں۔ ان کے لیے تو حکومت نے کوئی کمیٹی نہیں بنائی تھی، پھر اب کیوں؟ پھر سچر کمیشن، رنگ ناتھ مشرا کمیٹی کی رپورٹ تو پہلے سے موجود ہے جو پارلیمنٹ میں پیش بھی ہوچکی ہے، اس پر بحث ہوچکی۔ اسی کو تسلیم کرلیا جائے۔ اس سے صاف ظاہر ہوگیا ہے کہ موجودہ حکومت بھی پسماندہ مسلمانوں اور عیسائیوں کو کچھ دینا نہیں چاہتی۔ اب کرناٹک میں 4 فیصد مسلمانوں کا ریزرویشن ختم کرکے پورے ملک کے مسلمانوں کو عموماً اور پسماندہ مسلمانوں کو خصوصاً یہ انتباہ دے دیا ہے کہ انہیں حکومت سے ملے گا کچھ نہیں۔ انہیں تو بس ووٹ دینے کا حق، ا ن کے سماجی، تعلیمی، معاشی و سیاسی حالات میں کچھ تبدیلی نہیں آئے گی۔ اب یہ تمام سیاسی جماعتوں کو غور ہی نہیں بلکہ حتمی فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ ملک کے سیکولر آئین کی بقاء و تحفظ کے لیے آئین کی دفعہ 341 پر لگی مذہب کی پابندی کو ہٹا کر تمام ہندوستانیوں کو مساوی حقوق دلانے کے لیے پرعزم ہے۔ جہاں تک معاملہ سپریم کورٹ میں مقدمہ کا ہے تو جب حکومت حتمی فیصلہ کرلے گی کہ تمام ہندوستانیوں کو حق دلانا ہے تو مقدمہ از خود ختم ہوجائے گا اور حکومت کا فیصلہ عوام کے حق میں ہوگا۔
[email protected]
مسلم ریزرویشن آئینی حق!
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS