عبدالسلام عاصم
متحد نیم متحد اور غیر متحد اپوزیشن موجودہ حکومت کو اقتدار سے بے دخل دیکھنا چاہتی ہے اور حکومتِ وقت حزب اختلاف کو غیر متحد رکھنے کے ہر طرح کے جتن میں مصروف ہے۔ بے روزگاری کے موجودہ عہد میںاِن تمام کاموں کیلئے درکار افرادی قوت تمام سیاسی کاروباریوں کو بہ آسانی بہم ہے۔ پِس رہے ہیں تو بس وہ لوگ جو امکانات کے رخ پر ووٹ ڈالتے ہیں اور پھراندیشوں کے ساتھ کبھی پانچ سال تو کبھی ایک سے زیادہ دہائیاں گزارنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔
اکثر یہ سوال کیا جاتا ہے کہ کیسے بدلے گا موجودہ تکلیف دہ منظر نامہ! یہ سوال خود کو بے گناہ دکھانے کی کوشش میں وہ لوگ بھی کرتے ہیں جو راست اور بالواسطہ طور پر اس منظرنامے کے خالق ہیں۔یہ وہ موقع پرست لوگ ہیں جو ہر فائدے کی خبرکی سُرخیوں میں اپنا نام دیکھنا چاہتے ہیں اور ہر نقصان میں رودالیوں کا روپ دھار لیتے ہیں۔ ماضی میں ایک فرقے کے ایسے ہی عناصر عظمت رفتہ کی دکانیں کھولے ہوئے تھے اور دوسری طرف اس منظرنامے سے بیزاری کو بیداری میں بدلنے کی منظم کوشش جاری تھی۔ پھر ایک دن پلڑے کا توازن بدل ہی گیا۔ کھونے والوں کو اِس حد تک کھونے کا اندازہ نہیں تھا اور پانے والوں کو اتنا کچھ پانے کی امید نہیں تھی کہ دامن ہی میں نہ سمائے۔
اقتدار رخی سیاست سے خواہ وہ نام نہاد سیکولر خیمے کی ہو یا غیر سیکولر سمجھی جانے والی کسی سوچ کی، عوام الناس کو ہرگز کوئی فیض نہیں پہنچتا۔ البتہ کامیابی کا نشہ سر چڑھ کر بولنے کے ساتھ ہی قدموں کو بھی کبھی ایسے موڑ پر بہکا دیتا ہے کہ سمتوں کی شناخت مشکل ہوجاتی ہے۔ سابقہ صدی کی ساتویں دہائی میں کچھ ایسے ہی نشے نے اُس وقت کی سیاسی قیادت کے قدموں کو ڈگمگادیا تھا۔ موجودہ حکومت کے خلاف بھی جس کے دس سال پورے ہونے جارہے ہیں، ایک سے زیادہ اقتدار بدر حلقوں کی مورچہ بندی جاری رہی۔ حکومتِ وقت کا حال یہ ہے کہ وہ اپنی آئینی ذمہ داریوں سے عہدہ بر آ ہونے کے بجائے انہی سے الجھتی نظر آ رہی ہے۔ سلسلہ اسی رخ پر جاری رہا تو عجب نہیں کہ 2029 تک ایک بار پھر 1977کا اسٹیج تیار ہوجائے۔ دونوں طرف یہی بے ڈھنگی رفتار رہی تو اس اسٹیج پر جلوہ دکھانے والوں کی بھی وہ دھما چوکڑی مچے گی کہ ایک بار پھر 1980 کی طرح ڈھائی سال میں ہی اسٹیج منہدم ہو جائے گا۔
جاری سیاسی رجحانات بتاتے ہیں کہ 2024 کی آزمائش سے بظاہر حکمراں حلقہ کامیاب گزر سکتا ہے۔ اس کی وجہ یہ نہیں کہ موجودہ حکومت کے تعمیری کارناموں کی فہرست ناقابل شمار ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مذہبی منافرت کا جو بے نامی کاروبار نام نہاد سیکولرسٹوں نے سابقہ صدی میں غیر محسوس طریقے سے چلا رکھا تھا وہ مبینہ پیرانِ دیر و حرم کے ہاتھوں اب برانڈیڈ کاروبار میں بدل گیا ہے۔ یہ بظاہر اسی کاروبار کا نتیجہ ہے کہ حکمراں حلقوں کے ذمہ داران کچھ بھی اناپ شناپ بک دیتے ہیں اور ان سے کوئی باز پرس نہیں ہو تی۔ دوسری طرف اپوزیشن کے لیے جیسے دستور زبان بندی نافذ ہے، گھر میں بھی اور باہر بھی۔ موجودہ حکومت کو ماضی قریب کے قومی سیاسی تجربے سے سبق لینا چاہیے۔
جو لوگ تغیر پذیر دہائیوں کا بے باک اور بے لاگ جائزہ لینے کے متحمل ہیں، انہیں خوب پتہ ہے کہ ہم سبھی منطقی انجام کی طرف بڑھ رہے ہیں، جس کے سامنے آنے کے بعد ہی کوئی تبدیلی آئے گی۔ اس انجام سے ہم کتنے دور ہیں اس کا اندازہ لگانا تو آسان نہیں، البتہ بعض دوسری تبدیلیوں کے تئیں ہوش مند اقوام میں جو بیداری پیدا ہو رہی ہے، اس سے یہ امید بندھی ہے کہ ہماری نئی نسل کی توجہ بھی اُس سیاست کی طرف سے ہٹائی جا سکتی ہے جس نے معاشرے کو بری طرح نفرت سے آلودہ کر دیا ہے۔
پہلے جہاں آفاقی کتابوں کے حوالے سے کہا جاتا تھا کہ کہ دنیا ایک روز ختم ہو جائے گی، وہیں اب ادعائیت کی جگہ شہادت سے کام لینے والے سائنس داں ارتقا کے سفر کے کبھی نہ کبھی کسی نہ کسی شکل میں اختتام سے اتفاق کرنے لگے ہیں۔ اسی ہفتے اقوامِ متحدہ کی طرف سے جاری ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ آب و ہوا میں ناموافق تبدیلیوں پر قابو پانے میں دنیا تیزی سے ناکامی کی طرف بڑھ رہی ہے۔ گویا طے ہے کہ دنیا اب ختم ہونے والی ہے۔ بر صغیر کے غیر سائنس داں فرزانوں کو تو اُن کی محدود نگاہی کی وجہ سے آفات سماوی میں لڑکیوں کی جینس، مخلوط تعلیم اور نام نہاد عریانیت کا ہی دخل نظر آ تا ہے۔ لیکن سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ فطرت کی عنایات کے اندھا دھند استحصال کے نتیجے میں 2030 کے اوائل تک آب و ہوا میں تیز تر تبدیلیاں آسکتی ہیں۔ اس طرح آفات سماوی میں اس قدرشدت آجائے گی کہ انسانی زندگی کے لیے ان کا سامنا کرناانتہائی مشکل ہوجائے گا۔
اس لحاظ سے دیکھا جائے تو مخدوش حال دنیا کی بقا کے بس دس سال رہ گئے ہیں۔ یعنی ہر گزرتے دن کے ساتھ ہم ایک ایسے مستقبل کی طرف بڑھ رہے ہیں جہاں دنیا کے مختلف حصوں میں بسنے والے کروڑوں لوگوں کو ایسی خطرناک موسمی آفات کا سامنا ہو سکتا ہے جس کا انہوں نے کبھی تصور بھی نہیں کیا ہوگا۔ ایسا کسی ایک خطے میں نہیں، دنیا کے مختلف خطوں میں پیش آسکتا ہے۔ عالمی موسمیاتی رپورٹ میں عام طور پر درجۂ حرارت میں اضافے پر تشویش اور حالات پر قابو پانے کی صورتوں تک باتیں محدود رکھی جاتی ہیں۔ سائنس داں یہ بتا کر بے چینی پھیلانا نہیں چاہتے کہ موثر تدارکی اقدامات کی عدم موجودگی میں یہ درجۂ حرارت تمام حدود پار کرگیا تودنیا کو ہلاکت خیز خطرات اور آفات کا سامنا ہوگا۔ بہ الفاظ دیگرفانی دنیا کی حتمی تصدیق ہو جائے گی۔
کیا یہ انکشافات اور حقائق کافی نہیں کہ ہم تمام تر نمائشی محبت اور جبلی نفرت کے بے ہنگم دائرے سے باہر نکل کر کھلے دل سے مان لیں کہ ہمیں دردِ دل کے واسطے اِس دنیا میں لایا گیا ہے۔ ہم نمائشی اطاعت اور اس کے طور طریقوں میں کاروباری اختلاف کیلئے پیدا نہیں کیے گئے۔ ہم نے بت سازی اور بت شکنی کے ظاہری مفہوم کو تو جی بھر کے موجب نزاع بنا لیا لیکن انسان سازی کی آزمائش پر پورے نہیں اتر پائے۔ ایسا اس لیے نہیں ہوا کہ ہم نے جستجو کا وہ سفر ہی ترک کردیا جس کی وجہ سے ہم فرشتوں سے افضل قرار پائے تھے۔ دوسری ترقی یافتہ اقوام اس معاملے میں فرشتوں سے ہی نہیں ہم سے بھی افضل ثابت ہوئیں۔
اس لحاظ سے دیکھا جائے تو سیاسی، سماجی اور تہذیبی اعتبار سے ہم بڑی تیزی سے نئی نسل کے لیے نظیر نہیں بلکہ عبرت بننے جا رہے ہیں۔ اس لیے بہتر ہے کہ اِس دروغ گوئی کا سلسلہ ختم کیا جائے کہ ’’ہندوستان میں رہنے والے سبھی لوگ بلاتفریق مذہب و ملت امن پسند ہیں، صدیوں سے ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر رہتے آئے ہیں اوران کے درمیان نفرت اور پھوٹ ڈالنے کی کوئی کوشش آج تک کامیاب نہیں ہو سکی!!!‘‘۔ اس جھوٹ کے بجائے آئیے اس سچ کے ساتھ نئی نسل سے رجوع کریں کہ ’’معاف کرنا بچو! بہت ہوگیا، اب’بالواسطہ نفرت‘ پھیلانا بند کیا جارہا ہے۔ کیونکہ اس کا ’راست نقصان‘ اب برداشت سے باہر ہے۔۔۔‘‘
افسوس اس بات کا ہے کہ فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات سے رجوع کرنے کی روایت میں مطلق کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ لوگ تشدد کے واقعات اور امن کی اپیل دونوں کو بھنانے سے آج بھی باز نہیں آ رہے ہیں۔ ایسا یکطرفہ طور پر نہیں ہوتا۔ دونوں طرف جذبات سے کھیلنے والے اسی روایتی کھیل میں دہائیوں سے مصروف ہیں۔ اس ملک کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ سمجھدار اور باشعور طبقے کا لیبل از خود اپنے ماتھے پر چسپاں کر کے گھومنے والے لوگ فرقہ وارانہ تشدد کے کسی بھی دو واقعات کے درمیان(تھکے ہوئے) نام نہاد امن کے وقفے میں حکمرانوں کے ساتھ عیاشی کرنے میں لگے رہتے ہیں اور جب پھر سے کہیں دنگا شروع ہوجاتا ہے تو ایک دم سے ملک و ملت کے خیرخواہ بن کر سامنے آجاتے ہیں۔ اس کی تازہ مثال ہم سب گزشتہ مہینے رام لیلا گراونڈ میں دیکھ چکے ہیں۔ آئیے اس سے پہلے کہ سائنس اور مذاہب دونوں کے ہاتھوں سے ہمارے بچوں کے آئندہ دس سال ایکدم سے پھسل جائیں:
چل کے ہم ایک ہی تسبیح کے دانے بن جائیں
عشق کے سارے ہی فرزانے دِوانے بن جائیں
(مضمون نگار یو این آئی اردو کے سابق ادارتی سربراہ ہیں)
[email protected]