خواجہ عبدالمنتقم
ہماری نظیری عدالتیںکتنے ہی معاملات میں بشمول فاطمہ بی بی بنام ایڈووکیٹ جنرل (ILR6Bom.42) والے معاملہ میں واضح طور پر یہ فیصلہ دے چکی ہیں کہ وقف کی جانے والی جائیداد کی واضح طور پر صراحت کی جانی چاہئے۔جہاں تک دہلی ہائی کورٹ کے روبرو 123 جائیدادوں کی واضح صراحت اورقانونی حیثیت کا سوال ہے تو ان کے وقف جائیداد ہونے کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہوگا کہ ان کا بطور وقف جائیداد اندراج سرکاری گزٹ میں موجود ہے اور جب کسی جائیداد کو بعد از اندراج قانونی طور پر وقف جائیداد قرار دیا جا چکا ہوتو کسی بھی فریق کا اس کے بر عکس کوئی بھی دعویٰ قابل قبول نہیں اور اسے خارج کرنے کے علاوہ عدالت کے روبرو اور کوئی متبادل بھی نہیں ۔ایکٹ کی دفعہ4 کے ایک فقرۂ شرطیہ میں یہ وضاحت بھی کی جا چکی ہے کہ پہلے سے ہی نوٹیفائی ہوچکی وقف جائیدادوں کی بابت بعد میں ہونے والے سروے میں نظرثانی نہیں کی جائے گی، سوائے اس صورت کے، کہ جب کسی قانون کی توضیعات کے مطابق ایسی جائیداد کی حیثیت بدل نہ گئی۔
اب رہی بات اوقاف سے متعلق تنازعات کے بارے میں اختیار سماعت کی تو اس کی وضاحت دفعہ6 میں ان الفاظ میں کردی گئی ہے کہ اگر کوئی سوال پیدا ہو جائے کہ آیا اوقاف کی فہرست میں وقف جائیداد کے طور پر صراحت کی گئی کوئی مخصوص جائیداد وقف جائیداد ہے یا نہیں یا اس فہرست میں صراحت کیا گیا وقف، سنی وقف ہے یا شیعہ وقف ہے، تو وقف کا بورڈ یا متولی یا متاثر شخص اس سوال کے فیصلے کے لیے ٹریبیونل میں دعویٰ دائر کرسکے گا اور اس معاملے کی بابت ٹریبیونل کا فیصلہ حتمی ہوگا۔ویسے بھی ایکٹ کی دفعہ 7کے تحت اوقاف کی بابت تنازعا ت کا فیصلہ کرنے کا اختیار صرف دفعہ 83 کے تحت قائم کیے گئے ٹریبیونل کو ہی ہے۔ دفعہ7 میں بھی یہ التزام ہے کہ اگر ایکٹ ہذا کے نفاذ کے بعد کوئی سوال یا تنازع پیدا ہوجائے کہ آیا اوقاف کی فہرست میں وقف جائیداد کے طور پر صراحت کی گئی کوئی مخصوص جائیداد وقف جائیداد ہے یا نہیں یا اس فہرست میں مصرحہ وقف، سنی وقف ہے یا شیعہ وقف ہے، تو وقف کا بورڈ یا متولی یا دفعہ 5کے تحت فہرست اوقاف کی اشاعت سے متاثر کوئی شخص، اس جائیداد کی نسبت اختیار سماعت رکھنے والے ٹریبیونل میں اس سوال کے فیصلے کے لیے درخواست دے سکے گا اور اس پر ٹریبیونل کا فیصلہ حتمی ہوگا۔دریں صورت ڈپٹی لینڈاینڈ ڈیولپمنٹ افسر(ایل اینڈ ،ڈی او )کی جانب سے جاری کیا جانے والا یہ حکم کہ ان جائید ادوں پر وقف بورڈ کا کوئی اختیار نہیں مندرجہ بالا دفعات کی کھلم کھلا خلاف فرضی ہے اور یہ یقینی طور پر قابل منسوخی ہے۔
سپریم کورٹ کے جسٹس ایم وائی اقبال اور جسٹس سی ناگپن پر مشتمل ایک دو رکنی بنچ نے 2013 کے ترمیمی ایکٹ اور ایک رکنی ٹریبیونل کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ اس ترمیمی ایکٹ کی واحد غرض اس ٹریبیونل کو سہ رکنی بنا کر سول عدالتوں اور عدالت مال کے اختیار سماعت کو ختم کرنا تھا۔(ملاحظہ فرمائیے اے آئی آر2016 ایس سی 381) ۔
جیسا کہ اوپر قلمبند کیا گیا کہ اوقاف سے متعلق تنازعات کے معاملے میں ٹریبیونل کا فیصلہ حتمی ہے آئیے اس حوالے سے ٹریبیونل کی قانونی حیثیت کا مزید گہرائی کے ساتھ جائزہ لیتے ہیں۔ٹریبیونل کو سول عدالت سمجھا جائے گا اور اسے و ہی اختیارات حاصل ہوںگے جو مجموعہ ضابطہ دیوانی، 1908 کے تحت کسی دعوے کی سماعت یا کسی ڈگری یا حکم کی تعمیل کرتے وقت سول عدالت کے ذریعہ استعمال کیے جاسکتے ہوں۔مجموعہ ضابطہ دیوانی، 1908 میںدرج کسی امر کے باوجود ٹریبیونل ایسا ضابطہ اپنائے گا جس کی صراحت کی جائے۔ ٹریبیونل کا فیصلہ حتمی ہوگا اور عرضی کے فریقین اس کے پابند ہوںگے اور اس فیصلے کا وہی اثر ہوگا جو سول عدالت کے ذریعہ صادر ڈگری کا ہوتا ہے۔ٹریبیونل کے کسی فیصلے کی تعمیل اس سول عدالت کے ذریعہ کی جائے گی جسے ایسا فیصلہ مجموعہ ضابطہ دیوانی، 1908کے مطابق تعمیل کے لیے بھیجا جاتا ہے۔ٹریبیونل کے ذریعہ دیے گئے کسی فیصلہ یا حکم کے خلاف، خواہ وہ عبوری ہو دیگر کوئی اپیل نہیں ہوگی لیکن اس کہ ساتھ یہ فقرۂ شرطیہ ضرور جوڑ دیا گیا ہے کہ ہائی کورٹ، ازخود یا کسی ناراض شخص کی درخواست پر کسی ایسے تنازعے، سوال یا کسی ناراض شخص کی درخواست پر کسی ایسے تنازعے، سوال یا دیگر معاملے سے، جس کا ٹریبیونل کے ذریعہ فیصلہ کیا گیا ہے، متعلقہ ریکارڈ ایسے فیصلے کے صحیح، جائز یا مناسب ہونے کی بابت اپنے اطمینان کی غرض کے لیے طلب کرسکے گی اور اس کی جانچ کرسکے گی اور ایسے فیصلے کی توثیق کرسکے گی، اسے الٹ سکے گی یا اس میں ردوبدل کرسکے گی یا ایسا دیگر حکم صادر کرسکے گی جو وہ ضروری سمجھے۔
اس ایکٹ میں ٹریبیونل سے بھی یہ توقع کی گئی ہے کہ وہ جب کبھی کسی وقف یا وقف جائیداد سے متعلق کسی تنازعے، یا سوال، یا دیگر معاملے کے فیصلے کے لیے ٹریبیونل میں کوئی درخواست دی جاتی ہے، تب وہ اپنی کارروائیاں حتی الامکان عجلت کے ساتھ کرے گا اور ایسے معاملے کی سماعت کے اختتام پر جلد ہی اپنا فیصلہ تحریری شکل میں دے گا اور ایسے فیصلے کی نقل تنازعے کے ہر ایک فریق کو دے گا۔ مزید یہ کہ کسی وقف، وقف جائیداد یا دیگر معاملے سے متعلق کسی تنازعے، سوال یا دیگر معاملے کی بابت، جس کا اس ایکٹ کے ذریعہ یا اس کے تحت ٹریبیونل کے ذریعہ فیصلہ کیا جانا درکار ہو، کسی سول عدالت، عدالت مال یاکسی دیگراتھارٹی میں کوئی دعویٰ یا دیگر قانونی کارروائی نہیں ہوگی۔ دریں صورت کسی بھی سرکاری ادارے، حاکم یا اتھارٹی کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ ایسی کسی جائیداد کو جسے وقف جائیداد نوٹیفائی کیا جا چکا ہے اسے ڈینوٹیفائی کر سکے ۔
یاد رہے کہ و قف قانون اسلام کی ایک اہم اصطلاح ہے۔ اس کے لفظی معنی قیام اور ٹھہراؤ کے ہیں۔ کسی قیمتی شے کو خدا کی ذات میں مقید کردینا اور اس سے حاصل ہونے والی منفعت کو دوسروں پر مذہبی، خیراتی وخیری اغراض کے لیے نیک نیتی کے ساتھ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے وقف کردینے کا نام وقف ہے ۔ وقف کوئی عطیہ نہیںبلکہ Endowmentہے یعنی وقف کرنے کا عمل ہے۔ وقف کا دائمی، ناقابل تنسیخ یا ناقابل انتقال ہونا ضروری ہے۔دریں صورت اس کی اس نوعیت کے سبب اس کی اس حیثیت کو کسی بھی صورت میں ختم نہیں کیا جا سکتا اور اس کی اس حیثیت یا نوعیت کو ختم کرنے والا کوئی بھی عاملانہ حکم باطل اور کالعدم ہوگا۔ امید کی جانی چاہئے کہ ہائی کورٹ ان تمام تکنیکی پہلوؤں پر غور کرنے کے بعد کوئی معقول فیصلہ دے گی۔
(مضمون نگار آزاد صحافی، مصنف، سابق بیورکریٹ اور عالمی ادارہ برائے انسانی حقوق سوسائٹی کے تاحیات رکن ہیں)
[email protected]
123 وقف جائیدادوں کو دائرۂ اوقاف سے باہر کرنے کا کوئی قانونی جواز نہیں
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS