ازقلم: امام علی فلاحی ۔
ایم۔اے جرنلزم اینڈ ماس کمیونیکیشن ۔
مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدرآباد ۔
عورت جسے ایثار کا پیکر، وفا کی دیوی اور کلیوں کا حسن کہاجاتاہے ہے۔
وہ عورت جو ویرانوں کی رونق، گھر والوں کی زینت اور جو اندھیرے دلوں کا اجالا ہوتی ہے، دنیا کی بڑی بڑی ہستیوں نے اسکا احترام کیا ہے، اسکی عزت و عظمت کا اعتراف کرکے اسکو سر و آنکھوں پر جگہ دی ہے اور اسکے تقدس کے آگے سر خم تسلیم کر دیا ہے ۔
لیکن افسوس کہ آج عورتوں کے ساتھ وہی سلوک کیا جا رہا ہے جو زمانہ قدیم میں کیا جاتا تھا، آج ہندوستان میں ہر آئے دن عورتوں اور لڑکیوں کو جنسی تشدد کا شکار بنایا جا رہا ہے، انکی عزت کو تار تار کیا جا رہا ہے اور عصمت دری کے درندوں کو قید و بند کی صعوبتوں سے آزاد رکھا جا رہا ہے۔
صابیہ، آصفیہ، بلقیس کی عزتوں کو خاک میں ملانے والے وحشی درندے آج بھی کھلے سانڈ کی طرح گھوم رہے ہیں۔
صابیہ اور آصفہ کی زندگی کو تو ختم کرکے انکی ہستی اور انکے مقدمے تو کو نیست و نابود کردیا گیا اور جو باحیات ہے اسکی نظروں کے سامنے شہر کے وحشیوں کو ننگا نچایا جا رہا ہے ۔
2018 میں ہندوستانی حکومت کی رپورٹ میں اس بات کو ذکر بھی کیا گیا تھا کہ خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی کا تقریباً 34000 واقعہ ایک سال میں درج ہوا ہے۔
لیکن خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کا آج بھی یہ کہنا ہے کہ جنسی زیادتی کے واقعات تو بے شمار ہوتے ہیں لیکن بہت سے واقعات کو بدنامی کے خوف سے رپورٹ نہیں کیا جاتا ہے، بہت سے مان باپ اپنی عزت کے خاطر رپورٹ درج نہیں کراتے۔
اسکے علاوہ کبھی جہیز کے نام پر اسے پریشان کیا جا رہا تو کبھی مردوں کے حقوق کی ادائیگی کا حوالہ دیکر مارا پیٹا جا رہا ہے، اسکا اندازہ مرکزی وزارت داخلہ کی اس رپورٹ سے بھی لگایا جا سکتا ہے جس میں بتایا گیا تھا کہ گزشتہ ایک دہائی سے ملک میں خواتین پر ظلم و زیادتی کے واقعات بڑھ کر دوگنا ہو چکے ہیں اور نوبت یہ آگئی ہے کہ اوسطاً ہر چھ منٹ میں کوئی نہ کوئی عورت کسی جرم کے لپیٹ میں آہی جاتی ہے ۔
اسکے علاوہ کبھی ان عورتوں کو محبت کے نام پر دھوکہ دیا جاتا ہے، وفا کے نام سے کھلواڑ کیا جاتا ہے۔
زمانے کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے آج لوگوں نے عصمت دری کی شکل کو گرل فرینڈ اور بوے فرینڈ کے شکل میں بدل دیا ہے، اور آج ہر روز گرل فرینڈ اور بوے فرینڈ کے نام پر ہزاروں لڑکیوں کی عزت کو خاک میں ملایا جاتا ہے، پھر نتیجہ کیا ہوتا ہے؟ آخر میں وہ لڑکیاں بھی خود سے گھن محسوس کرکے خود کو موت کے حوالے کر دیتی ہیں اور وہ درندے اسکی موت کے بعد دوسرا شکار تلاش کرنے لگتے ہیں۔
کیا ان ظالموں اور جابروں کو یہ پتہ نہیں کہ عورت کیا چیز ہے؟
ارے یہ وہی عورت ہے جسکی ہستی سے عالم کی رنگینیاں ہے، یہی وہ عورت ہے جو ٹوٹے دلوں کو جوڑنے والی، زخموں پر مرہم رکھنے والی ہے۔
یہ وہی بنت حوا ہے جسکی فطرت میں مرد سے وفاء نبھانے کی وہ صلاحیت ہے کہ چاہے مرد کیسا بھی ہو لیکن وہ اپنے سچے دل سے وفا کرتی ہے، عورت کسی بنا پر غصہ کر سکتی ہے اور مرد کی مشکوک حرکتوں کی بنا پر لڑ جھگڑ سکتی ہے لیکن کبھی خود سے جڑے ہوئے اس مقدس رشتے سے دستبردار ہوکر بے فائی نہیں کرسکتی، اگر دیکھا جائے تو ان سب میں بھی اس کی محبت چھپی ہوئی ہوتی ہے لیکن بہت افسوس کی بات ہے کہ مر د ایک چھت کے نیچے رہ کر بھی کبھی عورت کی خوبیوں کو نہیں پرکھ سکتا، کچھ بھی ہوتا ہے ہر زاویے سے عورت کو ہی سہنا پڑتا ہے اور صبر کرنا پڑتا ہے۔
اسکے صبر کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا کہ جب گھریلو مسائل یا کسی بھی نوعیت کے مسئلے میں مرد اور عورت کے بیچ کچھ ان بن ہوجاتی ہے تو مرد کہیں نہ کہیں چلا جاتا ہے ، یہاں تک کہ اپنا پیار، اپنا رشتہ، اپنی اولاد سب کو کچھ دیر کے لئے بھول کر گھر سے نکل جاتا ہے پھر جب بھی گھر میں آتا ہے تو عورت کے ساتھ اکڑ کر برتاو کرنا مردانگی سمجھتا ہے لیکن عورت کا ظرف اتنا بڑا ہوتا ہے کہ وہ کبھی اپنا پیار ، توجہ، چاہت نہیں بدلتی اور خاموشی سے اچھے وقت کی آس لگائے اپنی زندگی گزارتی رہتی ہے کہ کبھی نہ کبھی حالات درست ہو جائیں گے لیکن زندگی کئی بار ایسی چال چلتی ہے کہ عورت کے حصے میں تکلیف اور درد کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آتا، لیکن یہی عورت تمام دردسہنے کے باوجود بھی اپنے شوہر سے ٹوٹ کر محبت کرتی ہے اور اپنے شریک حیات کی تمام کوتاہیوں اور غلطیوں کو معاف کرکے وقت سے ایک نئی اُمید باند ھتی ہے اور اپنے رشتوں میں اتنی گنجائش رکھتی ہے کہ سامنے والے سے بے خوف نظر ملا سکے ۔