کیا اردگان اپنی انتخابی کامیابیوں کا سلسلہ جاری رکھ پائیں گے؟

0

ڈاکٹر محمد ضیاء اللّٰہ

گزشتہ دو دہائی کے دوران ترکی اور اس کے صدر رجب طیب اردگان دونوں اس طرح مربوط ہوگئے ہیں کہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ اردگان ہی ترکی ہیں اور ترکی ہی اردگان ہیں۔ یہی مقام ہندوستان کی سیاست میں کبھی آنجہانی اندرا گاندھی کو حاصل ہوگیا تھا اور بجا طور پر کہا جاتا تھا کہ اندرا انڈیا ہیں اور انڈیا اندرا ہیں۔ آج بھی نریندر مودی کی شہرت آسمان چھو رہی ہے لیکن ابھی تک اندرا گاندھی جیسا مقام حاصل کرنے میں وہ کامیاب نہیں ہوئے ہیں۔ خیر ذیل کی سطور میں ہندوستانی سیاسی قائدین کی کرشماتی شخصیتوں پر تبصرہ مقصود نہیں ہے اس لئے مسئلہ کا رخ ترکی کی طرف کرتے ہیں۔ ترکی میں یہ سال صدارتی انتخابات کا سال ہے۔ بحث و گفتگو اور تجزیوں کا رخ اسی جانب تھا لیکن اچانک سے تباہ کن زلزلوں کی وجہ سے ایک انسانی بحران پیدا ہوگیا اور پوری توجہ اس مسئلہ پر مرکوز ہوگئی تھی۔ البتہ اب جب کہ زلزلہ کے بعد وقتی آبادکاری کے کاموں کو بہت حد تک انجام دیا جا چکا ہے تو ایک بار پھر سے سیاسی مبصرین کی توجہ ترکی کے صدارتی انتخابات کی جانب مبذول چکی ہے کیونکہ 14 مئی 2023 کو صدارتی انتخاب کے انعقاد کا اعلان کیا جا چکا ہے۔ جہاں تک صدر کے منصب کے لئے امیدواروں کے ناموں کے اعلان کا تعلق ہے تو حکمراں پارٹی یعنی حزب العدالۃ و التنمیۃ جس کا انگلش مخفف AKP ہے اس کی جانب سے تو رجب اردگان ہی ہیں۔ اصل معاملہ یہ پیش نظر تھا کہ اپوزیشن پارٹیوں کی جانب سے کس کے نام کا اعلان کیا جائے گا۔ اس بابت کئی مہینوں تک اپوزیشن پارٹیوں کے درمیان ناموں پر غور ہوتا رہا لیکن کسی بھی نام پر اتفاق نہیں ہو پا رہا تھا اور یہ پارٹیاں سخت اختلافات کا شکار تھیں لیکن آخرکار ’جمہوریت خلق پارٹی‘ کے صدر کمال کلیگدار اوغلو کے نام پر فیصلہ کیا جا چکا ہے اب وہی رجب طیب اردگان کے مد مقابل ہوں گے اور ترکی کی چھہ سیاسی جماعتوں کے اس اتحاد کی وہ نمائندگی کریں گے۔ اردگان کی پارٹی کو اسلام پسند کہا جاتا ہے جبکہ ’جمہوریت خلق پارٹی‘ کمال اتاترک کے فلسفہ کی امین ہے اور اشتراکی جمہوریت کے نظریہ پر کاربند ہے۔ اس وقت ترکی کی کلیدی اپوزیشن پارٹی کا رول یہی پارٹی ادا کر رہی ہے۔ اگرچہ ترکی کی دیگر اپوزیشن پارٹیاں بھی اس انتخاب کے لئے اپنے امیدواروں کے ناموں کا اعلان کریں گی لیکن اب تقریبا یہ طے شدہ ہے کہ بنیادی طور پر مقابلہ اردگان اور کمال اوغلو کے درمیان ہی ہوگا۔ کمال کلیگدار اوغلو کے بارے میں ایک بہت دلچسپ پہلو یہ ہے کہ ان کا انتخاب اپنے پارٹی کے صدر کے طور پر 2010 میں ہی عمل میں آ چکا تھا لیکن اس کے باوجود وہ نہ تو 2014 میں رجب طیب اردگان کے مقابلہ میں بطور صدارتی امیدوار کھڑے ہوئے اور نہ ہی 2018 میں اور اس کی وجہ سے اوغلو کو سخت تنقیدوں کا نشانہ بھی بننا پڑا تھا۔ لیکن اس بار انہوں نے بطور امیدوار اپنا نام پیش کیا ہے اور اس کے کچھ اسباب ہیں۔ کمال اوغلو کو یہ محسوس ہو رہاہے کہ اس بار حالات بدلے ہوئے ہیں اور جیت کے امکانات نظر آ رہے ہیں کیونکہ وہ خود کو اردگان کے مقابلہ زیادہ بہتر حالت میں پا رہے ہیںاور ان کی پارٹی کے اپنے اندازے کے مطابق اردگان حزب العدالۃ و التنمیۃ کی مقبولیت میں کمی آئی ہے اور عوام کے اندر بدلاؤ کا رجحان پایا جارہا ہے۔ خاص طور سے نوجوانوں میں اس بدلاؤ کے تئیں زیادہ جوش ہے جس کی اصل وجہ یہ ہے کہ اقتصادی مشکلات کی وجہ سے جاب مارکیٹ بری طرح متاثر ہوئی ہے جس کا سیدھا اثر نئی نسل پر پڑتا ہے۔ کورونا اور حالیہ زلزلہ کے واقعات نے ان مسائل کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔ اس کے علاوہ کمال اوغلو اس اعتبار سے اپنا استحقاق ثابت کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں کہ سب سے بڑی اپوزیشن پارٹی کے صدر ہونے کے علاوہ انہوں نے محرم اینجہ اور استنبول و انقرہ کے میئروں کے مقابلہ امیدواری جیتنے میں کامیاب ہوئے جس کا سیدھا مطلب یہ ہے کہ ان کے پیچھے ایک مضبوط تنظیمی ڈھانچہ ہے اور انتخابات کی کوششوں کو ڈھنگ سے چلانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس کے علاوہ اچھی بات یہ ہے کہ تمام چھہ پارٹیوں نے انہیں اتفاق رائے سے اپنا امیدوار منتخب کیا ہے اور ابتداء میں جو بعض اختلافات سامنے آ گئے تھے ان پر قابو پا لیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ کمال اوغلو کو اس بات کا بھی فائدہ ہوگا کہ ان کی پارٹی نے جن سیاسی پارٹیوں کے ساتھ اتحاد کیا ہے ان کا تعلق مختلف سیاسی نظریات سے ہے۔ ان میں اسلام پسند بھی ہیں اور محافظین کا طبقہ بھی۔ ان میں وہ جماعتیں بھی ہیں جو قومیت پسند اور لبرل نظریات کی حامل ہیں۔ مزید برآں کلیگدار کو اپنی اتحادی پارٹیوں کے علاوہ جماعتوں سے بھی ووٹ ملنے کا امکان ہے جن میں بائیں بازو کی پارٹیاں شامل ہیں۔ اسی طرح کرد سیاسی پارٹی کے ساتھ بھی ان کی بات چیت جاری ہے اور بنیادی طور پر ڈائیلاگ کے شرط کے ساتھ انہیں تعاون کا یقین بھی دلایا گیا ہے۔ دراصل اوغلو کی کوشش یہ ہے کہ اپوزیشن پارٹیوں کو زیادہ سے زیادہ اپنی جانب لایا جائے تاکہ اردگان کے خلاف ایک مضبوط محاذ بنانے میں وہ کامیاب ہو جائیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے کوشش کی ہے کہ ترک عوام تک اپنی بات اور اپنا ایجنڈہ پہنچانے کے سلسلہ میں روایتی طرز تخاطب سے پرہیز کیا جائے اور ساتھ ہی اتفاق رائے کی سیاست کو آگے بڑھایا جائے۔ اس سلسلہ میں انہوں نے یہ کوشش بھی ہے کہ جو سیاسی پارٹیاں ماضی میں ان سے ناراض رہی ہیں ان کی ناراضگی کو دور کیا جائے اور انہیں اپنے دائرہ میں شامل کیا جائے جس میں ان کو کسی حد تک کامیابی بھی ملی ہے۔ تو کیا ان مذکورہ بالا اسباب کی بناء پر یہ رائے قائم کی جا سکتی ہے کہ کمال اوغلو اگلا صدارتی انتخاب جیت جائیں گے اور طیب اردگان جیسے کرشمائی شخصیت کے حامل سیاست داں کو شکست سے دوچار کرکے ایک عہد کا خاتمہ کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے؟ ایسا بالکل نہیں ہے۔ ترکی کی سیاست اتنی سہل نہیں ہے جتنی بادی النظر میں وہ دکھائی دیتی ہے۔ اس میں بڑی پیچیدگیاں ہیں۔ اردگان کے مقابلہ کمال اوغلو کی دقتیں بھی کم نہیں ہیں۔ اوغلو کے نام کا اعلان اتفاق رائے سے کیا گیا تھا لیکن جس قسم کے اختلافات ناموں پر غور کرنے کے دوران سامنے آئے تھے ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ سب کچھ ٹھیک نہیں ہے۔ اس کے علاوہ اوغلو کے بارے میں اس بات پر حلیف پارٹیوں کی جانب سے شبہ ظاہر کیا گیا ہے وہ غیر جانبداری سے کام لے پائیں گے۔ اس کا نقصان انہیں یہ ہوگا کہ وہ روایتی طور پر اردگان کو ووٹ دینے والوں کو قانع نہیں کر پائیں گے کہ وہ اردگان کا بدل ثابت ہو سکتے ہیں۔ جہاں تک اوغلو اور اردگان کی شخصیتوں کا تعلق ہے تو اوغلو میں اردگان جیسا کرشمہ نہیں ہے جس کا ترکی کی سیاست میں خاص دخل ہے۔ اس کے علاوہ اردگان یا ان کی پارٹی کے مقابلہ میں اوغلو یا ان کی پارٹی اب تک کوئی بھی الیکشن جیتنے میں کامیاب نہیں رہی ہے۔ خود اپنی پارٹی کا صدر بننے کے لئے اوغلو کو بڑی محنت کرنی پڑی تھی اور اس کا امکان تھا کہ وہ ہار جائیں۔ اس کے علاوہ وہ علوی اصول سے آتے ہیں اور اس کی وجہ سے بھی بعض لوگ انہیں ووٹ نہیں دیں گے۔ میرال اکشنار نے اس نقطہ کو خاص طور سے اٹھایا تھا اور کہا تھا کہ ان کو امیدوار منتخب نہ کیا جائے اس وجہ سے ان کی جیت کے امکانات بہت کم ہو جائیں گے۔ ان کے مقابلہ میں اردگان کی کرشماتی شخصیت کے علاوہ ان کا طویل تجربہ بہت مفید ہوگا۔ اردگان نے موجودہ عالمی منظرنامہ میں ترکی کو بڑی بلندی تک پہونچایا ہے اور بے شمار بحرانوں سے ترکی کو بچایا ہے۔ حالیہ زلزلہ کے بعد بھی آبادکاری کی جو کوششیں کی گئی ہیں وہ قابل تعریف رہی ہیں۔ اقتصادی معاملہ میں شرح مہنگائی میں اضافہ ضرور ہوا اور ترکی لیرہ میں بڑی گراوٹ آئی ہے لیکن اس کو بہتر کرنے کی کوشش بدستور جاری ہے اور اس کے اچھے نتائج سامنے آنا شروع ہوئے ہیں۔ اردگان کا سب سے بڑا رول یہ رہا ہے کہ انہوں نے اپنی خارجہ پالیسیوں سے ترکی کو اس بلندی تک پہونچا دیا ہے جس کا تصور ان سے قبل تک نہیں کیا جا سکتا تھا۔ یہ سارے اسباب اس جانب اشارہ کرتے ہیں کہ اگر دو مہینے کے اندر ترکی میں کوئی غیر متوقع بدلاؤ پیدا نہیں ہوا تو اردگان کو شکست دینا تقریبا ناممکن ہوگا۔

(مضمون نگار سینٹر فار انڈیا ویسٹ ایشیا ڈائیلاگ کے وزیٹنگ فیلو ہیں)

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS