آج سے ٹھیک 20سال پہلے 16مارچ 2003 کو اسرائیلی فوج کے بلڈوزروں نے امریکہ کی ایک کم عمر رضاکار راچیل کوری (Rachel Corrie)کو کچل کر ہلاک کردیا ہے۔ وہ غزہ میں رفح کے مقام پر اسرائیلی فوج کی انہدامی کارروائی کے خلاف احتجاج کر رہی تھیں۔ اس سفاکانہ کارروائی کو پوری دنیا نے بڑے غصہ اور افسوس کے ساتھ دیکھا اورآج بھی امریکہ اور دوسرے ممالک میں اس عظیم انسانیت پرست خاتون کو اس کی جرأت پسندانہ قر بانی کے لئے یاد کیا جاتا ہے۔ ایسا نہیں کہ اسرائیل کی سفاکی کے خلاف پوری دنیا منہ میں دہی جمائے بیٹھی ہے۔اسرائیل کی سفاکی کی ہمیشہ مذمت ہوتی ہے اور اب زیادہ ہورہی ہے۔ پچھلے دنوں اسرائیل کے وزیرخزانہ جوکہ وہاں کی ایک سخت گیر سیاسی جماعت کے پروردہ ہیں اور حالیہ انتخابات میں کامیاب ہوکر ممبرپارلیمنٹ بنے ہیں، نے انتہائی افسوسناک بیان دیا۔ بینزل ایسموریچ نے مغربی کنارے کے گائوں حوارہ کے بارے میں اسرائیلی سرکار سے اپیل کی تھی کہ وہ اس گائوںکو نیست و نابو د کردے۔ انہوں نے اسرائیل کے وزیراعظم بنجامن نیتن یاہو سے اپیل کی تھی کہ اسرائیل کی حکومت کو خود اس کام کو انجام دینا چاہئے۔ حوارہ گائوں کے گرد و نواح میں کئی اسرائیلی بستیاں ہیں جہاں پر دنیا بھرسے یہودیوںکو چن کر بسایا گایا ہے۔ حوارہ کے رہنے ولے اور ان اسرائیلی نوآباد شہریوں کے درمیان جھڑپیں عام ہیں۔ ان جھڑپوںمیں یہودی حکومت اپنے ہم مذہب لوگوں کی حمایت کرتی ہے۔ حوارہ گائوں کے بارے میں بینزل ایسموریچ کے بیانات پر جب عالمی برادری امریکہ اور یوروپی یونین کی اہم شخصیات نے مذمت کی تھی تو انہوںنے کہا تھا کہ میں نے جوکچھ بیان دیا تھا ذرائع ابلاغ نے اس کو توڑمروڑ کر پیش کیا ہے۔ انہوںنے کہا کہ میرے خیال میں حوارہ باغی نظریات والے لوگوںکا گائوں اور دہشت گردی کا اڈہ بن گیا ہے جہاں ہر روز یہودیوں پر حملے کئے جاتے ہیں۔وزیرموصوف مذہبی اور سخت گیر نظریات والی پارٹی Religious Zionist Partyکے ممبرپارلیمنٹ ہیں۔
خیال رہے کہ وزیر موصوف چاہتے ہیں کہ مغربی کنارے کی زیادہ تر فلسطینی آبادی کو وہاں سے بے دخل کردیا جائے اور ان کی جگہ یہودیوںکو بسایا جائے۔ مغربی کنارے پر حالیہ اسرائیلی فوج کی کارروائیوںمیں اضافے پر یوروپی یونین کی خارجہ پالیسی کے چیف جوزیف بوریل (Joseph Borrel)نے بھی اسرائیلی حکومت کی مذمت کی تھی۔ اس پر اسرائیلی حکومت نے اعلان کردیا ہے کہ بوریل کو وہ اپنے ملک نہیں آنے دیںگے۔ یہ صورت حال یوروپی یونین اوراسرائیل کے درمیان کشیدگی میںاضافے کی دین ہے۔ انہوں نے ایک اخبار میں بھی ایک آرٹیکل لکھا تھا کہ مغربی کنارے میں فلسطینیوںکو جو دقتوں اوران کی زندگیوں کو خطرات لاحق ہیں مظالم انجام دینے والوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوتی کو ظاہر کرتی ہے۔ اسرائیل کی فوج کے ذریعہ فلسطینیوںکی اموات بغیر کسی جوابدہی کے انجام دی جارہی ہیں۔ اس بیان پر اسرائیل کا ناراض ہونا غیرمتوقع نہیں تھا۔ اسرائیل نے کہا کہ دہشت گردی کے شکار افراد فلسطینیوں اور اسرائیلیوںکے درمیان توازن قائم کرنے کی کوشش نہیں ہونی چاہئے۔ اسرائیل کے وزیرخارجہ نے بوریل کے اس بیان کی مذمت کی ہے اور کہاہے کہ دہشت گردی کے شکار افراد کے درمیان کوئی تفریق نہیں کرنی چاہئے۔ خاص طورپر ایک طرف فلسطینی اتھارٹی کے ذریعہ حمایت یافتہ دہشت گرد اپنی کارروائیاں انجام دے رہے ہیں توایسے حالات میں وزیر موصوف کا یہ بیان غیرمناسب ہے۔ اسرائیل نے صاف کردیا ہے کہ ان کی حکومت اسرائیل میں ان کا خیرمقدم نہیں کرے گی۔ فی الحال یہ حکومت کا یہی موقف ہے ان پر کوئی پابندی عائد نہیں کی جارہی۔ ایک اسرائیلی سفارت کار نے نام نہ بتانے کی شرط پر یہ بیان دیا۔ جوزیف بوریل کی آمد کا یہ مناسب وقت نہیں ہے۔ دوسری جانب یوروپی یونین کی وزارت خارجہ کے ترجمان پیٹر اسٹینو نے کہا ہے کہ ان کا ادارہ اس بات سے واقف نہیں ہے کہ اسرائیل نے سرکار ی طورپر جوزف بوریل کے دورئہ اسرائیل پر کوئی پابندی عائد کی ہے۔ انہوںنے مزیدکہا کہ جوزیف بوریل کا موقف یوروپی یونین کے 27ممبر ممالک کے موقف والا بیان ہے۔ انہوںنے مزید وضاحت کی کہ اسرائیل یوروپی یونین کا ایک قریبی سیاسی اور اقتصادی حلیف ہے۔ خیال رہے کہ اسرائیل کے وزیراعظم بنجامن نیتن یاہو یوروپی یونین کے ممالک کا دورہ کر رہے ہیں۔ پچھلے دنوں انہوںنے اٹلی کا دورہ کیا تھا اب وہ جرمنی میں ہیں۔ خیال رہے کہ جرمنی وہ ملک ہے جہاں پر ہٹلر کے دوراقتدار میں یہودیوںپر بدترین مظالم ڈھائے گئے تھے اور ان کی نسل کشی کی گئی تھی۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یوروپی یونین اور اسرائیل کے درمیان مسئلۂ فلسطین پر اختلافات نئے نہیں ہیں۔ اسرائیل کی حکومت کے ذریعہ فلسطینیوں پر جو مظالم ڈھائے جاتے رہے ہیں ان کو لے کر یوروپی یونین اپنی آواز بلند کرتا رہا ہے۔ اس کے علاوہ اسرائیل یہودی بستیوںکی تعمیر اور فلسطین اور اسرائیل کے درمیان مذاکرات نہ ہونے کے لئے بھی اپنے موقف کو بلاخوف واضح کرتا رہا ہے۔ جوزیف بوریل نے پچھلے دنوں جو آرٹیکل لکھا تھا اس میں اس بات کا اعادہ کیا گیا تھا کہ ان کا ادارہ یعنی یوروپی یونین نہ تواسرائیل کی طرف ہے اور نہ فلسطینی کی طرف۔ وہ امن چاہتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ تشدد کو ترک کردینا چاہئے، دہشت گردی سے کنارہ کرنا چاہئے اوراپنے سیاسی اختلافات کو عبورکردینا چاہئے۔ انہوں نے اپنے اس معرکۃ الآرا ارٹیکل میں اپیل کی تھی کہ مقبوضہ علاقوںپر اسرائیل بستیاں قائم نہ کرے اورایک آزاداور خودمختار ریاست کے لئے مذاکرات کرے۔ یوروپی یونین کے علاوہ امریکہ نے بھی مغربی کنارے میں تشدد کی حالیہ وارداتوںمیں اضافہ پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ ہم اسرائیل کے تحفظ اورسلامتی کے لئے اپنی حمایت کا بلاشرط اعادہ کرتے ہیں۔ مگر اس کے ساتھ ساتھ امریکہ ایسے کسی بھی قدم یا عمل کے خلاف ہے جوکہ خطے میں عدم تحفظ اور اشتعال انگیز بیانات بشمول یہودی بستیوںکی توسیع کرنے والا ہو۔ یہ بات امریکہ کے وزیر دفاع لائیڈ آسٹین نے اسرائیل کے حالیہ دورے میں کہی تھی۔ انہوںنے اسرائیل کے وزیر دفاع کے ساتھ ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ دنیا بھر سے اسرائیل میں لاکر بسائے گئے یہودیوں کے فلسطینیوں پر حملے تکلیف دہ ہیں۔ ہم ان تمام اقدامات کی مخالفت کرتے ہیں جوکہ مسئلۂ فلسطین کے دوریاستی فارمولے کے امکانات کو ختم کرنے والا ہو۔
روس کے صدر بلادیمیرپوتن نے ارض فلسطین میں تشدد کی حالیہ وارداتوں پر تشویش ظاہر کی تھی اور کہا تھا کہ مسئلہ فلسطین کے حل کے لئے مذاکرات کئے جائیں۔ خیال رہے کہ ایک طرف اسرائیل کی موجودہ حکومت مغربی ایشیا کی ممالک کے ساتھ ابراہیمی سمجھوتے کے تحت مفاہمت کرے تو دوسری جانب مقبوضہ علاقوںمیں عام فلسطینیوں پر قہر توڑ دی ہے۔
٭٭٭
یوروپی یونین اور اسرائیل کے درمیان کشیدگی
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS