جمہوریت میں جہاں سرکار سے یہ امیدکی جاتی ہے کہ وہ جمہوری اصولوں کوتحفظ فراہم کرے گی اوراس بات کویقینی بنائے گی کہ کسی کے ساتھ ناانصافی، تعصب اورامتیازی سلوک نہ ہو۔ہر ایک کو مساوی حقوق حاصل ہوں، غیرجانبداری کا مظاہرہ ہواورسب سے بڑی بات یہ ہے کہ سبھی کو آزادی حاصل ہو۔ وہیں الیکشن کمیشن سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ آزادانہ اورمنصفانہ الیکشن کراکے ایسی حکومت بنوانے میں اہم رول اداکرے گا، جو عوام کی پسند کی ہواوراسے رائے دہندگان کی اکثریت نے ووٹ دیا ہو۔ اس لئے الیکشن کمیشن پر لوگوں اورسیاسی پارٹیوں کا بھروسہ بہت ضروری ہے،لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ ای وی ایم اوروی وی پیٹ کا مسئلہ اٹھایا جاتا ہے ،الیکشن کے دوران الیکشن کمیشن سے شکایات بھی کی جاتی ہے اوراس کے رول پرسوالات اٹھائے جاتے ہیں ۔اس طرح کی باتیں عموماً اپوزیشن پارٹیوں اورلیڈران کی طرف سے ہوتی ہیں ۔الیکشن کمیشن بعض الزامات کا جواب دیتاہے ، لیکن اکثروہ جواب خاموشی سے پرامن انتخابات اورعوامی فیصلے کی روشنی میں حکومت سازی سے دیتاہے ، جسے ہرکوئی تسلیم کرتاہے ، کوئی بھی اسے تسلیم کرنے سے انکار نہیں کرتا۔آزادی کے بعد گزشتہ 75 برسوں سے یہی ہورہا ہے۔ اس دوران کتنی حکومتیں آئیں اورچلی گئیں ،الیکشن کمیشن آج بھی وہی پر ہے ، بلکہ اس میں بھی کتنے ذمہ داران آئے اورچلے گئے ۔ پہلے صرف ایک الیکشن کمشنر ہوتا تھا، اب ایک چیف الیکشن کمشنر اور2اس کے معاون ہوتے ہیں ۔ملک میں جمہوریت کا سفر جاری ہے اورالیکشن کمیشن انتخابات کرانے کی بہت بڑی ذمہ داری نبھارہاہے۔اس ذمہ داری کو نبھانے کے تعلق سے عوام کی جورائے ہے اورسیاسی پارٹیوں کا جوقول وعمل ہے ، وہ اپنی جگہ ہے ۔چیف الیکشن کمشنر راجیوکمار نے اس تعلق سے بہت بڑی بات کہی ہے۔ ان کا کہناہے کہ اب بھی اور مستقبل میں بھی ہر الیکشن ہمارے لئے لٹمس ٹیسٹ ہے۔ تریپورہ، میگھالیہ اور ناگالینڈ میں اسمبلی انتخابات کے ساتھ ہی کمیشن نے 400 اسمبلی انتخابات کرانے کا ہندسہ عبور کر لیا ۔ ان کے علاوہ کمیشن نے لوک سبھا کیلئے 17 اور صدر اور نائب صدر کے عہدہ کیلئے16 انتخابات کامیابی سے کرائے ۔کمیشن پر عام ہندوستانی کے بھروسہ کا سب سے بڑا سرٹیفکیٹ یہی ہے کہ اس نے گزشتہ 75 سالوں میں 400 اسمبلی انتخابات کرانے کا ریکارڈ پارکرلیا۔ دوسری اہم بات انہوں نے یہ کہی کہ پولنگ بیلٹ کے ذریعہ ہو یا ای وی ایم کے ذریعہ، عوام اور سیاسی جماعتوں نے فیصلوں کو قبول کیا اور اقتدار کی منتقلی پرامن طریقے سے ہوئی ۔ انہوں نے کہا کہ سیاسی پارٹیاں اور لیڈرعوام کا فیصلہ قبول کرکے اقتدار سے باہرہو گئے یا اقتدار میں آئے۔ کمیشن کیلئے عوام سے ملنے والا اتنا بڑا سرٹیفکیٹ بہت ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کمیشن اور اس کے کام کاج پر ہر شہری کا کتنا اٹوٹ بھروسہ ہے۔چیف الیکشن کمشنر نے یہ بات کرناٹک اسمبلی انتخابات کی تیاریوں کاجائزہ لینے کے لئے اپنے سہ روزہ دورے کے اختتام پر بنگلورومیں میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہی ۔
چیف الیکشن کمشنر کا یہ بیان ایسے وقت آیا ہے ، جب سپریم کورٹ نے الیکشن کمشنرکی تقرری کا موجودہ سسٹم خارج کرکے ہدایت دی کہ نیاقانون بنانے تک الیکشن کمشنر کی تقرری کا وہی طریقہ ہوگا جوسی بی آئی کے سربراہ کی تقرری کاہے ۔ سپریم کورٹ کی 5رکنی بنچ نے فیصلہ سنایا کہ اب الیکشن کمشنر کی تقرری پہلے کی طرح سرکار نہیں بلکہ وزیراعظم ، لوک سبھا میں اپوزیشن لیڈر اورچیف جسٹس کی کمیٹیکی سفارش پر صدرجمہوریہ کریں گے ۔ الیکشن کمیشن پر گزشتہ کچھ دہائیوں سے ، کام کاج تقرری سے لے کر ووٹنگ کے طریقہ کار پر جتنے سوالات اٹھائے گئے ، شاید ہی کبھی اٹھائے گئے۔ اگرچہ الیکشن کمشنر کی مدت کار 6سال مقرر ہے، لیکن شاید ہی کوئی اتنی مدت تک برقرار رہتاہے ۔ایساتو نہیں ہوسکتاکہ ایسے بیوروکریٹس موجود نہیں ہیں، لیکن ایسے لوگوں کی تقرری کی جاتی ہے، جو مقررہ مدت کار سے پہلے ہی 65سال کا ہوکر ریٹائر ہوجائیں۔یہ بات سپریم کورٹ کے ججوں نے بھی سماعت کے دوران کہی تھی۔
1950سے قائم الیکشن کمیشن میں الیکشن کمشنروں کی تعدادایک سے 3ہوگئی ، ووٹنگ کا طریقہ کار بیلٹ پیپر سے ای وی ایم میں بدل گیا ۔انتخابی اصلاحات کے نام پر برابرنئے نئے قوانین بنائے جاتے ہیں اوران کا نفاذ کیا جاتاہے ۔پھر بھی سوالات اٹھائے جائیں، سپریم کورٹ مداخلت کرے اورچیف الیکشن کمشنر کمیشن کے رول اورانتخابات کے ریکارڈ بتائیں توعوام اور سیاسی پارٹیوں کا بھروسہ کیسے قائم ہوگا ؟یہ لمحہ فکریہ ہے ۔
[email protected]
الیکشن کمیشن کی آزمائش
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS