دہلی کی ادبی و تہذیبی زندگی کا حصہ ہے شنکر شاد مشاعرے

0

وویک شکلا

آج کی شام شعرو شاعری میں دلچسپی رکھنے والے دہلی والوں کو بے صبری سے انتظار رہتا ہے۔ موقع ہے شنکر شاد مشاعرے کا۔یہ ماڈرن اسکول میں منعقد ہونے جارہا ہے۔ یہ سلسلہ 1954میں شروع ہوا تھا اور تب سے بدستور جاری ہے۔ شنکرشاد مشاعرے میں ساحر لدھیانوی، جاںنثاراختر، کیفی اعظمی، فراق گورکھپوری، علی سردار جعفری، احمدفراز، بیکل اتساہی، راحت اندوری، جاوید اختر جیسے نامور شاعروں نے اپنا کلام پڑھ کر سامعین کی بھرپور داد وتحسین حاصل کی ہے۔ شنکرشاد مشاعرہ شروع سے ہی ماڈرن اسکول کے شنکرہال میں ہورہا ہے۔ ڈی سی ایم گروپ کے چیئرمین لالہ بھرت رام نے اس خاکسار کو 1998 میں اپنے 23سردار پٹیل مارگ کے بنگلے میں بتایا تھا کہ ان کے والد اور ڈی سی ایم گروپ کے فائونڈر چیئرمین لالہ شری رام چاہتے تھے کہ دہلی میں ہر سال شنکرشاد نام سے ایک مشاعرہ ہو۔ انہوں نے مشہور شاعر جوش ملیح آبادی، ہندی کے چوٹی کے ادیب رام دھری سنگھ دینکر، دہلی کے کمشنر وی شنکر اور اپنے کچھ اور کاروباریوں کو اپنے گھرمیں بلایا تھا۔ وہاں پر طے کیا گیا تھا کہ ہر سال ایک مشاعرہ ہو جس میں ہندوستان اور ہوسکے تو پاکستان کے بھی شاعر آئیں۔ تب سے ہی شنکرشاد مشاعرہ چل رہا ہے۔
کون تھے شنکرشاد
لالہ شری رام کو کونسا دہلی والا نہیں جانتا۔ صنعت کار ہونے کے ساتھ ساتھ جنگ آزادی کی تحریک میں وہ گاندھی جی کے ساتھ کھڑے تھے۔ انہوں نے اور ان کے خاندان نے راجدھانی میں شری رام کالج آف کامرس، لیڈی شری رام کالج، شری رام کلاکیندر جیسے شاندار تعلیمی اور ثقافتی اداروں کی شروعات کی تھی۔ لالہ شری رام کے چھوٹے بھائی کا نام تھا لالہ شنکرلال اور ایک بیٹے کا نام تھا مرلی دھرشاد۔ یہ دونوں اردوشاعری میں دخل رکھتے تھے۔ لالہ شنکرلال نے کستوربا گاندھی مارگ والے گھر میں مشاعرے، کوی سمیلن اور بھیم سین جوشی، اللہ رکھا خاں، پنڈت روی شنکر جیسے موسیقی کی دنیا کی بڑی شخصیتیں اپنے فن کا مظاہرہ کری تھیں۔ وہ اسی کوٹھی میں رہتے تھے جہاں اب ہندوستان ٹائمس ہائوس آباد ہے۔ جہاں تک مرلی دھر شاد کی بات ہے تو وہ ڈی سی ایم گروپ میں بھی دلچسپی لیتے تھے۔ لالہ بھرت رام بتاتے تھے کہ ان کے بڑے بھائی مرلی دھر شاد ملک کی تقسیم سے پہلے پاکستان کے اوکاڑا شہر کی ڈی سی ایم مل کے مینجمنٹ کو دیکھتے تھے۔ ان کا ایک ہوائی حادثہ میں انتقال ہوگیا تھا۔ یہ 1951کی بات ہے۔ لالہ بھرت رام اور ان کے چھوٹے بھائی لالہ چرت رام نے اپنے بھتیجے لالہ بنسی دھر کو اپنے بیٹے کی طرح ہی اہمیت دی اورسمجھا۔ لالہ چرت رام کی بیوی سمرتا چرت رام نے شری رام سینٹر قائم کیا تھا۔
شنکر-شاد مشاعرے میں دلیپ کمار
شنکرشاد مشاعرہ میں شرکت کرنے والوں کو آج دلیپ کمار کی کمی بے شک کھلے گی۔ وہ بار بار اس مشاعرے کے مہمان خصوصی ہوا کرتے تھے۔ انہیں مشاعرے کے بیچ میںنظامت کرنے والے ان سے اظہار خیال کی بھی درخواست کردیتے تھے۔ گستاخی معاف، جب اپنی نفیس اردو میں بولتے تھے تو سماں بندھ جایا کرتا تھا۔ وہ تمام شاعر حضرات پر بھاری پڑتے تھے۔ وہ بیچ بیچ میں بھی ہندی اور پنجابی میں بھی بولتے تھے۔ ان کی سامعین کی نبض پر بھی گہری پکڑ تھی۔ انہیں پتہ ہوتا تھا کہ دہلی میں پنجابی سماج خوب ہے۔ ظاہر ہے کہ ان کی تقریر سن کر سامعین نہال ہوجایا کرتے تھے۔ وہ جس پنجابی میں بولتے تھے اسے ہندکو کہہ سکتے ہیں۔ یہ پنجابی زبان کی بولی مانی جاتی ہے۔
اسی طرح سے جیسے سرائیکی یا پٹھواری ہوتی ہے۔ اس کو آزاد زبان نہیں قرار دیا جاسکتا۔ شنکرشاد مشاعرے میں شاعروں کے تازہ کلام سننے کے لئے خشونت سنگھ، روح افزا والے حکیم عبدالحمید، دہلی کے چیف ایگزیٹو کونسلر جگ پرویش چندر، مصنف پران نیول، صحافی اور ایڈیٹر کلدیپ نیر سمیت سیکڑوں دہلی والے دیر رات تک بیٹھا کرتے تھے۔ علی گڑھ کے ممتاز تاریخ داں ڈاکٹر عرفان حبیب بھی تشریف لاتے تھے۔ مشاعرے کی نظامت کی ذمہ داری کنور مہندرسنگھ بیدی کے کندھوں پر ہواکرتی تھی۔ گلزار دہلوی کی بھی کوشش رہتی تھی کہ انہیں مشاعرے کی نظامت مل جائے پر یہ ہونہ سکا۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS