عبدالسلام عاصم
مٹھی بھر شدت پسندوں اور اتنی ہی تعداد میں اُن کے پُرشور مخالفوں کے درمیان وہ لوگ بری طرح پس رہے ہیں جو (کسی عقیدہ جاتی وابستگی یا عدم وابستگی کا اعلان کیے بغیر) اجتماعی زندگی کثرت میں وحدت کے ماحول میں خوش خوش گزارنا چاہتے ہیں۔ یہ بیشتر ترقی پذیر ملکوں پر محیط منظر نامہ ہے۔ اس منظرنامے کی خوفناکی کہیں شدید ہے تو کہیں شدت پکڑنے کی بظاہر منتظر۔ اس صورت حال کو بدلنا ناممکن نہیں تو اتنا آسان بھی نہیں کہ سر جوڑ کر بیٹھو، غور کرو اور عملی قدم اٹھاکر قصہ پاک کردو۔
مشکل یہ نہیں کہ متاثرہ معاشرے میں پڑھی لکھی اکثریت عقائد کی حقیقت جانتے ہوئے خاموش ہے، مشکل یہ ہے کہ وہ نجات پانے کی حکمت کا بھی علم رکھتی ہے لیکن اُسے عمل میں لانے کی ہمت نہیں جٹا پا رہی ہے۔ یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ عافیت پسند حلقہ جو بین فرقہ اکثریت میں ہے، کئی دہائیوں سے نسلِ آئندہ کو وہ مصیبت سونپتا آ رہا ہے جسے وہ خود جھیلنے اور چپ رہنے پر مجبور ہے۔ وقت آگیا ہے کہ حالات سے بیزار موجودہ نسل کے لوگ جاگیں اور اس بات کو سمجھیں کہ معاشرتی انقلاب کی حکمت ہمیشہ نئی نسل کو سامنے رکھ کر اختیار کی جاتی ہے۔ یوروپ کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ وہاں راتوں رات تبدیلی نہیں آئی۔
درونِ ملک فرقہ وارانہ نفرت کا ماحول اتنا نیا نہیں ہے کہ ہر واقعہ کو چونک کر دیکھا جائے اور رونے دھونے کے بعد ازالے کے پٹے پٹائے اقدامات کی نوک پلک درست کرنے میں ایام ضائع کیے جائیں۔راجستھان کے دو نوجوانوں پر ہلاکت خیز تشدد تک دراز ہونے والے دہائیوں پر محیط اِن واقعات کے محرکات کی ہمارے ہی بزرگوں کے ایک سر پھرے حلقے نے پرورش کی تھی اور نسلوں کو یہ سلسلہ آگے بڑھانے کی ذمہ داری سونپی جاتی رہی۔ تقسیم ہند سے عین پہلے، تقسیم کے دوران اور بعد کے حالات کی تاریخ اس قدر مبسوط اورجدید دستاویزی ریکارڈ کا حصہ ہے کہ اس کے اوراق بدل کر ہم دونوں میں سے کوئی اپنی نئی نسل کو گمراہ کرسکتا۔ دونوں طرف کے لوگوں کی اکثریت نے صد حیف بین فرقہ ہم آہنگی کے حق میں قول سے عمل تک کی راہ کبھی ہموار نہیں کی۔ نتیجے میں اُن کے بچے نسل در نسل آج تک مصیبت جھیل رہے ہیں۔ بہ الفاظ دیگر تشدد کے واقعات کی کوئی نئی تاریخ کہیں مرتب نہیں ہو رہی ہے۔ سب کچھ سلسلہ در سلسلہ چل رہا ہے۔ کثرت میں وحدت کے جسم کو خارجی نقصان پہنچتا دیکھنے والوں کی ہی موجودہ نسل داخلی تقسیم کے صدمات جھیلنے پر مجبورہے اور اقتدار کے ایوانوں میں نفرت کی سیاست کیش کرنے کے صرف ذمہ دار بدلتے آ رہے ہیں، کردار نہیں۔
بین مذاہب ہم آہنگی کا دو ٹوک مطلب یہ ہے دو الگ الگ مذاہب کے ماننے والے ایک دوسرے کی خوشیوں (تہواروں) اور ایک دوسرے کے دکھ میں عملاً شریک ہوں۔ یعنی ایک دوسرے کے یہاں جشنِ ولادت سے لے کر ارتھی /جنازے کو کندھا دینے تک سبھی ساتھ ہوں۔ نہ کسی کے قبرستان جانے سے دھرم نشٹ ہو نہ کسی کے شمشان جانے سے دین متاثر ہو۔ غم تو اس کا ہے کہ اس نوع کے جامع ربط سے کام لینے کی وکالت سے زیادہ مخالفت کی دہائیاں گواہ ہیں۔ بر صغیر میں ہمیں یعنی ہم دونوں کو اپنے اپنے طور پر اپنے نام نہاد مذہبی رہنماؤں سے اِس رخ پر صحت مند عملی رہنمائی کبھی نہیں ملی۔ کیوں نہیں ملی! اس راز پر ایسا کوئی دبیز پردہ نہیں پڑا جسے اٹھایا نہیں جاسکتا۔ دونوں طرف کے نظریاتی اسکولوں نے کثرت میں وحدت سے عملاً اس لیے گریز کیا کہ کہیں وہ انفرادی شناخت نہ گم ہو جائے جسے معاشرہ کو سنوارنے اور سجانے سے زیادہ ہم ڈھونے پر مجبور کر دیے گئے ہیں۔ یہ اسی بائی ڈیفالٹ شناخت کے منفی کاروبار کا نتیجہ ہے کہ حقیقی انسانی شناخت کو لاحق خطرہ شدید سے شدید تر ہوتا جا رہا ہے۔
کل تک جہاں ہمیں ایک دوسرے کے تہواروں سے عملاً دوری اختیار کرنے اور زبانی یا تحریری طور پر خوشی اور غم کے اظہار تک محدود رہنے کی تلقین کی جاتی تھی وہیں آج ایک دوسرے کی خوشی میں شرکت کو بھی تشدد کا جواز بنایاجانے لگا ہے۔ میرے خیال میں گزشتہ دنوں گربہ میں شامل ہونے والے دوسرے مذہب کے نوجوانوں کی پٹائی کی سرخیاں ابھی ان لوگوں کے ذہن سے محو نہیں ہوئی ہوں گی جن کی وجہ سے ہم ایک دوسرے کے ہمسائے کم اور اجنبی زیادہ ہیں۔ ہم دونوں اسی دوری کو جھیلنے کی نام نہاد مجبوری کے مارے ہوئے ہیں۔ جو کچھ ہو رہا ہے وہ اسی دوری کا نتیجہ ہے جس کی ذمہ داری دونوں طرف کے ملی رہنمایان قبول کرنے کو تیار نہیں۔ انہیں صرف اُن اسباق سے غرض ہے جن کو رٹا کر وہ خود تو سُرخرو بنے پھرتے ہیں اور رٹنے والے بے چارے لہو لہان ہونے پر مجبور کر دیے گئے ہیں۔
تو کیا یہ منظر نامہ زیر مطالعہ ایسی کسی تحریر سے بدلا جا سکتا ہے! نہیں، ہرگز نہیں۔ منظر نامے پینٹر نہیں بدلتے، انہیں بدلنے کیلئے ایسے دماغ کی ضرورت ہوتی ہے جو کسی نظریے کے وجود کا منکر نہ ہوتے ہوئے بھی اجتماعی زندگی میں حقیقی/ سائنسی علم کی روشنی میں آگے بڑھتا ہو۔ ایسا دماغ رکھنے والے ترقی پذیر اور ترقی یافتہ ہر معاشرے میں خاصی تعداد میں پائے جاتے ہیں اورامکانات کا سارا کاروبار انہی سے چل رہا ہے۔ دنیا کی کوئی پانچ سو عالمی سطح کی کامیاب کمپنیوں کے 60 چیف ایگزیکٹیو افسران ہندوستانی یا ہند نژاد ہیں۔ ہمارے یہاں بدقسمتی سے ایسا دماغ رکھنے والوں کی اکثریت عافیت پسند ہے اور یہ عافیت پسندی نئی نسل کے حق میں انتہائی تشویشناک ہے۔ باقی بچے مٹھی بھر ردعمل پسند لوگ آ بیل مجھے مار کا دعوت نامہ بن کر اکثر سامنے آجاتے ہیں اور عقیدہ جاتی شدت پسندوں کو للکارنے لگتے ہیں۔ اس سے بات بننے کے بجائے اور بگڑنے لگتی ہے۔ اندیشوں سے بھرے موجودہ منظرنامے کا یہ بھی ایک تکلیف دہ حصہ ہے۔ ٹیلی اور یو ٹیوب مباحثوں میں اکثر ایسے ناعاقبت اندیش جو اپنے آپ کو بظاہر مذاہب بیزار دکھاتے ہیں، مذہبی انتہاپسندوں کے ساتھ عقائد کے معاملے میں غیر ضروری بحث شروع کر دیتے ہیں۔
ملک کے حالات ایسے ردعمل پسند حلقوں کی وجہ سے کل کی طرح آج بھی اُن لوگوں کے حق میں موافق نہیں جو حکمت سے کام لینا تو چاہتے ہیں لیکن ہمت نہیں جٹا پا رہے ہیں۔ دوسری طرف ملک کے تازہ افسوسناک واقعات پر مختلف شعبہ ہائے زندگی کے نمائندوں کے جو تاثرات میڈیا کے ذریعہ سامنے آ رہے ہیں، ان کا تجزیہ کرنے سے تو یہی محسوس ہوتا ہے کہ ’’بین فرقہ نفرت کے عملی فروغ‘‘ اور اس کے انسداد کی ’’عملی کوشش سے احتراز‘‘ دونوں نے کارپوریٹ کی شکل اختیار کرلی ہے اور دونوں اُن اشتہاری کوششوں کا حصہ بن گئے ہیں جن کی وجہ سے موافقت اور مخالفت دونوں کیش کرنے کا کاروبار شباب پر ہے۔ گودی میڈیا اس صورت حال سے رات دن منفی فائدہ اٹھا نے میں لگا ہے۔
گزشتہ دنوں سوشل میڈیا پر ایک تحریر نظر سے گزری تھی اس کے چند اقتباسات نام نہاد سیاسی، سماجی اور مذہبی رہنماؤں کے سامنے رکھ کر اپنی بات ختم کرتا ہوں: بنیادی طور پر علم سے دو طرح کے شعور نکلتے ہیں۔ دونوں کے نتائج ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہوتے ہیں۔ علم سے جو مثبت شعور نکلتا ہے وہ ترقی، خوشحالی اور امن و استحکام کا باعث بنتا ہے۔ علم سے ہی منفی شعور بھی نکلتا ہے جو انسانی سماج کے لیے خرابی اور نقصان کا باعث بنتا ہے۔ انا پرستی، شخصیت پرستی، توہم پرستی، نفرت، عداوت، منافقت، تعصب، جہالت اور انتہا پسندی کا تعلق منفی شعور سے ہے جس کا ہم ایک تخریب پسند، بدحال اور غیر انسانی معاشرے کی صورت میں اپنے آس پاس اور ایک سے زیادہ ترقی پذیر ملکوں میں تجربہ کررہے ہیں۔ مثبت شعور بیباکی، خلاقی، دانش، اخوت، محبت، استقامت، انسانیت، رواداری، عدل، انصاف، آزادی اور احترام سے عبارت ہے، جس کا نظارہ دور سے ہم تحقیق و جستجو پسند خوشحال امریکی اور یوروپی معاشروں میں کر رہے ہیں۔
(مضمون نگار یو این آئی اردو کے سابق ادارتی سربراہ ہیں)
[email protected]