خواجہ عبدالمنتقم
فلسطین اور اسرائیل کے مابین عارضی امن معاہدہ کی مزید توسیع اور پائیداری امریکہ کی نیک نیتی اور اس کے فعال کردار پر منحصر ہے۔امریکہ ایک سپرپاور رہا ہے اور آ ج بھی ہے خواہ وہاں کے حکمرانوں کی کوئی کتنی بھی تنقید کرے لیکن جب جب دو ملکوں کے درمیان کوئی تنازع پیدا ہوتا ہے یا کسی ملک میں کوئی خلفشار پیدا ہوتا ہے تو عام طور پر امریکہ ہی مطلوبہ یا غیر مطلوبہ مداخلت کرتا ہے یا ثالث / مصلح کا رو ل ادا کرتا ہے یا ثالثی کی پیشکش کرتا ہے۔ابھی تک کوئی بھی ملک،خواہ روس ہو یا چین عالمی پیمانے پر وہ درجہ، مرتبہ یا حیثیت حاصل نہیں کرسکا ہے جو امریکہ کو حاصل ہے۔آ ج تک امریکی ڈالر کو ہی تجارتی سودوں اور لین دین میں سرداری حاصل رہی ہے۔
اسرائیل کو اپنا وجود اتنا ہی پیارا ہے جتنی فلسطینیوں کو اپنی سر زمین اور کیوں نہ ہو؟ اس وقت امریکہ اور تمام مغربی ممالک یوکرین جنگ میں الجھے ہوئے ہیں اور اسرائیل بھی یوکرین کا انتہائی قریبی ہونے کے ناطے بظاہر فلسطینیوں سے کسی بڑے تصادم کے حق میں نہیں،اس لیے ہوسکتا ہے کہ امریکہ اور مغربی ممالک مشرق وسطیٰ میں امن قائم کرانے کے صدق دلی سے خواہاں ہوں۔ فلسطینیوں کو چاہیے کہ وہ بھی اس ضمن میں مثبت رویہ اختیار کریں اور موجودہ صورت حال سے فائدہ اٹھائیں۔ اس مسئلہ کا واحد حل یہی ہے کہ دونوں فریقین اپنے رویہ میں نرمی لائیں۔ ’اینٹ کا جواب پتھر سے‘ دینے کی بات کرنا بہت آسان ہے مگر جب جواب دینے کے لیے پتھر بھی دوسروں سے مانگنے پڑیں تو اس کا انجام وہی ہوتا ہے جو آج یوکرین کا ہو رہا ہے۔ اگر جنگ بند بھی ہو جائے تو کیا جن لاکھوں لوگوں کی جانیں گئی ہیں، انہیں دوبارہ زندگی مل جائے گی۔ کچھ لوگوں کو یہ غلط فہمی ہے کہ ایک دن اسرائیل کا وجود ہی ختم ہوجائے گا۔ یاد رہے جب کوئی ملک دنیا کے نقشہ میں اپنی جگہ بنا لیتا ہے تو اس کا وجود ختم ہو ہی نہیں سکتا۔ فرعون، نمرود، قارون، ہامان و شداد جیسے نافرمان اپنے فطری انجام کو پہنچ کر دنیا کے لیے عبرت بن سکتے ہیںاور عادو ثمود قوم صالح، قوم لوط جیسی گمراہ قومیں صفحہ ہستی سے مٹ سکتی ہیں لیکن آج کی دنیا میں کسی ملک کانام نقشہ ٔ عالم سے نہیں ہٹ سکتا اور نہ ہٹایا جا سکتا ہے۔
کچھ لوگ اہل کتاب ہوتے ہوئے بھی فریق ثانی کے مظالم سے تنگ آکر یا دوسروں کے بہکانے پر یا تشدد کو ذریعہ ٔ حصول ہدف سمجھ کر کسی مجبوری، جنونی کیفیت یا شدید ترین جذبۂ انتقام کے تحت تشدد کا راستہ اختیارکرلیتے ہیں۔ یہ راستہ تو اہل کتاب کیا،ہر اہل عقل و دانش کے لیے ہی بڑا پرخار اور تکلیف دہ ہے۔اسرائیل جیسے پڑھے لکھے اور سمجھدار لوگوں کو سمجھنا چاہیے کہ وہ پڑوسی نہیں بدل سکتے۔ فلسطینیوںکی بھی بادل نخواستہ ہی سہی یہی سوچ ہونی چاہیے۔ ممالک کی تو بات کیا اگر عام زندگی میں بھی اچھے پڑوسی نہ ملیں تو زندگی وبال جان بن جاتی ہے۔اگر پڑوسی کمزور ہو تو اس کی مدد کرنی چاہیے،نہ کہ اس کے خلاف اپنی طاقت کا مظاہرہ۔
جہاں تک سیاسی مسائل کے حل کی بات ہے تو ان کا حل گفتگو سے ہی نکل سکتا ہے۔ مسئلہ فلسطین کا جو مذہبی پہلو ہے، اس کا پرامن حل یہودیوں، مسلمانوں اور عیسائیوں کے مذہبی رہنما نرم رویہ اختیار کرکے باآ سانی نکال سکتے ہیں۔وہ اس حقیقت سے با خبر ہیں کہ جتنا خون خرابہ مذہب کی بنیاد پر ہوا ہے اور کسی بنیاد پر نہیں ہوا ہے۔ کل ہو سکتا ہے یوکرین اور روس کے مابین امن معاہدہ ہوجائے لیکن مشرق وسطیٰ میں یہ کام جوئے شیر لانے سے کم نہیں۔ مگر یاد رہے کہ مشرق وسطیٰ میں پائیدار امن قائم نہ ہونے کی صورت میں امن عالم کا حصول نا ممکن ہے۔اس علاقہ میں ضرورت ہے پرچم ابیض کی نہ کہ جوہری اور جدید ترین ہتھیاروں کی۔ ان ہتھیاروں کے نتا ئج ہم سب کے سامنے ہیں۔اگر مشرق وسطیٰ میں امن قائم نہیںہواتو مشر ق وسطیٰ کے ممالک دو زمروںمیں بٹ جائیں گے، ایک اسرائیل حامی اور دوسرا اسرائیل دوست، جو سلسلہ شروع بھی ہوچکا ہے۔ یہ دونوں دست و گریباں رہیں گے اور دنیا مزہ لے گی اور انہیں ایک دوسرے سے لڑا کر اپنا الو سیدھا کرے گی۔ کوئی ایران کی پشت پناہی کرے گا تو کوئی سعودی عرب کی۔
جب ہم نے اپنی کتابIslam’s Big ‘No’ To Terrorism صدر بش کو بھیجی تو واشنگٹن سے نئی دہلی میں امریکی سفارت خانہ کو یہ ہدایت ملی کہ وہ ہم سے رابطہ قائم کرے۔ چند دن بعد جناب ڈارشنر، جو غالباً فرسٹ سکریٹری تھے، کی سربراہی میں کئی امریکی سفارت کاروں پر مشتمل ایک ٹیم نے ہم سے ملاقات کی۔ ان افراد نے یہ جانتے ہوئے کہ ہم تو صرف ایک قلمکار ہیں اور ہماری تحریروں کی بنیاد سچائی پر ہوتی ہے، ہمارا نہ تو کسی سیاسی جماعت سے تعلق ہے اور نہ کسی گروپ سے، بڑی سیدھی سادی بات کی۔ گفتگو کے دوران تمام مذاہب، مختلف قوموں اور ممالک کے درمیان باہمی میل جول اور اور تمام مسائل کے پر امن حل کی بات ہوئی۔
صدر جارج بش نے جب عہدہ سنبھالا تھا تو انہوں نے دیگر باتوں کے ساتھ ساتھ بڑے واضح الفاظ میں یہ بات کہی تھی کہ فلسطین کا مسئلہ حل ہونا چاہیے اور کچھ عرصے بعد انہوں نے مسلمانوں سے اچھے روابط رکھنے کی بات بھی کہی تھی۔ ان کے ان بیانات کے بعد بہت سے مسلم دانشوروں، صحافیوں اور مصنفوں نے یہ بات کہی یا لکھی تھی کہ وہ صدر بش کے اس قول کو سچ مانتے ہیں اور انہیں امید ہے کہ وہ کوئی معروضی لائحہ عمل تیار کر کے مشرق وسطیٰ میں پائیدار امن قائم کرنے کی پوری پوری کوشش کریں گے۔ صدر بش کے دور حکومت میں ہی جب امریکہ کے سکریٹری آف اسٹیٹ نکولس برن بھارت آئے تو امریکی سفیر نے کچھ مسلم دانشوروں کو ڈنر کی دعوت دی جس میں ہمیں بھی مدعو کیا گیا تھا۔ اس وقت بھی امریکی سفارت کاروں سے ان امور پر کچھ غیر رسمی بات چیت ہوئی تھی۔ اس کے بعد صدر اوباما نے بھی ایسے ہی وعدے کیے مگر ہر وعدہ وعدۂ فردا ہی ثابت ہوا اور اس خطہ میں صورت حال جوں کی توں بنی ہوئی ہے۔ پھر ٹرمپ آئے اور اب امریکہ کی باگ ڈور جوبائیڈن کے ہاتھ میں ہے۔دیکھئے وہ کیا کرتے ہیں؟
ہمارا ماضی ہمیں اپنے مستقبل کی صحیح سمت تعین کرنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے مگر افسوس جب بھی کسی مسئلہ کا جنرل اسمبلی کی تجویز کے مطابق حل نکلنے کی امید ہو تی ہے تو کوئی بڑا ملک،جسے ویٹو کا اختیار حاصل ہو، اپنی بے جا طاقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے حلیف کی خوشنودی کے لیے کسی بھی منصفانہ فیصلہ کو ویٹو کر دیتا ہے اور انسانی حقوق کے علمبردار بھی جن باتوں کی تبلیغ کرتے ہیں، ان پر عمل نہیں کرتے۔ کیا ہورہا ہے یوکرین میں؟ کیا ہو رہا ہے فلسطین میں؟کہاں ہیں عوام کو جنگ وجدل سے محفوظ رکھنے کے لیے کیے جانے والے حتی المقدور اقدامات؟
محو حیرت ہوں یہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی!
(مضمون نگار آزاد صحافی، مصنف، سابق بیورکریٹ اور عالمی ادارہ برائے انسانی حقوق سوسائٹی کے تاحیات رکن ہیں)
[email protected]