انسانی حقوق، شہری حقوق، مذہبی آزادی، اقلیتوں کے حقوق اور اظہار رائے کی آزادی پرپہلے سے ہی پہرے ہیں،ہر چند کہ رازداری کا حق شہریوں کا بنیادی حق ضرور تسلیم کرلیاگیا ہے لیکن اس حق پر مسلسل ڈاکہ زنی جاری ہے۔ اس ڈاکہ زنی کو شہریوں کے تحفظ اور سیکورٹی کا خوبصورت نام دے کر ان کی ہر لمحہ نگرانی کی جارہی ہے۔ آدھار کارڈ کیلئے مہیا کرائے بائیو میٹرک اور دیگر تفصیلات سے آگے بڑھ کر اب حکومت ہرشہری کی چہرے کی شناخت اپنے پاس محفوظ رکھ رہی ہے ۔اطلاع ہے کہ چہرے کی شناخت کا یہ نظام دھیرے دھیرے پورے ملک میں نافذ ہوجائے گا۔
چہرے کی شناخت کی اس ٹیکنالوجی کا ذکردو برس قبل دہلی فساد کے دوران ملزمین کی شناخت کے حوالے سے اس وقت آیاتھا جب خود وزیرداخلہ امت شاہ نے پارلیمنٹ میں بتایاتھا کہ دہلی تشدد کے معاملے میں فسادیوں کی شناخت کیلئے ’ چہرے کی شناخت ‘(Face Recognisation)کرنے والی ایک نئی تکنیکی سافٹ ویئر کا استعمال کیاجائے گا ۔وزیرداخلہ نے اس وقت کہاتھا کہ اس سافٹ ویئر میں ڈرائیونگ لائسنس اور ووٹر شناختی کارڈ کی تصویر ڈالنے سے پتہ چل جائے گا کہ وہ شخص کون ہے اور پھر ضروری پوچھ گچھ کی جائے گی۔لیکن اس کے بعد یہ ٹیکنالوجی بلا امتیاز سبھوں کیلئے استعمال کی جانے کی کارروائی شروع کردی گئی ۔یہ ایک بائیو میٹرک سسٹم ہے جو کسی شخص کو دوسرے شخص سے ممتاز کرنے کیلئے چہرے کی مخصوص خصوصیات کا استعمال کرتا ہے۔ جلد کے نمونوں کو پہچاننے سے لے کر چہرے کی 3ڈی شکلیں بنانے تک یہ نظام تقریباً چھ دہائیوں میں کئی طریقوں سے تیار ہوا ہے۔ابتدائی مرحلے میں، چہرے کی شناخت کا نظام ایک چہرے اور اس کی خصوصیات کو کیمرے کے ذریعے پکڑتا ہے۔ پھر ان خصوصیات کو مختلف قسم کے سافٹ ویئر کا استعمال کرتے ہوئے دوبارہ تشکیل دیا جاتا ہے۔چہروں اور ان کی خصوصیات کو ایک ڈیٹا بیس میں جمع کرکے اسے بینکنگ خدمات، حفاظتی مقاصد وغیرہ کیلئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
اطلاعات ہیں کہ سینٹرل وسٹا میں بننے والی نئی پارلیمانی عمارت کی سیکورٹی کو بہتر اور ہرسقم سے پاک بنائے رکھنے کیلئے پارلیمنٹ سیکورٹی سروس نے تمام ارکان پارلیمنٹ، وزرا، بیوروکریٹس اور سرکاری ملازمین کے گلے میں تصویری شناخت پر مبنی اسمارٹ شناختی کارڈ جاری کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔اس شناختی کارڈ کے اندر موجود مائکرو چپ میں متعلقہ شخص کی تمام معلومات محفوظ ہوں گی ۔اس سلسلے میں ہر سیاسی جماعت کے تمام اراکین پارلیمنٹ سے ان کے بائیو میٹرکس سمیت تمام معلومات جمع کی جارہی ہیں۔ تمام اراکین پارلیمنٹ کو بھیجے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ پارلیمنٹ کی نئی عمارت میں داخلے کیلئے چہرے کی شناخت کی ٹیکنالوجی متعارف کرائی جائے گی، اس لئے یہ انتظام کیاجارہاہے۔حیرت کی بات تو یہ ہے کہ مجرموں کی شناخت کیلئے استعمال کی جانے والی یہ ٹیکنالوجی منتخب معزز ارکان پارلیمنٹ کیلئے بھی استعمال کی جارہی ہے مگر کسی بھی جانب سے اس پر اب تک کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا ہے ۔
چہرے کی شناخت سے بظاہر بہت سی پیچیدگیوں سے نجات کی راہ نظر آرہی ہے اور اس کے استعمال سے شناخت کے عمل کو تیز کیا جا سکتا ہے۔جرائم کی جگہوں پر سی سی ٹی وی کیمرے ہوں تو اس سے مجرم کی شناخت میں مدد ملے گی۔ اس طرح شناخت کا عمل اگر انسانوں کے ذریعے کیا جائے تو زیادہ وقت اور پیسہ خرچ ہوگا، جب کہ اگر یہی عمل کسی سافٹ ویئر کی مدد سے کیا جائے تو کم رقم اور وقت کے ساتھ ساتھ نتیجہ کی درستگی کاامکان بھی بڑھ جائے گا۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس سے، دہشت گردی، شدت پسندی اور جرائم کو روکا جاسکتا ہے ۔اس دعوے میں کتنی صداقت ہے یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گاہندوستان میں ڈیٹا کے تحفظ کا کوئی مستحکم قانون نہ ہونے کی صورت میں اس ٹیکنالوجی کو انتہائی خطرناک بنادیتے ہیں اور اس کے غلط استعمال پر کسی کا ہاتھ بھی نہیں پکڑاجاسکتا ہے۔ سائبر کرائم کے بڑھتے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ یہ سب دستیاب ڈیٹا کی وجہ سے ہی ہورے ہیں۔ اس نظام کے استعمال سے سب سے زیادہ نقصان مسلمانوں اور دوسری اقلیتوں کا ہوگا یہ پہلے سے ہی حکومت کے نشانہ پر ہیں اور مکمل نگرانی کے دائرہ میں آجانے کے بعد ان کے خلاف کسی کارروائی کیلئے حکومت یا پولیس انتظامیہ کو کسی بہانہ کی بھی ضرورت نہیںپڑے گی۔ سب سے بڑانقصان یہ ہے کہ اس ٹیکنالوجی میں مسلسل ترقی بھی ہورہی ہے اس کے نت نئے استعمال سامنے آرہے ہیں، اس صورت میں اس کا استعمال شہریوں کی رازداری کا مکمل خاتمہ ہوگا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس اقدام سے ملک کے ہرشہری کے شب و روز براہ راست حکومت کی نگرانی میں ہوں گے اور پورا ملک ایک پولیس اسٹیٹ میں بدل جائے گا۔
[email protected]