شام میں زلزلہ متاثرین کی حالت زار کا اصل ذمہ دار کون؟

0

ڈاکٹر محمد ضیاء اللّٰہ

ترکی اور شام کے علاقے 6 فروری کے جن زلزلوں میں متاثر ہوئے، ان کی شدت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ زلزلے کی شدت ریکٹر اسکیل پر 7.8 اور 7.9 تک ناپی گئی ہے اور اسی لیے ان زلزلوں کو گزشتہ ایک صدی میں وقوع پذیر ہونے والے مہلک ترین زلزلوں میں سے شمار کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ سیکڑوں شدید جھٹکے لگاتار محسوس کیے گئے ہیں جن کی وجہ سے اب تک 48 ہزار لوگوں کی موت کا اعلان کیا جا چکا ہے جبکہ اقوام متحدہ کے ایک ذمہ دار کے بیان کے مطابق یہ تعداد 50 ہزار سے بھی متجاوز ہو جائے گی۔ زلزلے کی تباہ کاریاں شام کے مقابلے ترکی میں زیادہ رہی ہیں جہاں اس کی گیارہ ریاستیں زلزلے سے متاثر ہوئی ہیں۔ 40 ہزار سے زائد لوگ ترکی میں داعی اجل کو لبیک کہہ چکے ہیں۔ شام میں متاثر ہونے والے علاقے کم ہیں، اس لیے وہاں کی تباہ کاریاں بھی ترکی کے مقابلے عددی اعتبار سے کم ہیں۔ لیکن جہاں تک راحت رسانی کے کام اور متاثرین کو امداد پہنچانے کا معاملہ ہے تو ظاہر ہے کہ شام کے خستہ حال لوگوں کی صورتحال قابل رحم اور افسوسناک ہے۔ ویسے زلزلہ سے قبل بھی شام کی حالت کچھ بہتر نہیں تھی۔ 2011 سے جاری خانہ جنگی نے پورے ملک کو تباہی کے آخری درجے تک پہنچا دیا ہے اور شام کے تمام علاقوں میں راحت رسانی کا کام کرنا ہمیشہ ہی مشکلات سے بھرا ہوتا تھا، کیونکہ بارہ سالہ جنگ سے بدحال ملک میں قدم قدم پر مختلف قسم کے سیاسی اور لوجسٹک چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ لیکن جب زلزلہ کی تباہی آ گئی تو ان مشکلات میں مزید اضافہ ہو گیا، کیونکہ سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگئیں اور زمیں بوس ہو جانے والی عمارتوں کے ملبوں کے نیچے دبی زندگیوں کو نکال پانا ناممکن ہوگیا۔ جو مقامی لوگ تھے ان کے پاس نہ تو وسائل تھے اور نہ اتنی عددی قوت کہ بروقت راحت رسانی اور امداد کی کوششیں شروع ہو سکتی تھیں جیساکہ ترکی میں ممکن ہو پایا۔ اگر ترکی کی طرح شام میں بھی راحت رسانی کا کام بروقت شروع ہوگیا ہوتا اور ماہرین کو وہاں تک پہنچانے کا انتظام کیا جاتا تو کئی زندگیوں کو بچانا آسان ہوتا لیکن عالمی سیاست کی پیچیدگیوں میں الجھ کر شامیوں کی زندگی تباہ ہو رہی ہے۔ 2011 سے جاری خانہ جنگی نے پورے ملک شام کو عملی طور پر تین حصوں میں تقسیم کر دیا ہے۔ گرچہ شام کا اکثر حصہ اب بھی جنگی جرائم کے مرتکب حکمراں بشار الاسد کے قبضے میں ہے لیکن وہاں کا شمالی حصہ انقلابی جماعتوں کے کنٹرول میں ہے جن کے درمیان جنگ و جدل کی کیفیت جاری رہتی ہے۔ شمال مغرب کا حصہ دراصل ترکی اور اس کی حلیف جماعتوں کے قبضے میں ہے۔ یہ جماعتیں اپوزیشن گروپ کے طور پر کام کرتی ہیں اور انہیں ترکی کی حمایت حاصل ہے۔ ان جماعتوں میں ھیئۃ تحریر الشام بطور خاص قابل ذکر ہے۔ جہاں تک شام کے شمال مشرقی حصے کا تعلق ہے تو وہاں پر امریکی حمایت یافتہ کرد مسلح جماعت وائی پی جی کا قبضہ ہے۔ شمال مغربی شام کا یہ علاقہ جس کو ادلب کہتے ہیں اور اپوزیشن جماعت کے قبضے میں ہے وہاں کی حالت سب سے زیادہ نا گفتہ بہ ہے۔ یہاں تقریباً 45 لاکھ لوگ رہتے ہیں جن میں سے دو تہائی ایسے ہیں جو بشار الاسد اور اس کے حامی روس کی بمباری کی وجہ سے اپنے اپنے علاقوں سے نکلنے پر مجبور ہوئے تھے اور ادلب میں آکر پناہ گزیں ہوئے تھے۔ اس علاقے میں انسانی بحران زلزلہ کے قبل سے ہی جاری تھا، کیونکہ مطلوب غذائیں، دوائیاں اور زندگی گزارنے کے بنیادی وسائل تک کی رسائی وہاں نہیں ہو پا رہی تھی۔ زلزلہ نے ان کی زندگی میں ایک مزید سخت بحران کا اضافہ کر دیا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہوئی کہ شام کا یہ شمال مغربی حصہ ترکی کی جنوبی سرحد سے متصل ہے اور وہیں سے امدادی اشیا کی فراہمی ہوتی تھی لیکن زلزلے کی وجہ سے جب ترکی کا یہ علاقہ اور وہاں کی سڑکیں متاثر ہوئیں تو شام کے متاثرین تک راحت رسانی کا کام بالکل رک گیا جبکہ حقیقت حال یہ ہے کہ اس علاقے میں رہنے والے 45 لاکھ لوگوں میں سے 40 لاکھ 10 ہزار لوگ مکمل طور پر امداد پر ہی گزر بسر کر رہے تھے۔ یہ بیان خود اقوام متحدہ کا دیا ہوا ہے اور اس کو ’’واشنگٹن پوسٹ‘‘ سمیت دنیا کے کئی اخبارات نے شائع کیا ہے۔ زلزلہ سے قبل بھی راحت رسانی کا کام کرنا وہاں آسان نہیں تھا، کیونکہ دمشق کے راستے ادلب تک پہنچا نہیں جا سکتا تھا، کیونکہ وہاں بشار الاسد پر پابندیاں عائد ہیں اور اسی لیے ترکی کی جنوبی سرحد کا استعمال کیا جاتا تھا۔ اس سرحدی نقطے کو ’’باب الھوی‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہاں سے گزرنے کے لیے بھی ترک سرکار کی منظوری کی ضرورت پڑتی تھی تاکہ اپوزیشن جماعت کے علاقے تک ہی سامان راحت پہنچے۔ لیکن اب جبکہ ترکی خود ہی اپنے اندرونی مسائل میں الجھ گیا ہے تو شام کے زلزلہ متاثرین پر خاطر خواہ توجہ نہیں دی جا رہی ہے اور اس کی وجہ سے صورتحال کی ابتری میں کئی گنا اضافہ ہوگیا ہے۔ شام میں خانہ جنگی کے آغاز کے بعد جب لوگ محفوظ علاقوں میں منتقل ہونے لگے تھے اور راحت رسانی اور امداد کی ضرورتیں پیش آئی تھیں تو اس کا انتظام یہ کیا گیا تھا کہ اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل میں ہر 6 مہینے کے بعد ووٹنگ کے ذریعے اس بات کی منظوری دی جاتی تھی کہ کئی سرحدی گزرگاہوں سے امدادی مواد پہنچانے کا انتظام کیا جائے۔ لیکن 2020 میں بشار کے سب سے بڑے حامی روسی صدر ولادیمیر پوتن نے اپنے ویٹو پاور کا استعمال کرتے ہوئے تمام سرحدی نقاط کو بند کروادیا اور صرف ایک سرحدی نقطے ’’باب الھوی‘‘ سے امدادی سامان کی فراہمی کی اجازت دی گئی۔ روس نے اس اقدام کے لیے یہ دلیل پیش کی تھی کہ امدادی اشیاکی فراہمی سے اس کے حلیف بشار الاسد کے ملک کی سیادت پر زد پڑتی ہے۔ یہ دور جس میں ہم جی رہے ہیں اس میں ایسی قیادتیں وجود میں آئی ہیں جنہوں نے انسانیت نوازی، انسانی حقوق، عدل و انصاف اور سیادت و قیادت اور کرۂ ارضی کی سالمیت کے تمام تر مفاہیم کو بالکل الٹ کر رکھ دیا ہے۔ ایک دوسری دقت شام کے متاثرین کے تعلق سے یہ پیدا ہوگئی ہے کہ زلزلہ سے قبل تک جو رضا کار اور غیر سرکاری تنظیمیں ادلب وغیرہ کے علاقے میں کام کر رہی تھیں ان کو مطلوب مقدار میں ضروری سامان نہیں مل رہے تھے، کیونکہ یوکرین پر روسی جارحیت کے نتیجے میں امداد کا سلسلہ مسلسل منقطع ہوتا جا رہا تھا اور دنیا کی توجہ بھی شامی متاثرین سے ہٹ رہی تھی۔ زلزلے کے بعد ان کی زندگیوں میں خاصی مشکلات کا اضافہ ہوگیا ہے۔ غذائی اجناس کی کمی کے علاوہ امراض کے پھیلنے سے بچے بطور خاص مسائل سے دوچار ہیں جبکہ دوسری طرف بھکمری کا خطرہ الگ سے سر پر پہلے سے ہی کھڑا تھا۔ اس پر مستزاد یہ کہ بشار الاسد کی جانب سے مسلسل رکاوٹیں پیدا کی جاتی رہی ہیں تاکہ اپوزیشن کنٹرول والے علاقے تک کوئی امداد نہ پہنچ پائے۔ اس پوری مدت میں اور خاص طور سے زلزلہ کے بعد شام کی ایک جماعت نے بڑی قابل تعریف محنت کی ہے جس کا نام ’’وہائٹ ہیلمیٹ‘‘ ہے۔ اس تنظیم کے ممبران نے ہر ممکنہ کوشش کرکے متاثرین کو خدمات فراہم کرنے کا کام کیا ہے۔ ’’وہائٹ ہیلمیٹ‘‘ کو برطانیہ اور امریکہ کا تعاون حاصل رہتا ہے۔ لیکن مسائل کی شدت میں کوئی کمی نہیں آ رہی ہے۔ زلزلہ سے قبل بھی شمال مغربی شام پر بشار کی جانب سے جنوری کے مہینے تک بمباری جاری تھی۔ صاف پانی کی عدم فراہمی کی وجہ سے کولیرا پھیل گیا ہے اور اب زلزلہ کے نتیجے میں نہ بجلی کی سہولت ہے اور نہ ہی انٹرنیٹ کی۔ سر چھپانے کے لیے جو معمولی گھر تھے وہ بھی تباہ ہوگئے ہیں۔ جہاں تک بشار الاسد کے کنٹرول والے علاقوں میں راحت رسانی کے کام کا تعلق ہے تو وہاں بھی حالت کچھ زیادہ بہتر نہیں ہے، کیونکہ امریکہ نے اپنے ’’قیصر ایکٹ‘‘ کے تحت جنگی جرائم کے ارتکاب اور انسانی حقوق کی پامالی کے الزام میں بشار نظام پر پابندیاں عائد کر رکھی ہیں جن کی وجہ سے مطلوب وسائل اور ایمبولینس وغیرہ کا پہنچنا مشکل رہتا ہے۔ گرچہ امریکہ اور یوروپی یونین نے بارہا یہ دعویٰ کیا ہے کہ امدادی کاموں پر یہ پابندیاں عائد نہیں ہوتی ہیں لیکن زمینی سطح پر اس کے اثرات صاف محسوس کیے جا سکتے ہیں۔ دراصل یہ چوہے بلی کی لڑائی ہے جس میں ہر فریق اپنے ڈھنگ سے کام کر رہا ہے۔ بشار الاسد اس قدرتی آفت کا استعمال کرکے ہر دقت کے لیے عالمی پاور کو الزام دیتا ہے تاکہ کسی طرح اس پر سے پابندیاں ختم ہوں جبکہ دوسری طرف عالمی قیادتیں اپنے موقف پر قائم ہیں اور اپنے موقف کے دفاع میں دلیلیں دیتی ہیں اور انسانی حقوق کے تحفظ کا دھنڈورہ پیٹتی ہیں۔ اس دوران انسان یا تو زمین میںدفن ہوتے رہتے ہیں یا پھر بھوک اور مرض سے بدحال ہوکر قابل ترس زندگی جینے پر مجبور رہتے ہیں۔ ایسے تمام عالمی نظاموں اور قوانین میں بہتر تبدیلی کی ضرورت ہے تاکہ انسانی اقدار کی حفاظت کا سامان مہیا کیا جا سکے۔
مضمون نگار سینٹر فار انڈیا ویسٹ ایشیا ڈائیلاگ کے وزیٹنگ فیلو ہیں

 

 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS