مولانا ابوالکلام آزاد کے نظریہ متحدہ قومیت کا ارتقا

0

عارف عزیز (بھوپال)
مولانا ابوالکلام آزاد کی جامع صفات شخصیت نصف صدی تک برصغیر کی سیاست پر چھائی رہی اور اپنی اسلامی فکر، علمی تبحر اور سیاسی تدبر کو بروئے کار لاکر قوم کی رہبری کا فرض بھی انجام دیتی رہی، دست فیاض نے مولانا آزاد کے اندر سلامتِ فکر اور صلابتِ کردار کے جو جوہر رکھے تھے ان کا ہی نتیجہ ہے کہ انہوں نے متحدہ قومیت کے راستہ پر اپنے قدم بڑھائے تو پیچھے مڑکر نہیں دیکھا، نہ کبھی اپنی مذہبی فکر کو سیاست کے تابع کیا اور نہ قومی مفاد کو مذہب کی تنگ نظری پر قربان ہونے دیا۔
ایک زبردست عالم دین کی حیثیت سے مولانا ابوالکلام آزاد نے مذہب کا گہرا مطالعہ کیا تھا ان کی وطن پرستی مذہب کے اسی معروضی مطالعہ کی دین ہے جس کے وسیلہ سے مولانا آزاد نے تحریک آزادی میں جہادِ فی سبیل اللہ کا نعرہ لگایا اور مسلمانوں کو واضح الفاظ میں تلقین کی :
’’ہندوئوں کے لئے ملک کی آزادی کے لئے جدوجہد کرنا داخل حب الوطنی ہے لیکن مسلمانوں کیلئے ایک فرضِ دینی ہے اور داخلِ جہاد فی سبیل اللہ ہے اللہ نے ان کو اپنی راہ میں مجاہد بنایا ہے او رجہاد کے معنی میں ہر وہ کوشش داخل ہے جو حق وصداقت اور انسانی بندو استبداد و غلامی توڑنے کے لئے کی جائے۔ (الہلال ۱۸ دسمبر ۱۹۱۲)
مولانا آزاد کی فکر ونظر کا مطالعہ عام طور پر ایک نیشنلسٹ سیاست داں کی حیثیت سے کیا جاتا ہے لیکن بنیادی طور پر وہ ایک عالم دین، مفکر اور مدبر تھے جن کو قدرت نے غیر معمولی صلاحیتوں سے نوازا اورمولانا نے اپنی ان اکتسابی و وہبی صلاحیتوں کا مختلف میدانوں میں انفرادی شان کے ساتھ مظاہرہ کیا ، درحقیقت ان کے سامنے ایک اہم مقصد ہندوستان کے بدلے ہوئے حالات میں مسلمانوں کے ذہنی سانچے کو تبدیل کرنا تھا، خود مولانا نے جس وقت ہوش سنبھالا اس وقت ایک ملت کی حیثیت سے مسلمانوں پر مایوسی طاری تھی، صدیوں تک ہندوستان میں برسراقتدار رہنے کے بعد اس سے محرومی نے انہیںمضمحل کررکھا تھا، مستقبل کا کوئی واضح نقشہ من حیث القوم مسلمانوں کے سامنے نہ ہونے کی وجہ سے قومی زندگی کی سرگرمیوں سے وہ الگ تھلگ ہوگئے تھے، انگریزوں نے اپنے سیاسی مقاصد کے پیش نظر ہندوئوں اور مسلمانوں کو اکثریت واقلیت کے خانوں میں تقسیم کردیا تھا ، مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد اکثریت پر بھروسہ کرنے کے لئے تیار نہ تھی بلکہ سرسید جیسے رہنما چاہتے تھے کہ انگریز اس وقت تک ہندوستان میں موجود رہیں جب تک کہ مسلمانوں کے تحفظ کی کوئی معقول صورت نہ نکل آئے۔
مولانا ابوالکلام آزاد نے انگریزوں کے اس پر فریب جال کو توڑنے کی ہر ممکن کوشش کی اور اپنے وسیع علم ، گہرے شعور اور مذہبی تعلیمات کی روشنی میں جو درس دیا ڈاکٹر ذاکر حسین خاں کے الفاظ میں ’’مولانا کی وہ سب سے بڑی خدمت ہے‘‘ جس کے ذریعہ انہوں نے عوام الناس کو مذہب کے حقیقی پہلوئوں سے روشناس کرایا کہ مذہب کا ایک منفی پہلو اختلافِ باہمی یا نفرت کو ہوا دینا ہے جو جھوٹا اور غلط ہے ، مذہب کا دوسرا پہلو ایک دوسرے کو باہم قریب لانا اور ان میں مفاہمت پیدا کرنا ہے یہی سچا اور حقیقی ہے۔
مولاناآزاد نے اپنی تحریر وتقریر اور عمل وکردار سے پوری قوم کو جگانے کی کوشش کی بالخصوص ’’الہلال‘‘ اور ’’البلاغ‘‘ کے وسیلہ سے مسلمانوں کو اپنے اوپر اعتماد کرنے کا سبق دیا، دوسری طرف دو قومی نظریہ کی مخالفت کرکے اس کے مقابلہ میں متحدہ قومیت کی وکالت کی لیکن اس کے ساتھ یہ بھی باور کرایا کہ ایک متحدہ قومیت کا ناگزیر جزو ہونے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ مسلمان اپنے علاحدہ تشخص سے دست بردار ہوکر اکثریت کے تہذیبی دھارے میں ضم ہوجائیں بلکہ مسلمانوں کی اسلامی شناخت پر جب بھی حملہ ہوا تو مولانا اس کا نہایت شدت کے ساتھ دفاع کرتے رہے، کانگریس کے بعض رہنما جب اس طرح کے خیالات کا اظہار کرتے تومولانا آزاد کی جانب سے ان کو ایسا جواب ملتا کہ زبان بند ہوجاتی، مولانا کی تمام تر روشن خیالی، وسیع النظری اور رواداری کے باوجود ان کی یہ حتمی رائے تھی کہ شریعت اسلامی کے قوانین مکمل ومدلل ہیں جن میں کمی وبیشی کی قطعی گنجائش نہیں ایسے ہی ایک موقع پر انہوں نے کہا تھا:
’’ جو لوگ رفتار زمانہ سے باخبر ہیں وہ جانتے ہیں کہ دنیا کے تمام مذاہب کے پیرو اپنے مذاہب کی ترمیم واصلاح کی طرف مائل ہیں ، اصلاح کا یہ سلسلہ گزشتہ تین سو سال سے قائم ہے، عیسائیوں نے اس کی اصلاح کی ضرورت اس لئے محسوس کی کہ عیسوی مذہب کے احکامِ اقتضائے زمانہ وتغیر ماحول کا ساتھ نہ دے سکے، یہی حال ہمارے ہندو بھائیوں کا ہے، وہ جب تک منوجی کی شاستر میں ترمیم و اصلاح نہ کریں وہ مقتضیات زمانہ سے مقابلہ کے اہل نہیں ہوسکتے، ان کو ہر قدم پر منوجی کے شاستر میں ترمیم واصلاح کی ضرورت محسوس ہورہی ہے لیکن میں علیٰ وجہ بصیرت کہتا ہوں کہ مسلمانوں کو مذہبی احکام میں اس طرح کی ترمیم واصلاح کی یکسر ضرورت نہیں کیونکہ ان کی شریعت کے قوانین جامع اور مکمل ہیں ان میں ترمیم کی گنجائش ہے نہ اصلاح کی۔‘‘
مولانا ابوالکلام آزاد ایک مسلمان کو کن صفات کا حامل دیکھنا چاہتے تھے یہ ان کی تحریر سے اندازہ ہوتا ہے جو ۱۹۱۲ء میں انگریز حکومت کو مخاطب کرکے ’’الہلال‘‘ میں سپرد قلم کی گئی اور جس میں کہا تھا کہ ’’گورنمنت کو یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ اگر ہم مسلمان سچے مسلمان ہوجائیںتو جس قدر اپنے نفس کے لئے مفید ہوں گے اسی قدر گورنمنٹ کے لئے نیز اپنے ہمسایوں کے لئے، اگر ہم سچے مسلمان ہوں تو ہمارے ہاتھ میں قرآن ہوگا اور جو ہاتھ قرآن سے رکا ہوا ہو وہ بم کاگولا یا ریوالور نہیں ہوسکتا۔‘‘
مولانا آزاد کو ہندو مسلم اتحاد کتنا عزیز تھا اس کا اندازہ یوں لگایا جاسکتا ہے کہ وہ ہندوستان کی آزادی کو موخر کرنے کے لئے تیار تھے لیکن ہندومسلم اتحاد کو نہیں ، ان کا واضح موقف تھا کہ اگر آزادی نہ ملی تو یہ ہندوستان کا نقصان ہوگا لیکن ہندومسلم اتحاد نہ رہا تو یہ انسانیت کا نقصان ہوگا، مولانا کا معروف قول ہے کہ ’’اگرآ ج ایک فرشتہ قطب مینار پر اتر کر یہ اعلان کرے کہ ہندوستان کو آزادی مل سکتی ہے بشرطیکہ ہندوستان ہندو مسلم اتحا دسے دست بردار ہوجائے تو میں آزادی کے مقابلہ میں ہندو مسلم اتحاد کو ترجیح دوں گا۔‘‘
مولانا آزاد کی سیاسی زندگی کتنے ہی طوفان سے دوچار رہی ہو لیکن خود ان کے پائے استقامت میں جنبش نہ ہوئی، اپنوں کے طعنے، غیروں کی بد زبانی اور حریفوں کی الزام تراشی پر بھی ان کی پیشانی پر بل نہ آیا بلکہ اپنے متحدہ قومیت کے نظریہ کو جس کے وہ بانی بھی تھے مسلسل پروان چڑھاتے رہے، انہوں نے عملی طور پر اس کو ثابت کردیا کہ ہندوستان میں ہندو اور مسلمان یکجا رہ سکتے ہیں مل جل کر سو چ سکتے ہیں اور متحد ہوکر آزادی کی برکات سے مستفید ہوسکتے ہیں، اسی طرح ملک کی تقسیم کے بھی وہ آخر وقت تک خلاف رہے، کانگریس کے چوٹی کے رہنمائوں کی اکثریت نے ملک کے بٹوارہ کے مسودہ پر منظوری کی مہر ثبت کردی لیکن مولانا کی تن تنہا ایسی ذات تھی جو اس کی مخالفت کرتی رہی۔
مولانا آزاد نے جنگ آزادی کے دوران ہی اپنی معرکۃ الآراء تفسیر ’’ترجمان القرآن‘‘ تحریر کی جس کے اہم مباحث ان کے بنیادی مقصد و مشن کا اظہار ہیں، اس تفسیر کے لئے مولانا نے زبان بھی نہایت سادہ اور سلیس استعمال کی تاکہ عام مسلم اور غیر مسلم استفادہ کرسکیں، ترجمان القرآن میں سورہ فاتحہ کی تفسیر کے ذیل میں جہاں وحدتِ دین کا لفظ استعمال کرکے مولانا نے وحدتِ ادیان کی نفی کی وہیں یہ بتانے کی سعی بھی کہ دین ہمیشہ سے ایک رہا ہے اور ہمیشہ ایک رہے گا، نظر آنے والے اختلافات دین کے بارے میں نہیں شریعتوں اور طریقوں سے متعلق ہیں یعنی اختلاف اصل میں نہیں اس کی فروعات میں ہیں، حقیقت میں نہیں اس کے ظواہر میں ہیں اور اختلاف وامتیاز ضروری بھی ہیں کیونکہ مذہب کا بنیادی مقصد انسانوں کی سعادت وفلاح ہے لیکن انسانی معاشرہ کے احوال ہر زمانہ اور علاقہ میں یکساں نہیں رہے اور نہ یہ ممکن تھا لہذا جس مذہب کا ظہور جیسے زمانہ میں اور جیسی استعداد ومزاج کے لوگوں میں ہوا اس کے مطابق ان کے لئے شریعت بھی مقرر کردی گئی جو حالات وکوائف کے لحاظ سے بہتر اور عین حق ہے لیکن اس کے ساتھ یہ پہلو بھی ذہن نشین رہے کہ شریعت وطریقے بذات خود دین نہیں اس تک پہونچنے کا وسیلہ ہیں لیکن جب عوام الناس نے حقیقی دین سے رشتہ منقطع کرکے طریقوں یا راستوں کو اصل قرار دے دیا تو پھر معبد خانے بھی تبدیل ہوگئے باوجود اس کے کہ تمام مذاہب کے ماننے والے ایک ہی خدا کو اپنا معبود قرار دیتے ہیںتاہم یہ ممکن نہیں کہ ایک مذہبی گروہ کی بنائی ہوئی عبادت گاہ میں دوسرا جاکر خدا کانام لے سکے، بعض اوقات تو ان میں اتنی عصبیت پیدا ہوجاتی ہے کہ وہ اپنے مذہب کی برتری کے جنون میں دوسروں کے عبادت خانے منہدم کردیتے ہیں۔
ترجمان القرآن کا مفسر بعض اہل مذاہب کی اس عصبیت پر بھی اعتراض کرتا ہے کہ اپنے پیغمبروں، رہبروں اور ہادیوں کے احترام میں ان کو خدا کے درجے پر پہونچا دیتے ہیں دوسری طرف خدا کے دیگر بندوں کے رہبر اور رہنمائوں کے وجود کو تسلیم کرنے سے انکار کردیتے ہیں ، مولانا آزاد کی نظر میں خدا کا کوئی بندہ اس وقت تک اصل دین تک نہیں پہونچ سکتا جب تک کہ وہ تمام رسولوں، نبیوں اور ہادیوں پر ایمان نہ لائے اور انہیں اپنے احترام کے قابل نہ سمجھے ۔ سورہ فاتحہ میں اھدنا الصراط المستقیم کی تشریح وتفسیر کے ذیل میں مولانا ابوالکلام آزاد نے اس معتدل ومتوازن نقطہ نظر کو وضاحت کے ساتھ اس لئے پیش کیا کہ دوسری شریعتوں یا طریقوں کے بارے میں اسلام اور قرآن نے جس رواداری کا مظاہرہ کیا ہے اس سے اہل اسلام اور غیر مسلم آگاہ ہوسکیں اور عملی زندگی میں اس کو برت کر خوش گوار فضا قائم کریں۔
مولانا آزاد کا ذہن ساکت وجامد نہ تھا وہ اپنے عہد کے بیشتر مسلم رہنمائوں اور زعماء سے زیادہ حالات حاضرہ اور عالمی تحریکات پر نظر رکھتے تھے۔ ان کی اس فکر رسا نے جہاں قوم وملت کے سامنے وقت کے تقاضوںکو رکھا وہیں غور فکر کے مختلف مدارج بھی طے کئے اس کا کچھ اندازہ مولانا کی اولین تحریروں میں حکومت الٰہیہ اور حزب اللہ کی کثرت سے استعمال کی گئی اصطلاحات سے ہوتا ہے جو بعد میں نظر نہیں آتیں کیونکہ اس مفہوم کی اصطلاحیں مولانا کی اس سوچ وفکر کا مآخذ ہیں جب ان کی فکر ونظر مختلف میدانوں میں اپنی راہیں تلاش کرکے منزل کا تعین کررہی تھیں ، یا یوں کہئے کہ مولانا کا ذہنی ارتقاء مختلف مراحل سے گزررہا تھا یہاںتک کہ ان پر ایک دور تشکیک والحاد بھی گزر گیا، کہنے کا مقصد یہ ہے کہ مذہب معاشرت اور سیاست کے بارے میں ابوالکلام کی فکری جہتوں میں وقت کے ساتھ کافی کچھ تبدیلی ہوتی رہی، ابتداء میں وہ سرسید جمال الدین افغانی اور مفتی عبدہ مصری سے متاثر ہوئے، سرسید کے تو وہ دیوانے تھے، اپنی سوانح حیات میں وہ خود تسلیم کرتے ہیں کہ ’’میں سرسید کا ایسا عقیدت مند تھا کہ ان کا بت بناکر پوجا کرتا تھا اور سرسید کے خلاف کسی سے ایک لفظ سننا مجھے گوارہ نہ تھا‘‘ لیکن بعد میں سرسید سے مولانا نے سیاست اور بعض دوسرے امور میں اختلاف کیا، قومی تحریک آزادی کے مقابل علی گڑھ تحریک کی شدت کے ساتھ مخالفت کی، سرسید کے بعد مولانا کو سید جمال الدین افانی اور ان کی تحریک ’’پان اسلام ازم‘‘ نے متاثر کیا دراصل یہ تحریک سامراجیت کے خلاف تھی، برطانیہ نے سب سے زیادہ عالم اسلام او رمسلمانوں کو برباد کیا تھا جس کا مقابلہ کرنے کیلئے مسلمانوں کو ایک پرچم تلے جمع ہوکر برطانوی استبداد کے ٹکر لینے کی دعوت دینا اس تحریک کا مقصد تھا اس لئے اس وقت یہ تحریک حق بجانب تھی، مصر کے مفتی محمد عبدہ بھی برطانوی سامراج کی ریشہ دوانیوں سے نبردآزما رہے، لہٰذا مولانا نے ان کا بھی اثر قبول کیا لیکن جوں جوں حالات بدلتے گئے مولانا آزاد کی فکر کا افق تبدیل ہوتا گیا اور وقت اور حالات کے تقاضوں کو سمجھ کر وہ اہل ملک وملت کے سامنے اپنے ارتقائی افکار ونظریات پیش کرتے رہے یہاںتک کہ ’’متحدہ قومیت‘‘ کا نظریہ مولانا کی آخری منزل قرار پایا اور اپنی عمر عزیز کا قیمتی حصہ انہوں نے قومی اتحاد کی تشکیل وتعمیر میں صرف کردیا بلکہ شدید سے شدیدتر حالات میں بھی ان کے قدم اس جانب پیش قدمی میں سست نہ پڑے، مولانا نے نہ تو مسلمانوں کی اجتماعی مخالفت کی پرواہ کی نہ کانگریس کی ان صفوں میں اپنے وقار وعظمت میں کوئی کمی آنے دی جو تیزی سے مسلم رہنمائوں سے خالی ہو رہی تھیں، یقینا مولانا آزاد کا یہی کردار تھا جو وہ اپنے سرتاپا اسلامی لباس، وضع قطع اور بنیادی فکر کے باوجود غیر مسلم حلقوں میں آخر تک احترام وعظمت کی نگاہ سے دیکھے جاتے رہے۔
[email protected]

 

 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS