اسرائیل نے مسلمانوں کے تیسرے سب سے مقدس مقام اور شہر یروشلم پر1967میں قبضہ کرلیاتھا اور آج تک وہ اس شہر پر قابض ہے۔دنیا بھر کی طاقتیں، قوانین صہیونی ریاست کو اس بات کے لیے مجبور نہیں کرسکے کہ وہ بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی سے بازآئے اور قبلہ اول کی بے حرمتی سے اجتناب کرے۔ بلکہ اسرائیل اور اس کے اہلکار اور حکمراں جان بوجھ کر بیت المقدس کا دورہ کرتے ہیں، اس کی بے حرمتی کرتے ہیں تاکہ جذباتی اور مذہبی طورپر مسلمانوں کو برانگیختہ اور مشتعل کیاجاسکے اور ان کو صدمات سے دوچار کیاجائے۔ ارض فلسطین میں دوسری جنگ آزادی مہم جس کوہم دوسراانتفاضہ کہتے ہیں، ستمبر 2000میں اس وقت شروع ہوا جب لکڈ پارٹی کے وزیراعظم کے عہدے کے اس وقت کے امیدوارجو بعد میں وزیراعظم بھی منتخب ہوئے، ایریل شیرون نے مسجدالاقصیٰ میں جوتے سمیت گھسنے کی گستاخی کی تھی۔ یہ جدوجہد آزادی پانچ سال تک چلی تھی اوراس معرکہ میں 4300ہلاکتیں ہوئی تھیں۔
دراصل بیت المقدس کی سرزمین پر مسلمانوں کی دعویداری اور پورے یروشلم پردنیا کے تمام ابراہیمی مذاہب سے وابستگی اور تعلق کی وجہ سے اس شہر کو منفرد اور بین الاقوامی مقام حاصل ہے۔ مگر اسرائیل طاقت کے زورپر قابض ہے بلکہ اس کو اس مملکت کا حصہ بناچکا ہے اور آج بھی اس مقدس شہر کی پرانی فلسطینی عرب آبادی جس میں مسلمانوں اور عیسائی سب شامل ہیں،کو ہراساں کرنے اور ان کو وہاں سے بے دخل کرنے کے لیے حیلوں اور بہانوں کی تلاش میں رہتا ہے۔ اسرائیل نے دنیا بھر سے صہیونیوں کو لاکر یہاں اس شہر میں بسادیا ہے۔ اس سے خطے کی آبادی کا توازن یہودیوںکے حق میں ہوگیا ہے، مسلمان اقلیت میں آگئے ہیںاور یہ شدت پسند مسلسل مقامی فلسطینیوں اور عیسائیوں کے ساتھ تصادم کا رویہ اختیار کیے ہوئے ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ عیسائیوں کی پرانی آبادی بڑی تعداد میں رہتی ہے اور ان کے بہت سے مقدس مقامات وہاں پر ہیں اور اسرائیل کی قابض فوج ان کو مذہبی مواقع پر عبادات کرنے سے روکنے کی کوشش کرتی ہے۔کرسمس اور ایسٹر پروہاں خوب ہنگامہ ہوتا ہے۔
یروشلم 1948میں دوحصوں مغربی یروشلم اورمشرقی یروشلم (اردنی) میں تقسیم کردیاگیاتھا۔ مگر 1967میں چھ دن کی جنگ میں اسرائیل نے اردنی یروشلم (یعنی مشرقی یروشلم پربھی قبضہ کرکے صہیونی ریاست کاحصہ قرار دے دیا تھا۔ اس وقت اسرائیل نے مغربی کنارے کے ایک حصہ پر قبضہ کرکے یروشلم کی توسیع کردی تھی۔ اقوام متحدہ اور دیگر عالمی ادارے ، ایجنسیاںاس قدم کو غیرقانونی بتاتے ہیں مگر اسرائیل کو اس کی بالکل پروا نہیں ہے۔ آخرکار 1980میں اسرائیل نے ایک قانون بنا کر اس شہر کو (یعنی غیرمنقسم) یروشلم کو اپنی راجدھانی قرار دے دیاتھا۔ بین الاقوامی ادارے اس شہر کو اسرائیل کی راجدھانی قرار دینے کے فیصلہ کو تسلیم نہیں کرتے ہیں۔
اس تناظرمیں مسلم اورعرب ملکوں میں اب بیت المقدس کی مذہبی اور اسلامی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی جدوجہد کو اجتماعی انداز میں شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔عالمی ذرائع ابلاغ پر کنٹرول کی وجہ سے اس میں مسلمانوں کا نقطہ نظر سامنے نہیں آیا مگر اب عرب ملکوں کے یروشلم کی عرب شناخت پر زور ڈالنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس بابت عرب ملکوں کے وزرائے خارجہ نے مصر میں ایک بڑی کانفرنس کی ہے، جس میں اس مقام کے تقدس اور مسلمانوں کی دعویداری مضبوط طریقہ سے اٹھانے اور اس مقدس مقام اور شہر کی قانونی حیثیت کو مضبوط کرنے کا فیصلہ کیاگیا ہے۔
دراصل نتن یاہو سرکار جب سے برسراقتدارآئی ہے، وہ بیت المقدس پر مسلمانوں اور عرب دنیا کو مشتعل کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ اسرائیل کے سخت گیر سیاسی لیڈر وزیربرائے قومی سلامتی ایتمار بن گویر نے حلف لینے کے دوسرے ہی دن سوچی سمجھی حکمت عملی کے تحت بیت المقدس کا دورہ کیا، جس پر مسلم دنیا میں سخت ردعمل ظاہرکیاگیا۔ اس پر مسلم اورعرب ملک اس قدر ناراض تھے کہ اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل کی میٹنگ ہوئی اور امریکہ سمیت زیادہ تر ملکوںنے اس قدم پرسخت ردعمل ظاہرکیا۔
خیال رہے کہ اسرائیل میں سخت گیر نسل پرست صہیونی عناصر کے برسراقتدارمیں آنے کے بعد اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ایک قرارداد پاس کرکے اسرائیل کے قبضے والے فلسطینی علاقوں کے عوام کی آزادی اور خودمختاری کے حق پر زور ڈالنے کے لیے ہیگ کی بین الاقوامی عدالت کی رائے لینے کا فیصلہ کیا ہے۔ ہیگ کی عالمی عدالت تمام بین الاقوامی قوانین، اقوام کی قراردادوں اور قوانین کی روشنی میں فیصلہ کرے گی کہ تمام قانونی تقاضوں، التزامات کے باوجود اگر اسرائیل اپنا غاصبانہ قبضہ نہیں چھوڑتا ہے اور فلسطینیوں کو آزادی اور خودمختاری نہیں دیتا ہے تو عالمی برادری کو کیاکرناچاہیے تاکہ ارض فلسطین کے لوگوں کو آزادی اور عزت کے ساتھ زندگی بسر کرنے کا موقع مل سکے۔ مگریہ معاملہ صرف عربوں کی شناخت کا نہیں ہے، پوری دنیا بیت المقدس کو اہم مرکز کے طور پر دیکھتی ہے اوراس کے جذبات اس شہر کو اس مسجد سے وابستہ ہیں۔آج ضرورت اس بات کی ہے کہ عالمی برادری اورمسلم آبادی اسرائیل پر قانونی واخلاقی دباؤ ڈالے کہ وہ اس شہر یروشلم، مغربی کنارے اورغزہ پٹی اور دیگر فلسطینی علاقوں کو خالی کرے اور وہاں کے لوگوں کو سلامتی اور عزت کے ساتھ رہنے دے۔n