مولانامحمد عبدالحفیظ اسلامی
دنیا میں انسانوں کے درمیان کئی طرح کے رشتے ہوتے ہیں، لیکن اِن میں ایک رشتہ ایسا ہے جو ہر مذہب میں مقدس تصور کیا جاتا ہے۔ وہ ہے ’’ماں کا رشتہ‘‘ اپنی ماں کو جب آدمی ’’ماں‘‘ کہہ کر پکارتا ہے وہ اپنے اندر ایک اطمینان اور اعتماد کی کیفیت پاتا ہے کیوں کہ اس لفظ ’’ماں‘‘ کے اندر ساری اچھائیاں جمع ہیں، جسے ہر وہ شخص جانتا اور مانتا ہے جو اپنے اندر ایک نرم دل رکھتا ہو۔
لفظ ’’میم‘‘ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ دنیا میں پائے جانے والے، بالخصوص ہمارے وطن عزیز ہندوستان کی مشہور زبانوں میں لفظ ’’ماں‘‘ کہتے وقت اسے شامل کیا جاتا ہے۔ مثلاً عربی میں ’’اْم‘‘، انگریزی میں ’’مام‘‘، ہندی میں ’’ماتا‘‘، بنگالی میں ’’ماں‘‘، ٹمل میں ’’امائے‘‘ اور تلگو میں ’’اماں‘‘ اور اْردو میں ’’اَمّی‘‘۔ علاوہ ازیں انگریزی میڈیم میں تعلیم حاصل کرنے والے (ہندو، مسلم، سکھ وغیرہ) ممی یا مماں کہہ کر پکارا کرتے ہیں۔اس طرح یہ لفظ میم سب زبانوں میں مشترک ہے۔ جیسا کہ راقم الحروف نے ابتداء میں نرم دل لوگوں کا جو ذکر کیا ہے، وہ لوگ ماں کی عظمت کو جی جان سے تسلیم کرتے ہیں اور اپنی ماں کی مقدور بھر خدمت کرنے کے باوجود ان کے سامنے اپنے سر کو جھکائے رکھتے ہیں اور اونچی آواز میں بات کرنے تک سے مجتنب رہتے ہیں۔ کیونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ کا حکم بھی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم بھی یہی ہے کہ والدین کے ساتھ حسن سلوک کرو، اْف تک نہ کہو۔
مختلف مذاہب میں ماں کی خدمت کرنے کو ایک اچھا اور اونچا کام تصور کیا جاتا ہے اور یقینا یہ ایک بہترین عمل ہے۔ لیکن اس سلسلہ میں دین اسلام کی تعلیم میں ماں کی خدمت کو جنت سے جوڑ دیا گیا ہے کہ اپنے پیدا کرنے والے پر پورے طریقہ سے ایمان لاکر اعمال صالح اختیار کرو جنت میں داخل ہوجاؤ، اعمال صالحات میں ایک بڑا عمل ماں باپ کی خدمت ہے۔
ایک صاحب عظمت اپنی ماں کی خدمت میں کوئی کثر باقی نہ چھوڑے۔ انھوں نے اپنی ضعیف ماں کو جو چلنے پھرنے سے معذور تھیں، اسے دور دراز مقام سے اپنے کندھوں پر بٹھاکر حج بیت اللہ کروانے لے آتے ہیں اور پورے مناسک حج اسی حالت میں کرواکر ابن عمرؓ کی خدمت میں حاضر ہوکر یہ ساری روئیداد سناکر یہ عرض کرتے ہیں کہ میں نے آج اپنی ماں کا حق ادا کردیا۔ جواب میں انہوں نے کہا کہ تو نے اپنی ماں کا حق ادا نہیں کیا، کیوں کہ جب تو دنیا میں آرہا تھا اْس وقت تیری ماں نے درد و کرب کے ساتھ جو ایک چیخ نکالی تھی اس کا بدلہ تو چکایا ہی نہیں جاسکتا۔اسی طرح ایک اور صاحب عظمت، رسولؐ خدا سے سوال عرض کرتے ہیں کہ والدین میں خدمت میں سب سے زیادہ مستحق کون ہے؟ آپؐ نے فرمایا تیری ماں، اسی طرح ایک سے زائد سوال کے جواب میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہی فرمایا۔ تیری ماں، تیری ماں، چوتھی بار کے سوال پر آپؐ نے فرمایا تیرا باپ۔ (مسلم)
آپؐ کے ارشاد سے اس بات کا اندازہ لگانا کوئی مشکل کام نہیں ہے کہ ’’ماں‘‘ کا کتنا بڑا رتبہ و درجہ ہے۔ ماں اپنے بچوں کی جو خدمت کرتی ہے اس پر ذرا غور کرو تو معلوم ہوگا کہ ہماری اپنی ماں ہم پر کتنے بڑے بڑے احسانات کرچکی ہے۔ اولاد چاہے کتنی بوڑھی ہوجائے پھر بھی انہیں اپنا بچہ ہی سمجھتی ہے اور ان کا مشکل میں پڑ جانا اس بوڑھی و ضعیف ماں پر شاق گزرتا ہے اور باپ بھی ان کی خوشحالی کا مشتاق رہتا ہے۔ ہماری ماں ہمیں نو ماہ تک اپنے نازک پیٹ میں لئے پھرتی رہی اور ہر لمحہ ہمیں ضائع ہونے سے بچائے رکھی، جب ہم دنیا میں آرہے تھے اْس وقت کے نازک حالات سے گزر کر ہر تکلیف برداشت کرتے ہوئے ہماری سلامتی کے لئے دعائیں کرتی رہی۔ دنیا میں آتے ہی جب ہم روتے ہیں تو بہلانے کے لئے بے چین ہوجاتی تھی اور جب بھوک لگتی ہے تو دودھ پلاتی تھیں جس کا سلسلہ ڈیڑھ تا دو برس تک جاری رہتا۔ اپنی نیند کی قربانی دی، ہر پَل سینے سے لگائے رکھا، اور اپنی نظروں سے اوجھل رکھنا اس نے کبھی گوارہ نہیں کیا، خود گیلئے میں رہی ہمیں نرم و گرم بستر پر سلایا، ہمیشہ ہمیں خطرات سے بچائے رکھا اور جب ہم تھوڑا بھی بیمار پڑجاتے اس کی راتوں کی نیند اْڑ جاتی، دن کا چین ختم ہوجاتا اور وہ ہمارے لئے دعائیں کرتی کہ ہم جلد صحت یاب ہوجائیں۔جب ایک دوسرا مرحلہ شروع ہوتا ہے کہ ہم تھوڑا چلنا شروع کرتے ہیں تو وہ بہت خوش ہوجاتی اور اچھی طرح چلنا سکھاتی اور اس کی زبان سے پائی ماں پائی کے محبت بھرے الفاظ نکلتے ہیں اور جب ہم بولنا شروع کرتے ہیں تو اس کی خوشی کی کوئی انتہا نہیں ہوتی اور ہمیں اچھی اچھی باتیں سکھاتی اور جب ہم پڑھنے کی عمر کو پہنچتے ہیں تو اسکول یا مدرسہ یا کسی مدرس کے حوالے کرتی ہے تاکہ ہم ظلمات سے محفوظ ہوجائیں۔ اس سلسلہ کی دوسری اہم باتوں کی طرف بھی بہت زیادہ متوجہ ہوجاتی مثلاً اسکول ڈریس کی صفائی و اِستری، ناشتہ کی تیاری اور لنچ بکس کا بندوبست، جوتوں کی پالش اور پاتابوں کی دھلائی وغیرہ۔
اس طرح ساری مشقتیں جھیل کر ہمیں پڑھا لکھا کر آدمی بناتی ہے اور یہ عمل ایک دو دن کا نہیں بلکہ اٹھارہ بیس برس پر مشتمل ہوتا ہے۔ جب ہماری شادی کا مسئلہ آتا ہے تو اس کے لئے بھی وہ دوڑ دھوپ کرتے ہوئے کسی خوبصورت دوشیزہ کا انتخاب کرتی اور اپنی بہو بناکر لاتی، اس طرح ہمارے لئے ایک بھرپور زندگی بسر کرنے کا سارا سامان مہیا کردیتی ہے۔
اس طرح ہماری ماں اپنی ساری زندگی ہم پر نچھاور کرتے ہوئے عمر کے ایسے مقام پر پہنچ جاتی جہاں پر وہ خود اپنی اولاد کے رحم و کرم کی مستحق بن جاتی ہے۔اس طرح ایک طرف بینائی کی کمی، دوسری جانب جان لیوا امراض، بلڈ پریشر، شوگر کے علاوہ کبر سنی کے دیگر امراض کے مسائل میں گِھر جاتی ہے۔یہ وہ موقع ہوتا ہے کہ ہم اپنی ماں کی خدمت کرکے اس کی ہر ضرورت کو پورا کریں، بروقت علاج و ادویات کا خاص خیال رکھیں، اچھے ڈاکٹر سے رجوع کریں، ہر لمحہ محبت بھری نظر ڈالیں، ہر وقت خدمت ماں کے لئے کمربستہ رہیں اور وقت ضرورت اپنی حیثیت کے مطابق خادمہ کو بھی مقرر کریں تاکہ زنانہ مسائل سے متعلق اہم چیزوں کو پورا کرنے میں سہولت ہو۔
الحمدللہ آج بھی ہمارے معاشرے میں نیک اولاد پائی جاتی ہے جو اپنی ماں سے بے پناہ محبت رکھتی ہو اور اس کا حق ادا کرنے کی کوشش کرتی ہو۔ ایسے خوش بختوں کیلئے دنیا میں عزت اور آخرت میں سرخروئی ہے۔
اب ذرا ہم یہاں رْک کر غور کریں اور اپنا محاسبہ کریں کہ کہیں ہم اپنی امّی جان صاحبہ کی خدمت میں کوتاہی تو نہیں کررہے ہیں؟
کہیں میری ماں سردی میں رات بسر تو نہیں کررہی ہے؟ اور اسی طرح گرمی کی تپش میں بے چینی محسوس تو نہیں کررہی ہے؟ میری ماں کے کپڑے حسب ضرورت تبدیل کئے جارہے ہیں یا نہیں؟ وقت پر بستر تبدیل ہورہا ہے یا نہیں؟ ڈاکٹر کے بتائے طریقے پر دوا مہیا ہورہی ہے یا نہیں، غذا میں پرہیز کا اہتمام ہورہا ہے یا نہیں؟ یہ اور اس طرح کے کئی اور سوالات ہیں جو ہر غافل اولاد کو لمحہ فکر دے رہے ہیں۔ اس طرح جس گھر میں بھی بیمار یا ضعیف ماں موجود ہو اس گھر کے تمام افراد بالخصوص مرد اولاد پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ خود آگے بڑھ کر اپنی ماں کی خدمت کریں اور دوسروں کو بھی حکمت کے ساتھ اس جانب راغب کریں۔
بعض غیر تعلیم یافتہ لوگ یا پھر علم رکھنے والے لوگ بھی ماں کی خدمت کرنے اور کروانے کے معاملہ میں افراط و تفریط کا شکار ہوجاتے ہیں اور اسی طرح کبھی ماں کی محبت میں بیوی پر ظلم و زیادتی کر بیٹھتے ہیں اور کبھی بیوی کی محبت میں ماں کی خدمت کو فراموش کردیتے ہیں اور بعض گھروں میں تو مائوں اور باپ کے ساتھ زبان درازی کے علاوہ دست درازی کے تک مرتکبین پائے جاتے ہیں۔ اس طرح کے ماحول کا گہرائی کے ساتھ جائزہ لینے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ بچوں کے بگاڑ میں والدین بھی کچھ قصوروار ہیں، کیوں کہ انھوں نے بے جا پیار اور لاڈ کیا اور ان کی تعلیم کے علاوہ تربیت پر اچھا دھیان نہیں دیا اور اپنے عمل سے والدین کی عظمت و عزت و ہمدردی، اْلفت و محبت کو اپنے گھر میں پروان نہیں چڑھایا۔ یہ دنیا کا اصول ہے کہ اگر ہم اپنے بڑوں کا احترام کریں اور خدمت کریں تو ہمارے بچے بھی یہ سب دیکھ کر سبق حاصل کریں گے پھر اس کے بعد کوئی باپ یا ماں اپنی اولاد کو دل سے دعائیں دینے میں بخل سے کام نہ لیں گے۔لہٰذ باپ کو راضی کرلو، ماں کی جی جان سے خدمت کرلو۔
ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کو ہمیشہ یاد رکھیں ’’ایک شخص نے عرض کیا: اللہ کے رسولؐ والدین کا حق ان کی اولاد پر کیا ہے؟ آپؐ نے فرمایا: وہی دونوں تیری جنت اور جہنم ہیں‘‘۔