پنکج چترویدی
آسام کے دھُبری ضلع میں فروری- 2023 کے پہلے ہفتے کے اعداد و شمار کے مطابق 2510 ایسی خواتین حاملہ ہیں، جن کی عمر 18 سال سے کم ہے۔ اس ضلع میں بچوں کی شادی کو روکنے کے لیے 374 معاملے درج کیے جا چکے ہیں۔ اس ضلع کی جیلیں کھچاکھچ بھر گئی ہیں اور گاؤں کے گاؤں خالی ہو رہے ہیں۔ یہاں 200 سے زیادہ مردوں کو پاکسو (POCSO) ایکٹ کے تحت گرفتار کیا گیا ہے، یعنی کسی نابالغ کے ساتھ جنسی زیادتی کرنے کے الزام میں۔ ریاست آسام کی ایک سرکاری رپورٹ کہتی ہے کہ سال 2022میں ریاست میں کل 6,20,867 حاملہ خواتین میں سے17 فیصد یعنی تقریباً 1,04,264 کم عمر تھیں۔ ان میں سب سے زیادہ دھبری، پھر ناگاؤں اور بارپیٹا کے معاملے ہیں۔ ریاستی حکومت نے گراؤنڈ ہیلتھ ورکر- اسپتال وغیرہ کے ساتھ گھر گھر جا کر ڈیٹا یکجا کیا اور اب گزشتہ سات برس کے دوران جو بھی 18 سال سے کم عمر کی شادیاں ہوئیں، ان میں دولہے، ان کے گھر والے، شادی کروانے والے مولوی-پنڈت کو گرفتار کر کے جیل بھیجا جا رہا ہے۔ اس جامع مہم میں اب تک تقریباً 4200 مقدمے درج کیے جا چکے ہیں اور 2300 گرفتاریاں ہوئی ہیں۔
آسام میں طویل عرصے سے اقلیتوں کے ذہن میں یہ بات گھرکر رہی ہے کہ ریاستی حکومت انہیں جان بوجھ کر پریشان کر رہی ہے۔ حالانکہ بچوں کی شادی کے معاملوں میں گرفتار لوگوں میں تقریباً ایک ہزار ہندو بھی ہیں۔ یہ بات سچ ہے کہ کم عمری میں ماں بننے سے زچہ اور بچہ کی صحت پر منفی اثر پڑتا ہے اور یہ ایک مضبوط ملک کے لیے نقصاندہ ہے۔ لیکن یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ ہمارے ملک میں بچوں کی شادی کا رواج ابھی تک پوری طرح ختم نہیں ہو سکا ہے۔ ’نیشنل فیملی ہیلتھ سروے‘ کی رپورٹ کے مطابق ہندوستان میں کم عمری کی شادی کا قومی اوسط تقریباً 23.3 فیصد ہے۔ یہ سرکاری اعداد و شمار کہتے ہیں کہ مغربی بنگال میں42 فیصد، بہار میں40 فیصد، تریپورہ میں 39 فیصد، جھارکھنڈ میں35 فیصد، آندھراپردیش میں 33 فیصد، آسام میں32 فیصد، تلنگانہ میں27 فیصد، راجستھان اور مدھیہ پردیش میں25-25 فیصد لڑکیوں کی شادی قانونی عمر سے پہلے کی جا رہی ہے۔ ویسے بھی بچوں کی شادی کے حوالے سے ہمارے یہاں قانون ہے اور الگ سے محکمہ بھی جس کی ذمہ داری اس جرم کو ہونے سے پہلے روکنا ہے۔ اس کے لیے سماجی بیداری، تعلیم وغیرہ اہم ہتھیار رہے ہیں۔ ماضی کی طرف جائیں تو ہندوستان میں پہلی بار 1927 میں قانون ساز کونسل نے لڑکیوں کی شادی کی کم از کم عمر 14 سال مقرر کی تھی، پھر آزادی کے بعد 1949 میں اسے بڑھا کر 15 سال اور 1978 میں 18 سال کر دیا گیا۔ اس سے کم عمر کی بچی کی شادی پر دو سال کی قید اور ایک لاکھ روپے جرمانے کا التزام ہے۔ خیال رہے کہ پاکسو قانون کے تحت جسمانی تعلقات بنانے کے لیے 18 سال کی عمر طے کی گئی ہے۔ آسام حکومت بچوں کی شادی کو روکنے کے لیے اب اسی قانون کا استعمال کر رہی ہے۔
آسام کے کئی اضلاع میں اس وقت افراتفری کا ماحول ہے۔ کئی مقامات پر کام دھندے بند ہیں۔ افواہوں، آدھی ادھوری معلومات، نچلے درجے کے ملازمین کی من مانی وغیرہ کی وجہ سے حالات کشیدہ ہیں۔ اگر حکومت گزشتہ سات سالوں کے ایسے تمام معاملات میں گرفتاری اور مقدمے دائر کرتی ہے تو ایک لاکھ سے زائد لوگ جیل جائیں گے، ہزاروں مقدمات کا بوجھ عدالت اور عام لوگوں پر پڑے گا۔ خبر ہے کہ پولیس کے خوف سے دھبری ضلع سے متصل مان کاچر میں والد کے گھر رہنے والی 27 سال کی بیوہ خاتون نے پھانسی لگا کر خودکشی کرلی۔ خودکشی کرنے والی خاتون کا نام سیما خاتون ہے۔ وہ شادی کے وقت نابالغ تھی۔ اس کے دو بچے ہیں اور اس کے شوہر کی موت دو سال پہلے کووڈ سے ہوگئی تھی۔ اسے خوف تھا کہ اب اس کے واحد سہارا والد کو بھی پولیس گرفتار نہ کرلے۔ جن گھروں میں کمانے والا واحد مرد ہی جیل میں ہے، وہاں الگ طرح کے مسئلے پیدا ہو رہے ہیں۔ ریاست کے غیر ملکی شہریوں کے حراستی مرکز گوالپاڑہ کو عارضی جیل میں تبدیل کر دیا گیا ہے اور اب وہاں کئی سو افراد بند ہیں۔ اتنے سارے لوگوں کو جیل میں رکھنا، ان کے کھانے وغیرہ کا انتظام کرنا بھی ریاستی حکومت پر معاشی بوجھ ڈال رہا ہے۔ گرفتار افراد کے اہل خانہ بھی ان جیلوں تک آنے جانے، اپنے لوگوں کو کپڑے، ادویات وغیرہ دینے میں پیسے خرچ کر رہے ہیں۔ دراصل آسام میں ایک صحیح مقصد کی تکمیل کے لیے غلط طریقہ اپنانے پر تنازع ہے۔ ظاہر ہے کہ سیاست تو ہوگی ہی۔ غور طلب ہے کہ آسام کی شرح خواندگی 72.19 اور خواتین کی شرح 66.27 فیصد ہے جو کہ کم نہیں ہے۔ اس کے باوجود یہاں بچوں کی شادی کا 32 فیصد ہونا ظاہر کرتا ہے کہ اس کی جڑ میں سماجی و اقتصادی وجوہات ہیں۔ بچوں کی شادی معاشرے کی جڑوں تک پھیلی برائی، صنفی عدم مساوات اور امتیاز کی بدترین مثال ہے۔
آج حالات یہ ہیں کہ آسام میں ایک سنگین مسئلے کا حل خود ایک مسئلہ بن گیا ہے۔ غور کرنا ہوگا کہ یہ ریاست ہر سال سیلاب میں بہت کچھ گنوا دیتی ہے۔ مسلسل زمین کے کٹاؤ کی وجہ سے کاشت کے لیے زمین کم ہو رہی ہے اور لوگوں کے زمین کے حوالے سے تنازعات میں اضافہ بھی ہو رہا ہے۔یہاں مختلف پڑوسی ریاستوں اور علیحدگی پسندوں کی وجہ سے بدامنی بھی ہے۔ ریاست میں الگ الگ ادارہ جاتی حکمرانی کا نظام ہے جن میں 6 اضلاع خود مختار کونسلروں کے زیرانتظام ہیں، اس نے ریاست میں مسئلے کو اور بڑھا دیا۔ یہ تمام حالات ریاست کے عام لوگوں کی زندگی کو سماجی اور معاشی دونوں سطح پر متاثر کرتے ہیں اور بچوں کی شادی اس کی بڑی وجہ ہے۔ یہ بات سامنے آ رہی ہے کہ بچوں کی شادی کے زیادہ تر واقعات یا تو مسلم خاندانوں کے ہیں یا پھر چائے کے باغات میں کام کرنے والوں کے۔ 2011 کی مردم شماری کے مطابق آسام کی کل آبادی 3 کروڑ 10 لاکھ میں سے مسلمانوں کی آبادی تقریباً 34 فیصد ہے، جبکہ چائے قبائل کی آبادی کا تخمینہ 15-20 فیصد ہے۔ ایسے میں چائے قبائل والے جورہاٹ اور شیوساگر اضلاع میں بھی 24.9 فیصد لڑکیوں کی شادی 14 سال سے کم عمر میں ہوئی ہے۔
جیل بھیجنا، مقدمے چلانا وغیرہ فوری خوف پیدا کرنے کا ذریعہ تو ہو سکتے ہیں لیکن یہ بات طے ہے کہ سماجی برائیوں کے خاتمے کا راستہ تعلیم اور شعور سے ہی نکلتا ہے۔ آج جو آسام میں ہو رہا ہے، وہ افراتفری کی صورتحال پیدا کر رہا ہے اور بچوں کی شادی یا کم عمری میں ماں بننے کا سنگین مسئلہ ثانوی بن گیا ہے۔
[email protected]