ملک کی 13ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوںمیں اچانک نئے گورنروں کے تقرر سے قیاس آرائیوں کا بازار گرم ہوگیا ، کیونکہ عام طورپر اتنی بڑی تعداد میں گورنر نہیںبنائے جاتے ہیں ۔صدرجمہوریہ دروپدی مرمو نے جن 13گورنروں کی تقرری ہوئی ہے، ان میں سے کچھ تونئے چہرے ہیں اورکچھ ایسے ہیں ، جن کا ایک طرح سے دوسری ریاستوں میں تبادلہ کردیا گیا ہے ۔تنازع میں گھرے مہاراشٹر کے گورنر بھگت سنگھ کوشیاری کو بدلنے کی خبریں پہلے سے گشت کررہی تھیں اورانہوں نے اپنی خواہش کااظہاربھی کردیا تھا ۔ وہی ہوا ان کا استعفیٰ منظورکرلیا گیا۔جن ریاستوں میں نئے گورنر بنائے گئے ہیں، ان میں مہاراشٹر، آندھراپردیش، بہار، جھارکھنڈ، چھتیس گڑھ، آسام، منی پور، میگھالیہ، ناگالینڈ، سکم ،ہماچل پردیش ، اروناچل پردیش اورلداخ شامل ہیں ۔ان میں سے کئی ریاستیں 24 20کے پارلیمانی انتخابات یااس سے قبل وہاں ہونے والے اسمبلی انتخابات اور بدلتے سیاسی حالات کی وجہ سے کافی اہم ہیں۔جن جن ریاستوں میںنئے گورنر بنائے گئے ہیں، وہ بی جے پی کیلئے کافی اہمیت رکھتی ہیں۔اسی لئے سیاسی پارٹیاں اس فیصلے کو انتخابات یا وہاں کے بدلتے سیاسی حالات سے جوڑ کر دیکھ رہی ہیں ۔مبصرین بھی اسی نقطہ نظر سے تبصرہ کررہے ہیں ۔پارلیمانی اوراسمبلی انتخابات سے پہلے گورنروں کوبدلنے یاکابینہ میں پھیربدل کرناعام بات ہے ۔ ایسا پہلے بھی ہوتا رہا ہے اورمرکز کی مودی سرکار نے بھی وہی کیا ۔آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ مودی سرکار کا یہ فیصلہ سیاسی لحاظ سے بی جے پی کے حق میں کتنا فائدہ مند ہے ۔یہ کہہ سکتے ہیں کہ مرکزکے زیر انتظام علاقوں میں ایک طرح سے لیفٹیننٹ گورنرکی حکومت ہوتی ہے ۔لیکن ریاستوں میں گورنرکی حکومت نہیں ہوتی ، لیکن مرکز کا نمائندہ ہونے کی وجہ سے راج بھون ایک طرح سے مرکز کے کہنے پر ہی کام کرتا ہے ۔کبھی کبھی تو راج بھون کے ذریعہ بیک ڈور سے حکومت کرنے کا الزام لگایا جاتا ہے ۔جس کی وجہ سے ریاستی حکومت اورگورنر کے درمیان ٹکرائو کی صورت حال پیدا ہوجاتی ہے ۔
یوں توایک ساتھ 13 گورنر بنائے گئے ، لیکن ان میں سب سے زیادہ جو نام موضوع بحث بناہوا ہے اورجس نام پر لوگوں کی توجہ مرکوز ہوئی ہے ، وہ ابھی جنوری میں سپریم کورٹ سے ریٹائرہونے والے جسٹس ایس عبدالنذیر ہیں ۔جنہوں نے کرناٹک میں وکیل سے اپنے کریئر کاآغازکیا تھا ،نہ صرف سپریم کورٹ کے جج بنے بلکہ اپنے آخری دورمیں تیسرے سب سے سینئر جج بھی تھے ۔وہ اجودھیا ، طلاق اورنوٹ بندی جیسے اہم معاملات کا فیصلہ سنانے والی بنچوں کا حصہ بھی رہے ۔ان فیصلوں کو ان کی تقرری سے جوڑ کردیکھاجارہا ہے اورپیش کیا جارہا ہے ۔اجودھیا کا فیصلہ سنانے والی بنچ کے جسٹس عبدالنذیردوسرے ایسے جج ہیں ، جن کو ریٹائر منٹ کے فوراً بعد کوئی بڑا عہدہ دیا گیا ۔ اس سے قبل سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس رنجن گوگوئی، جن کی قیادت میں بنچ نے اجودھیا کا فیصلہ سنایا تھا اوراس کے فوراً بعد وہ ریٹائر بھی ہوگئے تھے۔انہیں بھی ریٹائر منٹ کے بعد جلد ہی راجیہ سبھاکا ممبر نامز دکردیا گیاتھا۔جس پر کافی بیان بازی ہوئی تھی ،ایساہی جسٹس عبدالنذیر کے ساتھ ہورہا ہے ۔آندھراپردیش کے گورنر کی حیثیت سے ان کی تقرری پراسی طرح کے تبصرے کئے جارہے ہیں جیسے جسٹس گوگوئی کے معاملہ میں کئے گئے تھے۔کانگریس کے ممبر پارلیمنٹ منی کم ٹیگورنے ٹوئٹ کرکے کہاہے کہ مودی اڈانی کیلئے کام کرتے ہیں ۔۔۔ جومودی کیلئے کام کرتاہے ، وہ اب گورنرہیں ۔پھرکون لوگوں کیلئے کام کرتاہے ؟ بھارت ماتاکی جے ۔ اسی طرح کانگریس کے جنرل سکریٹری جے رام رمیش نے تقرریوں کا ذکر کئے بغیر سابق وزیر مالیات ارون جیٹلی کے ذریعہ 2012میں کئے اس ویڈیوٹوئٹ کوشیئر کیا ، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ریٹائرمنٹ سے پہلے کے فیصلے ریٹائرمنٹ کے بعد کی نوکریوں سے متاثر ہوتے ہیں ۔ جے رام رمیش نے ٹوئٹ کیا کہ یقینی طور پر گزشتہ3-4برسوں میں اس کے کافی ثبوت ہیں ۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہر سرکاری فیصلے کے بعد مثبت ومنفی سیاست ہوتی ہے، دوسری بات یہ ہے کہ فیصلے بھی سیاست سے متاثر ہوتے ہیں ۔سرکار صرف لوگوں کے فوائد کوسامنے رکھ کر فیصلے نہیں کرتی بلکہ ان میںاپنا سیاسی فائدہ بھی دیکھتی ہے ۔جس فیصلہ میں سیاسی فائدہ مضمر ہوتا ہے ، عام طور پر وہ متنازع بن جاتے ہیں ۔اپوزیشن پارٹیاں ان پر اپنا ردعمل ویساہی ظاہر کرتی رہتی ہیں۔کچھ ایساہی حال گورنروںکی تقرری میں رہتا ہے ۔جب فیصلے سیاست سے متاثر ہوتے ہیں تو ان پر سیاست بھی خوب ہوتی ہیں ۔اب بھی وہی ہورہا ہے ۔
[email protected]