محمد فاروق اعظمی: سرمایہ داری اور امارت = دھوکہ، فریب اور استحصال

0

محمد فاروق اعظمی

بچپن سے یہ سنتے آیا ہوں کہ راتوں رات امیر بن کر دولت کی فلک بوس چوٹیوں پر بسیرا کرنے والوں کی بنیاد میں کوئی نہ کوئی ’ جرم ‘ ہوتا ہے لیکن اس پر یقین نہیں کیاتھا۔مگر گزشتہ کچھ عرصہ سے لگاتار ایسے واقعات اورا نکشافات ہورہے ہیں کہ اب ان باتوں پر یقین ہونے لگا ہے۔ آج کی دنیا میں جس تیزی سے امیر شخص امیر ترین ہورہاہے، اس میں صرف اس کی عقل و دانش، ذہانت و چالاکی نہیں بلکہ جرم، فراڈ اور ہیراپھیری کا بھی بہت بڑادخل ہے۔ خواہ یہ جرم اربوں کے قرض اٹھانے اور ڈکار جانے کا ہو یا اپنی پیداوار کی قیمت بڑھانے کیلئے اسٹاک میں مصنوعی اچھال لانا ہو یا اکائونٹنگ میں ہیر پھیر ہو یا پھر حکومت سے سبسڈی اور رعایت لینا ہو، ٹیکس چوری کی شکل میں ہو یا ایک کمپنی کی رقم کو دوسری کاغذی کمپنیوں میں منتقل کرنے کی شکل میں ہو، غریب محنت کشوں کی اجرت میں ظالمانہ کمی ہو یا پھر سپلائی روک کر اشیا کی قیمتیں بڑھانے کی شکل میںہو،کوئی نہ کوئی بڑا جرم موجود ہوتا ہے۔صرف سرمایہ، محنت اور قدر محنت کے زور پر کوئی بھی غریب شخص امارت کی بلندیوں تک نہیں پہنچ سکا ہے۔بڑے بڑے کاروبار اور صنعتیں دھوکے، فراڈ، نوسربازی اور بدترین استحصال کے ذریعہ ہی پھیلتے ہیں۔ ایسے کاروبار و صنعتوں پر پڑاخیرہ کن اور زرق برق پردہ اٹھاکر دیکھاجائے تو ان کا اندرون انتہائی تاریک تر، مختلف قسم کی بددیانتی، جرائم، غریبوں اور محنت کشوں کے خون اور پسینے سے لتھڑا ہوا نظر آتا ہے۔یہ بھیانک مالیاتی جرائم کسی بھی ملک کیلئے وہ ناسور ہیں جو اس کی معیشت کو ہی تباہ و بردباد نہیں کرتے بلکہ سماجی اور معاشرتی ڈھانچہ کو بھی توڑ پھوڑ کر رکھ دیتے ہیں۔
ہندوستان میں حال کے دنوں میں ایسے ہی کئی بھیانک مالیاتی جرائم منظرعام پرآئے ہیں اور عوام کی آنکھوں سے اچھے دنوں کے تمام خواب نوچ کر لے گئے۔اپنے کاروبار کو وسعت دینے کے نام پر بینکوں کو دھوکہ دینے اور اربوں روپے کاقرض لے کر فرار ہوجانے والے وجے مالیا، نیرو مودی اور میہول چوکسی تو ایسے نام ہیں جو آج ہندوستان میں زبان زد ہیں۔ چندن کوچر اور دیپک کوچر گرفتار ہوجاتے ہیں لیکن کچھ ایسے نام بھی ہیں جن کی مختلف سطحوں سے پردہ پوشی کی جاتی ہے۔ کچھ ایسے بھی ہیں جن کی پشت پرحکومت سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر کھڑی ہوجاتی ہے اورا ن کے ’ جرائم‘ کی پردہ پوشی کیلئے پورا لشکر اتاردیاجاتا ہے۔
ایسا ہی ایک معاملہ ابھی دنیا بھر کی مالیاتی دنیامیں بحث اور تنازع کا موضوع بنا ہوا ہے۔ یہ معاملہ گجرات کے تاجر گوتم اڈانی سے متعلق بتایاجاتا ہے۔ امریکی تحقیقاتی فرم ہنڈن برگ نے الزام لگایا ہے کہ اڈانی گروپ نے 17.8کھرب روپے کے اسٹاک میںہیرا پھیری اور اکائونٹنگ فراڈ کیا ہے۔اس گروپ نے ہندوستان کے باہر واقع اپنی کئی کاغذی کمپنیوں میں ہندوستان سے بھاری رقوم منتقل کی ہیں۔اس عالمی ادارہ کی رپورٹ سے اڈانی کے شیئر کی قیمتوں میں بھاری گراوٹ آگئی، امریکہ اور دوسرے ممالک کے اسٹاک ایکسچینج نے اس گروپ کی کمپنیوں کو اپنی فہرست سے خارج کرنے کا اعلان کردیا۔اس گروپ کی مختلف کمپنیوں کو ہمارے ریاستی ادارے اسٹیٹ بینک آف انڈیا(ایس بی آئی)، لائف انشورنس کارپوریشن آف انڈیا(ایل آئی سی ) اور دیگر کئی نے بھاری رقم قرض کے طور پر دے رکھی ہے۔ایس بی آئی اور ایل آئی سی نے اڈانی گروپ کو جو قرض دیا ہے وہ عام آدمیوں کی جمع پونجی ہے جو اپنے بہتر مستقبل کیلئے وہ ایس بی آئی، ایل آئی سی یا ایسے ہی کسی دیگر ادارہ میںجمع رکھتے ہیں لیکن ان اداروں نے حکومت یا کسی دوسرے دبائو میں آکر اپنے یہاں جمع بھاری رقم اڈانی گروپ کو اٹھاکر دے دی۔اب جب کہ اڈانی گروپ پر فراڈ، دھوکہ اور جعل سازی کے الزامات لگ رہے ہیںتو لوگ اسے بھی وجے مالیا، نیرو مودی یا مہیول چوکسی کی صف میں کھڑا دیکھ رہے ہیں۔ ایسے میں حکومت کا کام تھا کہ وہ عوام کی تشویش دورکرنے کیلئے سامنے آتی، حزب اختلاف کے مطالبہ کو تسلیم کرتے ہوئے ایوان میں بحث کراتی اور وہ ان الزامات کی تحقیقات کراتی لیکن ایسا نہ کرکے حکومت ایک طرح سے گوتم اڈانی کے وکیل کے طور پر کام کررہی ہے۔
زرعی قرض لینے والا کسان،تعلیمی قرض لینے والا طالبعلم اور گھر بنانے کیلئے زمین رہن رکھ کر قرض لینے والاعام آدمی تو بینکوں کی خون آشامی کا شکار ہوجاتا ہے، حکومت بھی سخت تعزیری دفعات استعمال کرتے ہوئے ان کے گھر بار قرق کرلیتی ہے لیکن ایسے نوسربازسرمایہ داروں کی نام نہاد کمپنیوں میں اربوں روپے جھونکنے والے ریاستی ادارے تک اپنے نقصان کاتخمینہ بتاتے ہوئے لجانے شرمانے میں نئی نویلی دلہن کو بھی مات دیتے نظرآتے ہیں۔ایس بی آئی اور ایل آئی سی کی جانب سے دیے گئے قرض کے بارے میں کہاجارہاہے کہ وہ انتہائی حقیر رقم ہے جو اڈانی گروپ کی کمپنیوں کو دی گئی ہے، اس لیے عوام کی تشویش غلط اور بے جا ہے۔ ان دونوں اداروں کے چیف منیجنگ ڈائریکٹر اور چیئرمین نے بھی اپنے باس کی ہی پیروی کی اور اعدادوشمار کے گورکھ دھندوں میں معاملہ کو الجھانے کی کوشش کی۔اسٹیٹ بینک آف انڈیا (ایس بی آئی) کے چیئرمین دنیش کھاراکاکہنا ہے کہ ایس بی آئی کی جانب سے بازار میں دیے گئے کل قرض کے مقابلے میں اڈانی گروپ کو دیا جانے والا قرض فقط0.9فیصد ہے۔ اسی نوعیت کا دعویٰ ایل آئی سی نے بھی کیا ہے۔ لیکن یہ حقیررقم بھی اربوں میں ہے۔ ایس بی آئی نے گوتم اڈانی کو 27 ہزار کروڑ روپے دے رکھے ہیں جب کہ ایل آئی سی نے اڈانی گروپ کی کل پانچ کمپنیوں میں 36ہزار کروڑ روپے لگارکھے ہیں۔ وزیرخزانہ نرملا سیتارمن نے تو لفظوں کی میناکاری کرتے ہوئے کہا کہ اڈانی گروپ کی کمپنیوں میں ایس بی آئی اور ایل آئی سی کا Exposure (ایکسپوژر) انتہائی معمولی اور مقررہ حد کے اندر ہے اور انہیں قرض قانون کے دائرہ میں رہ کر دیے گئے ہیں۔
ہنڈن برگ کے الزامات کی تحقیقات سے انکار اور اڈانی گروپ کو دیے جانے والے قرض کی رقم کو ’ حقیر‘ معمولی اور حد کے اندر قرار دے کر عوام کو تسلی دینا یہ بتارہا ہے کہ حکومت اڈانی گروپ کے ترجمان کے طور پر کام کررہی ہے۔ امارت کی بلندیوں پر مکین سرمایہ داروں پر فریب، دھوکہ اور مالیاتی جرائم کے الزامات حکومت کو ’ معیشت کا چمکتا ہوا ستارہ‘ لگتے ہیں۔
[email protected]

 

 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS