محمد حنیف خان
ہندستان میں مسلم خواتین کی منظم تعلیم کا سہرا شیخ عبد اللہ اور ان کی اہلیہ وحید جہاں بیگم (جو اعلی بی کے نام سے معروف تھیں)کے سر ہے ،جنہوں نے نا مساعد حالات میں مسلم بچیوں کی تعلیم کا نظم کیا اور انتھک محنت کرکے1906میں’’ مسلم گرلس اسکول‘‘کے نام سے ایک پودا لگایا جو آج ’’ویمنس کالج ‘‘کے نام سے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا اہم حصہ ہے اور ایکشجر سایہ دارکی شکل اختیار کرچکا ہے ،جس میں ملک و بیرون ملک کی لڑکیاں زیر تعلیم ہیں ،جو عصری علوم کے ساتھ ساتھ دینی تعلیم سے بھی فیضیاب ہو رہی ہیں۔اس کا قیام یوں تو علی گڑھ تحریک کی ذیلی شاخ ’’فیمیل ایجوکیشن سیکشن‘‘ کے ماتحت عمل میں آیا تھا لیکن جس نے سب سے زیادہ خون جگر صرف کیا اس کا نام شیخ عبد اللہ ہے ۔جن کے نام سے آج ’’عبد اللہ گرلس کالج‘‘ موجود ہے۔ویمنس کالج میں ہر سال 2فروری کو یوم بانیان منایا جاتا ہے کیونکہ 2فروری 1902بروز اتوار شیخ عبد اللہ اور اعلیٰ بی رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئے تھے۔اس طرح ان دونوں محسنین کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے ایک ایسے دن کا انتخاب کیا گیا جو ان کی زندگی میں کافی اہمیت کا حامل تھا۔شیخ عبداللہ نے خواتین کی تعلیم کے لئے جو کیا اس سے دنیا واقف ہے ۔جن کی پیدائش 21جون 1874کو ہوئی ،جنہیں پاپامیاں کے نام سے جانا جاتا ہے۔وہ سر سید احمد خاں سے متاثر ہوکر ہی مدرسۃ العلوم میں تعلیم کے لئے داخل ہوئے ۔وہ ایک کامیاب وکیل تھے جو آگے چل کر فیمیل ایجوکیشن سیکشن کے سکریٹری ہوئے مسلم گرلس اسکول قائم کرکے ایک کرائے کے مکان سے اس کا آغاز کیا اور جس وقت ان کا انتقال ہوا اس وقت کالج کے پاس 46ایکڑ زمین تھی۔
یہ حقیقت ہے کہ کوئی بھی شخص تنہا کامیاب نہیں ہوسکتا ہے ،اسے بہر صورت معاونین کی ضرورت ہوتی ہے ۔اسی طرح کہا جاتا ہے کہ ہر کامیاب مرد کے پیچھے ایک کامیاب عورت کا ہاتھ ہوتا ہے۔یہ جملہ خواہ کلیشے کا درجہ اختیار کر چکا ہو لیکن شیخ عبد اللہ کی تعلیمی حصولیابیوں اور کامیابیوں کے پس پشت ان کی شریک سفر وحید جہاں کا نہ صرف ہاتھ ہے بلکہ اس کے لئے انہوں نے خود کو وقف کردیا تھا۔جب بھی تعلیم نسواں اور خصوصا ویمنس کالج کی بات ہوتی ہے تو شیخ عبد اللہ کو تو خوب یاد کیا جاتا ہے جو ان کا حق ہے لیکن ان کی اہلیہ وحید جہاں بیگم کو فراموش کر دیا جاتا ہے،جو ان کے ساتھ نا انصافی کے مترادف ہے۔میرے علم کے مطابق ان پر صرف ایک کتاب ’’سوانح عمری عبداللہ بیگم ‘‘ تحریرہوئی ہے جو ان کے انتقال کے بعدخود شیخ عبد اللہ نے لکھی تھی۔یہاں زیر تعلیم رہیں حمیدہ سالم (جو نغمہ نگار جاوید اختر کی خالہ اور صفیہ اختر کی بہن ہیں)کے اس بیان سے وحید جہاںکی خدمات کی اہمیت کااندازہ لگایا جا سکتا ہے جو انہوں نے اپنی خود نوشت ’’شورش دوراں‘‘ میں لکھا ہے کہ ’’شیخ عبد اللہ نے لڑکیوں کے لئے وہی کام کیا جو سر سید نے لڑکوں کے لئے کیا اور اعلی بی نے اپنے شوہر کو صرف اخلاقی مدد ہی نہیں دی ،ان کا ہاتھ بٹانے میں وقت دیا،محنت کی،گھر کی ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ اسکول کی ذمہ داری کا بوجھ بھی اٹھایا۔ان کا ایک پیر اپنے گھر عبداللہ لاج میں رہتا تھا اور دوسرا گرلس اسکول میں ۔انہوں نے اپنے خاندان کو وسعت دے کر اس میں اسکول کی بچیوں کو بھی شامل کر رکھا تھا۔ہوسٹل کی بچیوں کے لئے انہوں نے ماں کی جگہ لے رکھی تھی۔یہ دنیا مردوں کی دنیا ہے ورنہ اس اعتراف میں شک کی گنجائش نہیں کہ اعلی بی کی جگہ پاپا میاں سے کسی طرح کم نہیں۔‘‘
وحیدجہاں کی پیدائش دہلی میں ہوئی ،ان کے آباء و اجداد کا شمار قدیم شرفائے دہلی میں ہوتا تھا ۔والد کانام مرزا محمد ابراہیم بیگ اور والدہ کا نام زمانی بیگم تھا۔مرزا محمد ابراہیم بیگم دہلی کے محلہ فراش خانے میں رہتے تھے اور محافظ دفتر کے عہدے پر فائز تھے۔جو سر سید احمد خاں کے کاموں کے معترف و مداح تھے ۔سر سید احمد خاں اور مرزا ابرہیم بیگ کے درمیان دوستانہ مراسم تھے اور ان دونوں سے شیخ عبد اللہ کے تعلقات تھے۔مرزا ابراہیم نے اپنے بیٹے بشیر مرزا کو علی گڑھ میں تعلیم دلائی تھی ،اسی نسبت سے شیخ عبد اللہ اور وحید جہاں کی شادی بھی طے پائی تھی۔ مرزا محمد ابراہیم نے اپنی لڑکیوں کو خود اردو اور فارسی پڑھائی جبکہ ایک میم سے حساب اور انگریزی کی ابتدائی ریڈریں پڑھوائیں۔وحید جہاں بیگم کی چار بہنیں اور ایک بھائی تھا۔وہ بہنوں میں سب سے چھوٹی تھیں۔وحید جہاں بیگم فارسی اور اردو کی تعلیم میں بہت اچھی تھیں اور خط نہایت پاکیزہ اور عمدہ تھا۔ شادی کے بعد جب وہ رخصت ہوکر علی گڑھ آئیںتو اس وقت شیخ عبداللہ اپنی وکالت کے ساتھ ’سرسید میموریل فنڈ ‘میں بطور سکریٹری بھی خدمات انجام دے رہے تھے ۔جس کی وجہ سے ان کے پاس دور دراز سے ایجنٹوں کی آمد و رفت لگی رہتی تھی۔وحید جہاں بیگم ان ایجنٹوں کی خدمت کو اپنا فریضہ تصور کرتی تھیں،ان ایجنٹوں کے قیام و طعام کی ذمہ داری وحید جہاں بیگم بڑی خوش اسلوبی سے انجام دیتی تھیں کیونکہ یہ سب ایک قومی فریضہ کی انجام دہی میں مصروف تھے۔اس طرح علی گڑھ میں ان کی سماجی خدمات کا آغاز ہوتا ہے۔
علی گڑھ تحریک کے تحت 1896میں محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس کے ساتھ ایک شعبہ تعلیم نسواں قائم ہوا تھا لیکن1902تک نہ تو اس سے متعلق کوئی پیش رفت ہوئی اور نہ ہی جلسہ ہوا وہ منصوبہ فائلوں میں غائب رہا ،1902میں پہلی بار شیخ عبد اللہ نے اس جانب توجہ کی اور اپنی کوششوں سے اس شعبہ کے سکریٹری مقرر کردیئے گئے کیونکہ ان کا خیال تھا کہ گر لڑکیوں کی تعلیم کی جانب پیش رفت کرنا ہے تو اس میں تاخیر نہیں ہونی چاہئے۔جس میںبیگم عبد اللہ نے پوری دلچسپی دکھائی اور قوم کی خدمت کے لئے وہ آگے آگئیں،پہلے جلسے میں تعلیم نسواں سے متعلق ریزولیوشن وحید جہاں بیگم نے ہی پیش کیا۔
مدرسہ کے قیام میں ایک دشواری یہ تھی کہ مردوں کے ساتھ ہی بہت سی ایسی عورتیں بھی تھیں جو مدرسہ کے خلاف تھیں ان کو لگتا تھا کہ لڑکیاں بھی لڑکوں کی طرح روز اسکول جایا کریں گی ۔اس کا اظہار جب شیخ عبد اللہ نے اپنی اہلیہ سے کیا تو انہوں نے صاف صاف کہا کہ مجھے کوئی پریشانی نہیں اگر علی گڑھ میں مدرسہ کھول دو تو میں اس میں کام ضرورکروں گی۔اس طرح لڑکیوں کی تعلیم کا بندو بست ہونے سے پہلے ہی بیگم عبداللہ نے تعلیم جیسا سماجی فریضہ انجام دینے کا فیصلہ کرلیا ۔دسمبر 1904میں بیگم صاحبہ بھوپال نے علی گڑھ میں لڑکیوں کے مدرسے کے قیام کی صورت میں سو روپیہ ماہوار امداد منظور کی جس کا خط شیخ عبد اللہ نے اپنی اہلیہ کو جب دکھایا تو انہوں نے فورا دو رکعت شکرانے کی نفل ادا کی۔جس سے ان کی خوشی کا بھی اندازہ لگایا جا سکتا ہے
تلاش بسیار کے بعد جب استانی نہیں ملی اور شیخ عبداللہ بہت پریشان ہوئے تو ان کی اہلیہ نے صاف طور پر کہا کہ آپ پریشان نہ ہوں اب استانی ملے یا نہ ملے مدرسہ کھول دینا چاہئے ۔ہم خود پڑھائیں گے اور میری دو بہنیں ہیں ،ہم مل کر کم از کم پرائمری تک تو پڑھادیں گے پھر آگے دیکھا جائے گا۔لیکن دہلی سے ایک استانی مل گئی جن کی آمد کے بعد شہر علی گڑھ کے بالائے قلعہ (جسے آج اپر کورٹ کے نام سے جاناجاتاہے )میں ایک مکان لیا گیا اور1906کے اخیر سال میں مدرسہ قائم کردیا گیا۔شیخ عبداللہ کا قیام رسل گنج میں تھا جہاں سے وحید جہاں اپنی بہن کے ساتھ روزانہ مدرسہ جاتی اور انہیں قرآن مجید پڑھانے کے ساتھ ہی خوش خط سکھاتی تھیں۔اس کے ساتھ ہی ایک کام اور وہ یہ کرتی تھیں کہ مدرسہ فارغ ہو کر پاس پڑوس میں رہنے والی بچیوں کی ماؤںکو دھیرے دھیرے تعلیم کی جانب راغب کرنا شروع کیا ان عورتوں کو ڈولیوں اور پالکیوں میںمدرسہ بلواتی اور ان سے تعلیم کے سلسلے میں گفتگو کرتیںاور ان کو ترغیب دیتی تھیں کہ وہ اپنی بچیوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کریں۔عبداللہ بیگم ایک نرم دل رکھنے والی خاتون تھیں ،وہ غریبوں کی مدد اور ان کی خدمت اپنی ذمہ داری تصور کرتی تھیں ۔مدرسے میں بہت سی غریب بچیاں بھی پڑھنے آتی تھیں جن کے گھروں سے کھانانہیں آتا تھا،جب دوسری لڑکیوں کو و ہ کھانا کھاتے دیکھتیں تو بس تکا کرتی یہ دیکھ کرعبداللہ بیگم کا دل بھر آتا اور وہ ان بچیوں کو اپنا کھانا تک کھلا دیتی تھیں۔ وہ کچھ دنوں کے لئے علی گڑھ مدارس کی آنریری انسپکٹر مقرر ہوئی تھیں ان کے ساتھ ٹھاکر ادے ویر سنگھ اور بابو شیو پرشاد کی اہلیہ تھیں ،اس ذمہ داری کے ملنے سے ایک فائدہ یہ ہوا کہ ان کا دائرہ وسیع ہوگیا۔
جب بالائے قلعہ میں 1910میں وہ مکان مدرسہ کیلئے ناکافی ہوگیا جس میں مدرسہ چل رہا تھاتو اس کوکسی دوسری جگہ منتقل کرنے کا منصوبہ بنایا گیا مگر کوئی جگہ نہیں مل رہی تھی بڑی تلاش کے بعد محلہ بنی اسرائیلیان میں ایک مکان ملا جس کے پڑوسیوں کوشیخ عبد اللہ بذات خود جانتے تھے ،جب وہ مکان لے لیا گیا تو سب سے پہلے بیگم عبداللہ نے اس نئے مکان پر پہنچ کر اس کی صاف صفائی کرا ئی ،مرمت کا کام کرایا اورمدرسہ یہاں منتقل کردیا ،چونکہ یہ جگہ زیادہ وسیع تھی اس لئے یہاں بچیوں کی تعداد میں بھی بہت تیزی سے اضافہ ہوا۔1914میں جب میرس روڈ پر پہلے دارالاقامے کا افتتاح نواب سلطان جہاں بیگم نے کیا۔ دار الاقامہ کے افتتاح کے بعد اس میں پہلے روز نو لڑکیاں داخل ہوئیں جن میں تین لڑکیاں بیگم عبد اللہ اور شیخ عبد اللہ کی تھیں،تین لڑکیاں ان کی منجھلی بہن کی تھیں،ایک لڑکی عبداللہ بیگم کی دوست بلند شہر کی رئیسہ میمونہ بیگم کی تھی جبکہ دو وہ یتیم بچیاں تھیں جن کی کفالت کی ذمہ داری عبد اللہ بیگم نے لے رکھی تھی۔اس طرح عبد اللہ بیگم نے دارالاقامے کا بھی آغاز کر دیا۔ان لڑکیوں کو مدرسہ میں داخل کرنے کے بعد عبد اللہ بیگم گھر کے بجائے دا ر الاقامہ میں ہی ان کے ساتھ رہنے لگیں اور اپنے دو بچوں کو اناؤں اور ماماؤں کی ذمہ گھر پر چھوڑ دیا ،چونکہ مدرسہ سنسان علاقے میں تھا جہاں احاطے میں رات میں باہر نکلنے میںڈر لگتا تھا ایسے میںچھوٹی چھوٹی بچیوں کو تنہا نہیں چھوڑا جا سکتا تھا س لئے عبد اللہ بیگم نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنے بچوں کو گھر چھوڑکر خود دا رلاقامہ میں رہیں گی۔وحید جہاں بیگم اپنے اخراجات سے پس انداز رقم میں سے ضرورت مند لڑکیوں کی فیس تک بھرتی تھیں اور ان کو معلوم بھی نہیں ہوتا تھا کہ ان کی فیس کون ادا کر رہا ہے۔ عبداللہ بیگم کی محنتوں اور ان کی جانفشانیوں کے باعث ادارہ قائم بھی ہوا اور اس پر قوم کا اعتبار بھی ہوا،وہ بورڈنگ کی بچیوں کو اپنی بچیوں کی طرح سمجھتی تھیں اور پیش آتی تھیں اگر کسی کو کوئی بیماری و آزاری ہوگئی تو وہ بے کل ہو اٹھتی تھیں اور دن رات اس کی تیمار داری کرتی تھیں۔مدرسے کی نگرانی کے لئے ہی میرس روڈ پر مدرسے سے چند قدم کی دوری پر اپنا مکان بھی تعمیر کرالیا تھا تاکہ عبداللہ بیگم کی درپیش دشواریاں ختم ہوجائیں اور ایسا ہی ہوا کہ جب ان کا مکان تعمیر ہوگیا تو وہ شہر سے اٹھ کر مدرسہ کے قریب والے مکان میں آگئیں ۔جہاں سے وہ بہتر طور پر بچیوں کی دیکھ بھال کرتی تھی۔
وحید جہاں اپنے آخری ایام میں کچھ تو بیمار رہیں مگر آخری تین دن بالکل بیہوشی کے عالم میں گذرے ،بالآخر 18اگست 1939بروز جمعہ55برس کی عمر میںتین بج کر بیس منٹ پر ان کا انتقال ہوگیا ۔قبر کے لئے آموں کے باغ میںمغربی کونے پر خود ایک جگہ پہلے ہی پسند کرلی تھی،جہاں تدفین عمل میں آئی ۔اہم بات یہ کہ شیخ عبداللہ نے بھی اپنی آخری آرام گاہ کے طور پر ان کے پہلو میں دفن ہونا پسند کیا اور یہ دونوں شخصیات آج یہاں پہلو بہ پہلو آرام فرما رہی ہیں۔