زین شمسی: بولے جو پٹھان۔۔۔

0

زین شمسی

ایک دیہاتی دانشور سے سنا تھا کہ ادب پڑھ کرلوگ اتنے اچھے نہیں بن پاتے جتنے فلمیں دیکھ کر برے بن جاتے ہیں۔شہری دانشوران بھی فلموں پر مضمون لکھنا معیوب سمجھتے ہیں، معزز و مہذب قسم کے لوگوں کا ماننا ہے کہ فلمیں سماج پر منفی اثرات ڈالتی ہیں اور بچے یعنی نئی نسل تو خیر خراب ہوتی ہی ہے اور پھر یہ بھی کہ فلمیں ادب یا لٹریچر نہیں ہوتیں، تاہم ادب کو فلموں کے ذریعہ مقبولیت ضرور ملتی ہے۔ دلیل یہ دی جاتی ہے کہ ناول، ڈرامے اورآپ بیتیوں کو فلموں کے ذریعہ ناظرین کے سامنے رکھنے میں محدود وقت ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ اسی لیے منٹو، امرائو جان ادا، دیوداس، پنجر، تمس اور تیسری قسم یعنی مارے گئے گلفام جیسی ادبی تخلیقات فلموں کے ذریعہ عوام میں مقبول تو ہوئیں لیکن ناظرین کو اس کیفیت میں مبتلا نہیں کر سکیں جو قارئین کو محسوس ہوئی تھیں۔ دراصل سنجیدہ ادب کے قاری کم ہوتے ہیں اور پاپولر ادب کے غیرسنجیدہ قارئین کی تعداد زیادہ ہوتی ہے، اس لیے پریم چند سے زیادہ گلشن نندہ کی اہمیت ہوجاتی ہے۔ فلمیں چونکہ کاروبار ہیں اس لیے یہاں بھی پاپولر ادب کو ہی ترجیح دی جاتی ہے۔ جس طرح سماج کے کئی شعبہ جات میں تبدیلی رونما ہوئی ہے ، فلموں نے بھی اپنی شکل بدل ڈالی ہے۔ اس کی زبان بدلی ہے اور مزاج بھی۔ اردو سمجھنے والے کم ہورہے ہیں تو فلموں کی روایتی زبان اردو کی جگہ ہندی ا ٓرہی ہے یا پھرہندی نما اردو سے کام چلایا جارہا ہے۔ سیاست بدلی تو فلموں کا رویہ بھی بدلا۔ آج یہ حالت ہے کہ کچھ فلموں کی تشہیر سیاستداں کرتے ہیں تو کچھ کی سماجی تنظیمیں۔ گویا ناظرین کو کیا دکھانا ہے، اس کا فیصلہ بھی کوئی دوسرا ہی کرنے لگا ہے۔ سینسر شپ بھی سیاست کی تابع ہے۔پھر فلموں کے موضوعات کا بھٹکائو ہندوستان کے مزاج سے تال میل کھو بیٹھا۔ایسے میں لوگوں کے اندر فلم بینی کا جو جذبہ تھا، وہ کم ہوتا چلاگیا۔ آج سنیما گھروں میں لوگ کم جاتے ہیں اور انٹرنیٹ کے ذریعہ ہی فلموں کا لطف اٹھا لیتے ہیں۔
بڑی بڑی فلمیں صرف اس لیے نشانہ پر آرہی ہیں کہ اس میں کام کرنے والے لوگوں نے ہندوستانی سماج کی بگڑتی ہوئی صورتحال پر رائے زنی کی تھی اور کہنے کی بات ہی نہیں کہ وہ لوگ کون تھے اور کس نظریہ کی بات کرگئے تھے۔ ہندوستان کی فلم انڈسٹری اربوں کا منافع کماتی ہے اور کروڑوں کا ٹیکس سرکار کو ادا کرتی ہے، گویا ہندوستان کی تعمیر و تشکیل میں فلمی پیسہ بھی اہمیت کا حامل ہے۔ یوں بھی جب ہندوستان میں پی وی آر، یعنی ملٹی پلیکس سنیما کا عروج ہوا تو ملک کے طول وعرض میں پھیلے چھوٹے چھوٹے سنیما گھر وں میں تالے لگ گئے اور ہزاروں لوگ بے روزگار ہوگئے۔
جس طرح کتابوں کا نصاب تبدیل کیا جارہا ہے۔ شہروں اور مقامات کے ناموں میں ردو بدل کیا جارہا ہے، گارڈن اور ریلوے اسٹیشن اپنا نیا نام دیکھ کر حیران ہو رہے ہیں ، اسی طرح فلموں کے سبجیکٹ میں بھی تبدیلی ہو رہی ہے اور فلم انڈسٹری میں بھی تعصب اور فرقہ بندی کا کھیل شروع ہو چکا ہے۔ کشمیر فائلس، ہندوتو اور گوڈسے اور گاندھی جیسی فلمیں رواج پانے لگی ہیں۔ اسی طرح عامر، سلمان اور شاہ رخ کے پیچھے بھی لوگ ہاتھ دھو کر پڑے ہیں۔ عامر کی بہترین فلم لال سنگھ چڈھا کو نفرت نے کچل دیا، سلمان خان اور شاہ رخ خان کا متبادل تلاش کرنے کا کام شروع ہے۔ دپیکا کو جے این یو جانے کا قرض چکانا پڑتا ہے توسورا بھاسکر کو ہدف ملامت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ فلم انڈسٹری بھی ہندوستانی سیاست کے نرغے میں پھنس چکی ہے۔ انوپم کھیر ، کنگنا رناوت جیسے لوگ سیاسی بیان بازیوں کے سہارے اپنی فلموں کو کامیاب کر رہے ہیں،کنگنا نے فلم کے سپر ہٹ ہو جانے پر کہا کہ بھارت کی جنتا تینوں خانوں کی ہی دیوانی ہے، انہی کی فلم دیکھنا چاہتی ہے۔ کنگنا یہ نہیں سوچ پاتی کہ سوال تینوں خان کا نہیں ہے، بلکہ اداکاری کا ہے۔جس میں اداکاری کا دم خم ہے وہی انڈسٹری میں قائم ہے۔ یہ آج سے نہیں فلموں کی شروعات سے ہی چلا آرہا ہے۔ اور الزام تراشی جاری ہے کہ ہندی فلم انڈسٹری کا خاتمہ قریب ہے۔ ان تمام چیزوں کا جواب دیتی نظر آرہی ہے پٹھان۔
پٹھان نے نہ صرف فلم انڈسٹری کو معاشی تنگ حالی سے ابھارا ہے بلکہ سائوتھ فلم انڈسٹری کی مقبول فلموں باہو بلی ، آر آر آر،کے جی ایف اور پشپا پر اپنا دبدبہ قائم کیا۔ اس نے چھوٹے اور سنگل سنیما گھروں کو بھی آباد کیا اور یہ بھی بتا دیا کہ فلم کوئی سیاست نہیں کہ اسے احتجاج سے دبا دیا جائے۔ ہزاروں رکاوٹوں کے باوجود اس نے ٹرینڈ چینج کر دیا اور یہ پہلی بار نہیں ہوا جب شاہ رخ نے فلم انڈسٹری کو اپنے دم پر کھڑا کیا۔ اس وقت بھی جب ہندی فلم انڈسٹری جنوبی فلموں کی ڈبنگ پر چل رہی تھی اور اس وقت بھی جب ہندی فلموں پر انڈر ورلڈ کی حکمرانی تھی، شاہ رخ خان نے ہندی فلم صنعت کو اپنے دم پر کھڑا کیا۔
پٹھان کے نام کو لے کر پہلے یہ تنازع ہوا کہ یہ ودیشی نام ہے، پھر ٹیلر ریلیز ہونے کے بعد بے شرم رنگ کے گانے پر تنازع کھڑا کیا گیا۔ ریلیز کے دن بجرنگیوں نے سنیما گھروں کو ڈسٹرب کیا۔ اس کے باوجود پٹھان نے اب تک کے سارے ریکارڈ توڑ ڈالے۔ اس فلم پر ایک نوجوان فلم بین کے تاثرات دلچسپ ہیں۔ جب وہ پٹھان فلم دیکھنے گیا تو پی وی آرکی365سیٹیں فل تھیں۔ اس نے کپڑوں سے ناظرین کو پہچاننے کی کوشش کی،لیکن تاریکی میں کون ہندو، کون مسلمان، اس کا اندازہ مشکل تھا۔ پھر اس نے اندازہ لگایا کہ مودی جی کو اگر48فیصد ووٹ ملتے ہیں تو اس حساب سے اس سنیما گھر میں175بی جے پی حامی ہوں گے اور کچھ نہیں تو20-25بجرنگی تو ہوں گے ہی۔ یہ سوچ کر اندیشہ بھی ہوا کہ اگر شاہ رخ خان نے کوئی ایسی ویسی حرکت کی تو500روپے پانی میں گئے۔ فلم آگے بڑھتی گئی اور تھیٹر میں شور و سیٹی کی آوازیں تیز ہوتی گئیں۔ اچانک ایک منظر میںشاہ رخ خان نے وعلیکم الاسلام و رحمتہ اللہ برکاتہ کہا، وہ حیران تھا کہ تھیٹر میں سب سے زیادہ تالی اور شور اور چیخیں اسی منظر پر سنائی دیں۔ پھر بھائی جان یعنی سلمان خان کی انٹری نے تو جیسے ناظرین کو پاگل ہی کر دیا۔ حیرانی اس بات پر مزید بڑھ گئی جب شاہ رخ خان نے جے ہند کہا اور کئی لوگوں کی آنکھیں نم ہوگئیں۔ وہ یہ نہیں سمجھ سکا کہ یہ نمی شاہ رخ کی اداکاری کی وجہ سے تھی یا سیاست کی حب الوطنی پر چل رہی اداکاری کی وجہ سے تھی۔
(مضمون نگار سینئر صحافی ہیں)
[email protected]

 

 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS