مرکزی وزیرخزانہ محترمہ نرملا سیتارمن اور ان کی ٹیم نے ایک بار پھر قیاس کے گھوڑے دوڑائے ہیں اور تخمینہ لگایا ہے کہ مالی سال 2023میںہندوستان کی مجموعی گھریلو پیداوار (جی ڈی پی)کی شرح نمو 7 فیصد رہے گی جب کہ اگلے سال کیلئے 6.5فیصدشرح نموکا تخمینہ لگایاگیا ہے ۔وزیرخزانہ کا دعویٰ ہے کہ اگر یہ ہدف حاصل کرلیاگیا تو ہندوستانی معیشت دنیا کی سب سے تیزی سے ترقی کرنے والی معیشت بن جائے گی ۔
قیاس پر مبنی وزیرخزانہ نے یہ اعدادوشمار آج بجٹ اجلاس کے پہلے دن سال 2023-24کیلئے اقتصادی سروے جاری کرتے ہوئے پیش کیے۔ اقتصادی سروے بجٹ سے ایک روز پیش ایوان میں حکومت کی جانب سے پیش کی جانے والی ایک قسم کی رپورٹ اور سالانہ دستاویز ہے ۔اس دستاویز میںحکومت گزشتہ ایک سال میں معیشت کی حالت سے متعلق اعداد و شمار پیش کرتی ہے، ساتھ ہی حکومت معیشت کو درپیش بڑے چیلنجز کا اندازہ لگاتی ہے اور ان کے ممکنہ حل پیش کرتی ہے۔اقتصادی سروے کو ہندوستانی معیشت سے متعلق ڈیٹا کا مستند اورتازہ ترین ذریعہ سمجھاجاتا ہے ۔اسے وزارت مالیات کا محکمہ اقتصادی امور اپنے مشیر اعلیٰ کی نگرانی اور رہنمائی میںتیار کرتا ہے ۔1964تک یہ مرکزی بجٹ کے ساتھ ہی پیش کیا جاتا رہا تھا لیکن اس کے بعد اسے بجٹ سے الگ کردیاگیا اور اب عموماً یہ بجٹ سے ایک دن پہلے ایوان میںپیش کیاجاتا ہے ۔اس سال کا اقتصادی سروے وزارت خزانہ کے مشیر اعلیٰ وی اننتھا ناگیشورن کی رہنمائی میں تیار کیاگیا ہے ۔
اقتصادی سروے 2023-24پیش کرتے ہوئے وزیرخزانہ نرملا سیتارمن نے کئی دعوے بھی کیے ہیں ۔ان کے مطابق وبائی امراض کووڈ19-کی وجہ سے معیشت کی سست پڑجانے والی رفتار اور دوبارہ متحرک ہوگئی ہے اور وبا کی وجہ سے ہندوستانی معیشت نے جو کچھ کھویاتھا، اسے دوبارہ حاصل بھی کرلیا ہے۔ سروے میں جو نکات واضح اور بین طور پر بیان کیے گئے ہیں، ان میں نجی کھپت، زیادہ سرمائے کے اخراجات، مضبوط کارپوریٹ بیلنس شیٹس، چھوٹے کاروباروں کیلئے قرضوں میں اضافے وغیرہ شامل ہیں ۔ یعنی وباکے بعد پیداہونے والی صورتحال کے دوران معیشت کو بحال رکھنے کیلئے حکومت نے جو اقدامات کیے ہیں، اقتصادی سروے میں ان کی تفاصیل بیان کی گئی ہیں۔چند ایک تشویشات کا بھی ذکر کرتے ہوئے وزیرخزانہ نے کرنٹ اکائونٹ خسارہ کی بلا عالمی اقتصادی صورتحال کے سر ڈالنے کی کوشش کی ہے اور کہاہے کہ عالمی سطح پر اشیا کی قیمتیں بلند ہوتے رہنے کی وجہ سے مستقبل میں یہ خسارہ مزید بڑھ سکتا ہے لیکن اس سے نمٹنے کیلئے حکومت کے پاس زرمبادلہ کا کافی ذخیرہ موجودرہنے کا دعویٰ بھی کیاگیا ہے ۔ مجموعی طور پرصورتحال کو معتدل بتایاگیا ہے ۔
اقتصادی سروے،گزشتہ مالی سال کے دوران حاصل اہداف کی ایسی دستاویز ہے جس کی بنیاد پر آگے ہدف کا تعین اور معیشت کی بہتری کے سامان کیے جاتے ہیں لیکن اقتصادی سروے 2023-24 میں قیاس و گمان پر اعدادوشمار کی جو بازیگری کی گئی ہے، ایسا نہیںلگتا ہے کہ وہ زمینی حقائق کی عکاس ہے ۔ جی ڈی پی کی شرح نمواور مجموعی معیشت کی ترقی کے سلسلے میںقیاس درست ثابت ہو،اس کا دعویٰ باطل ہی ہے کیوں کہ عالمی بینک، بین الاقوامی مالیاتی فنڈ(آئی ایم ایف) اوراے ڈی بی جیسی عالمی اور کثیرالجہتی ایجنسیاں ہر تیسرے مہینہ ہمارے تمام قیاس، تخمینے اور اندازوں کے تاروپود بکھیرتی رہی ہیں ۔حتیٰ کہ آر بی آئی کی جانب سے متعین افراط زر کی شرح بھی قابل لحاظ حد تک اوپر نیچے ہوتی رہی ہے۔ ابھی گزشتہ سال اکتوبر کے ہی مہینہ میں آئی ایم ایف نے ہندوستان کی اقتصادی ترقی کے تعلق سے اپنی پیش گوئی بھی کردی تھی اوراس کی وجہ ہندوستان میں افراط زر، قیمتوں میںبے لگام اضافہ، قلت روزگار اور طلب و رسد کے مابین وسیع خلیج کو قرار دیا تھا ۔ لیکن وزیرخزانہ نے اپنے اقتصادی سروے میںیہ دعویٰ کیا ہے کہ وبا کی وجہ سے معیشت نے جو کچھ کھویاتھا،وہ دوبارہ حاصل کرلیا ہے ۔ اب یہ تو وہی یا پھر ان کے مشیرخزانہ ہی بہتر بتاپائیں گے کہ سال2022کے دوران اگر معیشت نے اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کیا ہے، بہتراور مستحکم ہوئی ہے تو پھر آج افراط زر کا سیل رواں غریبوںکو کیوں بہائے لیے جارہاہے ۔روپیہ کی کم ہوتی قدر، زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی کی خبروں کو کن خانوں میں رکھاجائے؟
[email protected]