نئی دہلی /دوحہ (قطر) ، (یو این آئی) اپنے معاشرے کو اگر ہمیں بدلنااور بہتر تبدیلی چاہتے ہیں تو تعلیم سے بڑا کوئی ہتھیار نہیں ہے۔ اردو زبان کے چاہنے والوں کا یہ فریضہ ہے کہ سماج کو تعلیم کی روشنی سے مالا مال کریں اور سب سے بڑھ کر کتابوں کی تصنیف اور تالیف کے ساتھ اُن کی اشاعت پر خصوصی توجہ دیں۔یہ باتیں ’اردو ادب: عالمی تہذیب و ثقافت کا نقیب‘ کے موضوع پرگزشتہ روز منعقدہ عالمی سیمینا رمیں معروف سماجی اور تعلیمی شخصیت جناب حسن عبد الکریم چوگلے نے افتتاحی جلسے کی صدارت کرتے ہوئے کہیں
انہوں نے کہا کہ ہر طبقے اور ہر کام کے لیے ہماری زبان میں کتابوں کا ایک سلسلہ ہونا چاہیے۔ بزمِ صدف نے یہ اچھا کام کیاکہ مشاعروں کے ساتھ سے می نار، عوامی فلاحی کاموں کے ساتھ کتابوں کی اشاعت کا ایک سلسلہ دراز کیا ہے۔ اِس کے اثرات دیر پا ہوں گے اور سماج کو اِس سے بڑا فایدہ حاصل ہوگا۔
کلیدی خطبہ پیش کرتے ہوئے بزمِ صدف کے ڈائرکٹر اور معروف نقّاد پروفیسر صفدر امام قادری نے تاریخی اور تہذیبی حوالہ پیش کرتے ہوئے یہ بتایا کہ زبانوں اور مذاہب کے درمیان ہم آہنگی کا طَور اردو کے آغاز کے زمانے سے ہی ملتا رہا ہے۔ ساتویں صدی سے بارہویں صدی کے دَوران ہندستان میں جو لسانی اشتراک اور لین دین کا ماحول تیّار ہوا، اُسی کا ایک خوش گوار نتیجہ اردو کی پیدایش بھی ہے۔ اِس سے پہلے سنسکرت یا پراکرت یا دراویڈی زبانوں میں اشتراک کا کوئی عمومی سلیقہ نظر نہیں آتا تھا۔ زبانیں عوامی اور سیاسی یا مذہبی جاگیروں کی طرح خانہ بندی میں اُس زمانے تک نظر آتی ہیں مگر جس زمانے میں اردو کی تشکیل ہو رہی ہے، اُس عہد میں ایک خاص روادارانہ شعور پیدا ہوتا ہوا نظر آتا ہے جسے پوری علمی دنیا نے امیر خسرو کی شخصیت اور شکل میں پہچانا۔
بزمِ صدف کے چیر مین شہاب الدین احمد نے اپنے افتتاحی خطاب میں کہا کہ بزمِ صدف اپنے علمی و ادبی اور ترویج و اشاعت کے کام میں کل وقتی طَور پر لگی ہوئی ہے۔ بزمِ صدف کی ہمیشہ یہ کوشش رہی ہے کہ اردو زبان کی عالمی حیثیت کے شواہد ہر محفل میں پیش کیے جائیں۔ زبانوں سے قوموں کامزاج سمجھ میں آتا ہے۔ اردو برِّ صغیر ہی نہیں عالمی طَور پر امن اور اخوت کے اوصاف کو عام کرنے کے لیے کوشاں رہی ہے۔ یہ مذاکرہ بھی اِسی طَور پر منعقد کیا گیا تاکہ اردو سے متعلق مختلف ملکوں اور تہذیبوں کے افراد ایک دوسرے کے ساتھ تبادلہئ خیالات کریں اور سماجی و علمی رواداری کا پیغام عوام تک پہنچایا جا سکے۔
کلیدی خطبے کے بعد معروف افسانہ نگار داکٹر شکیل کی صدارت میں پینل ڈسکشن کا سلسلہ شروع ہوا اور ناظمِ مجلس نے ماہرین سے گزارش کی کہ وہ اپنے تجربات و مشاہدات کے حوالے سے مذاکرے کے علمی دایرہئ کار میں توسیع کریں۔ بزمِ صدف بین الاقوامی ایوارڈ یافتہ معروف شاعرہ شاہدہ حسن نے پاکستان اور کینیڈا میں اردو کی مجلسوں کے حوالے سے اپنی گفتگو کے دَوران ایک خوش آیند منظر نامے کو واضح کرنے میں کامیابی پائی۔ اُنھوں نے بتایا کہ اردو سے دُور کے علاقے کے باوجود ذاتی کوششوں سے نئی نسل کو اردو کی طرف راغب کرنے کی ہماری کوششیں بار آور ہو رہی ہیں۔ اُنھوں نے یہ بھی کہا کہ جغرافیائی اعتبار سے برِّ صغیر سے مختلف علاقوں میں جو ادب تخلیق ہو رہا ہے، وہ اپنے انوکھے پن کی وجہ سے قابلِ اعتنا ہے۔ بزم ِصدف نئی نسل ایوارڈ یافتہ شاعرہ اور نقّاد ڈاکٹر عنبرین صلاح الدین نے اوّلاً تانیثی ترجیحات کو موضوعِ بحث بنایا اور یہ واضح کرنے میں کامیابی پائی کہ ایک عالمی ماحول میں ہی اِس انداز کا نیا ادب تخلیق پا سکتا ہے جیسا فی زمانہ ہے۔ پاکستان اور دوسرے ملکوں میں جوکچھ لکھا پڑھا جا رہا ہے، اس کا احتساب لازم ہے۔
جرمنی سے تشریف فرما محترمہ امۃالمنّان طاہر نے اپنی طویل تدریسی زندگی کے تجریبات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ جرمنی میں مختلف تعلیمی اداروں میں اردو کی تدریس کے لیے ہر طرح کی سہولیات موجود ہیں۔ حرف شناسی سے لے کر ترجمہ اور تنقید و تحقیق کا سلسلہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ ایک بڑی تعداد میں جرمن نژاد طالب علم اور استاد بھی اِس میدان میں کامیاب ہوتے نظر آ رہے ہیں۔ اُنھوں نے اپنی تقریر کے دوران درجنوں ایسی کتابوں کا تذکرہ کیا جس سے یہ ثابت ہوا کہ اردو کے شہ کار جرمن زبان میں اور جرمن کے شہ کار اردو میں منتقل ہو رہے ہیں۔اُنھوں نے اپنی برسوں کی مشقّت کے نتیجے میں اردو سیکھنے کے لیے جرمن کے طلبہ کے لیے جو کورس تیّار کیا، اُس کی شایع شدہ کاپی پیش کرتے ہوئے اطمینان ظاہر کیا کہ اِ س سے کوئی بھی جرمن نژاد ابتدائی اردو کی مشقیں مکمّل کر سکتا ہے۔
امریکہ سے تشریف لائے ممتاز مزاحیہ شاعر جناب خالد عرفان نے امریکہ میں اردو کی مجلسوں، تدریسی مراکز اور آئے دن ہونے والے مشاعروں کے سلسلے سے اطلاعات فراہم کرتے ہوئے بتایا کہ امریکہ میں یہ زبان برِّ صغیر کے تارکینِ وطن کے لیے اوّلین ترجیح کا باعث ہے۔ انھوں نے ادبا و شعرا کے درمیان سرگرم علمی رابطے کی اہمیت کا اقرار کیا اور یہ بات بھی بتائی کہ امریکا میں اردو والے آپس میں ملتے جلتے اور اپنی تخلیقات کو ایک دوسرے کو سناتے رہتے ہیں۔ معروف شاعر حسن کاظمی نے ہند و پاک میں اردو شاعری کی مقبولیت اور ذرائع ترسیل کے سہارے بڑے حلقے تک پہنچنے کے معاملات پر غور کرتے ہوئے بتایا کہ اردو کے مستقبل سے مایوسی کی ضرورت نہیں کیوں کہ اس کا روایتی دائرہئ کار اچھا خاصا بدل چکا ہے اور اس کے مطابق نئے چاہنے والے بھی پیدا ہوتے رہے ہیں۔
مذاکرے کی نظامت مشترکہ طور پرمعروف شاعر اور بزمِ صدف دوحہ شاخ کے صدر ڈاکٹر ندیم ظفر جیلانی اورجناب احمد اشفاق،پروگرام ڈائرکٹر: بزمِ صدف کر رہے تھے۔ اُنھوں نے جستہ جستہ پینل کے سامنے سوالات بھی پیش کیے۔ اُنھوں نے زبان کے معیاری اور غیر معیاری ہونے کی مثالیں پیش کرتے ہوئے ان کے استعمالات کی علمی اور عوامی جہات پر افراد کی واضح راے جاننا چاہا۔ عنبرین صلاح الدین نے کہا کہ زبان میں تبدیلیوں کا تصوّر ہمیشہ عوام کے سبب اپنی شکل واضح کرتا ہے، اِس لیے اُس زبان کو غیر معیاری سمجھ کر چھوڑ دینا معقول بات نہیں۔ شاعری کے لیے جو لفظ چاہیے، افسانے کے لیے اُس سے مختلف آداب درکار ہیں۔ اُسی طرح تنقید اور صحافت کے لیے بھی انداز و اسالیب کی ضرورت ہے۔ تخلیقی سطح پر اُنھوں نے میر کے اشعار سے مثال دیتے ہوئے یہ بتایا کہ کس طرح گرے پڑے اور عرفِ عام میں غیر معیاری زبان میں میر ایسی روح پھونک دیتے ہیں کہ وہ ہمارے لیے زندہئ جاوید شعر ہو جاتے ہیں۔
مذاکرے میں تکنیکی علوم کے لیے اردو میں کیسی سہولیات ہیں اور اِس سے ہماری زبان کس قدر ہماری ضرورتوں کو پوری کرنے میں کامیاب ہے، اِس پر ڈاکٹر ندیم ظفر جیلانی نے مثالوں کے ساتھ بتایا کہ یورپ کے مختلف ملکوں میں وہاں کی مقامی زبانوں میں میڈیکل کی تعلیم کا انتظام کیا جا رہا ہے۔ ڈاکٹر شکیل نے ہندستان میں ہندی میں میڈیکل کی تعلیم کے سلسلے سے تیّار کی جارہی کتابوں کا تذکرہ کیا۔ اِسی مرحلے میں صفدر امام قادری نے بتایا کہ جامعہ عثمانیہ، حیدرآباد میں کس طرح میڈیکل، انجینیرنگ اور وکالت کے تعلق سے اردومیڈیم سے تعلیم دینے کا انتظام تھا مگر تقسیمِ ملک کے ساتھ ساتھ اُس عظیم ادارے کو اُس کے حقیقی مقاصد سے دُور کر دیا گیا۔
صدارتی خطبہ پیش کرتے ہوئے ڈاکٹر شکیل نے کہاکہ اردو کے بین الاقوامی تناظر پر جو اطلاعات مذاکرے میں حاصل ہوئیں، وہ خو ش آیند ہیں۔ اُنھوں نے یہ مشورہ دیا کہ اردو کو آج کے مشکل سیاسی اور سماجی ماحول میں زبان کو یک رُخا اور بنیاد پرستانہ رجحان سے الگ کرکے ایک سیکولر اور کھلے سماج میں رکھنے کی مہم کا حصّہ ہونا چاہیے۔ اُنھوں نے کہا کہ نئے عہد کے تقاضوں سے جب تک ہم اپنی زبان کو ہم کنار نہ کریں گے، ہماری قبولیت اورشناخت میں رُکاوٹیں بھی آتی رہیں گی۔ اِس لیے جدید سماج اور عہد کی ضروریات کے مطابق اپنی زبان کو حسبِ ضرورت بدلنا چاہیے۔
افتتاحی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے دوحہ قطر کی معروف شخصیت پروفیسر صوفیہ بخاری نے اردو زبان سے اپنی محبت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ دوحہ قطر میں اُن کے شوہر مرحوم محمد صبیح بخاری نے جن کاموں کی بنیادیں رکھی ہیں، اُنھیں وہ آگے بڑھاتی رہیں گی۔ مادری زبان کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے انھوں نے اپنے بچوں کو اردو زبان سے واقف کرانے پر زور دیا اور سرپرستوں پر یہ ذمہ داری عاید کی کہ وہ چاہے کہیں بھی رہیں، اپنی زبان کی خدمت کا طور اپنا سکتے ہیں۔ افتتاحی جلسے کی نظامت جناب احمد اشفاق نے کی۔ معروف سائنسی محقق پروفیسر سید جاوید زیدی نے اپنی تقریر کے دوران یہ بات کہی کہ برِ صغیر سے دور رہتے ہوئے اگر ہم خصوصی توجہ نہ کریں تو اپنے گھروں میں اردو کا چراغ روشن نہ ہو سکے گا۔ ا روزنامہ تاثیر کے چیف ایڈیٹر ڈاکٹر محمد گوہر نے اردو زبان کی بقا اور ترقی کے لیے اردو اخبارات کی خدمات کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ مشکل حالات کے باوجود ہم اردو اخبارات شائع کررہے ہیں اور طرح طرح سے اپنی زبان کے پرچم کو بلند کرنے کی کوششیں کررہے ہیں۔بزم صدف کویت شاخ کے صدرجناب مسعود حساس نے کویت اور خلیج کے دوسرے ممالک میں اردو کی موجودہ سرگرمیوں پر اختصار کے ساتھ روشنی ڈالی۔ دوحہ شاخ کے صدر ڈاکٹر ندیم ظفر جیلانی نے استقبالیہ خطاب کیا اور بزمِ صدف کی پچھلی کارکردگیوں کا تذکرہ کرتے ہوئے موجودہ پروگرام اور تقریبِ انعامات کی اہمیت پر روشنی ڈالی۔