عمیر انس
موجودہ ترقیاتی پالیسیوں کا سب سے بنیادی اور سب سے اہم پہلا قدم یہ ہے کہ آپ کی معاشی وسماجی مسائل کے بارے میں جانکاری اعداد و شمار کی شکل میں اور تفصیلی شکل میں دستاویز کی جائے۔ اگر آپ کے مسائل شمار نہیں کیے جارہے ہیں تو آپ بیوقوف بنائے جا سکتے ہیں۔ مثلاً کہا جاتا ہے کہ مسلمان بہت ترقی کر رہا ہے لیکن ثبوت مانگیں تو ایک نہیں۔ ایک جمہوری ملک کے شہری کا حق ہے کہ اس کو ترقیاتی کاموں میں امتیاز اور تفریق کا نشانہ نہ بننا پڑے اور اس کے لیے دستور یہ کہتا ہے کہ کسی بھی شہری کو اس کے مذہب، فرقہ، زبان، جنس، علاقے سمیت کسی بھی وجہ سے تفریق کا نشانہ نہیں بنایا جا سکتا۔ دلتوں اور قبائلی افراد کے ساتھ تفریق جاری تھی تو سب سے پہلا کام یہ کیا گیا کہ حکومت کے سبھی فائدوں کو ان تک پہنچانے کے لیے ان کے لیے الگ سے اعداد و شمار جمع کرنے شروع کیے گئے، اب ستر سالوں میں انہیں کس مہینے، کس ضلع میں کتنا فائدہ ملا ہے، اس کا ثبوت دینا بہت آسان ہے۔
پچھلی حکومتوں میں مسلمانوں کو بہت فائدہ پہنچائے جانے کا پروپیگنڈہ کیا گیا تاکہ کانگریس حکومت کو مسلم پرست ثابت کرکے اس کو ہندو رائے دہندگان سے متنفر کیا جا سکے اور اس میں کافی کامیابی بھی ملی۔ ہارنے کے بعد کانگریس رہنما اے کے انٹونی نے کہا کہ کانگریس کو مسلم پرست شبیہ سے باہر نکلنا ہوگا۔ اس کے بعد تقریباً سبھی سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے اپنے پروگراموں میں مسلمان چہرے دور کر دیے، اپنی تقریروں میں مسلمانوں کے بارے میں بولنا بند کر دیا، اپنے اخباری بیانات میں مسلمانوں سے متعلق سخت سے سخت حادثے پر خاموشی اختیار کرنے لگے۔ لیکن حقیقت سب کو معلوم تھی کہ مسلمان کو کسی حکومت نے سوائے ٹوکن کارڈ کے کوئی باقاعدہ فائدہ پہنچانے کی کوشش نہیں کی ہے، خود سچر کمیٹی کے بعد بھی کانگریس حکومتوں نے اس بات کی پروا نہیں کی کہ مسلمانوں کے معاشی، سماجی مسائل کو اسی طرح سے دستاویز کیا جائے جیسے دلتوں کے ہوتے ہیں۔لیکن زمینی حقیقت یہ تھی کہ مسلمانوں کو ہاتھی کی پونچھ کے برابر بھی حصہ نصیب نہیں ہوا تھا، کوئی عام ہندو جسے لگتا ہو کہ کانگریس اور سماج وادی وغیرہ جماعتوں نے مسلمانوں پر سرکاری خزانے کھول دیے تھے، انہیں کسی بھی ایک مسلم محلے میں لے کر جائیں اور دکھائیں کہ مسلمانوں کی اصل حالت کیا ہے۔ لیکن اس کے باوجود ملک میں یہ تاثر عام ہوگیا کہ مسلمانوں کو خوب ملا اور مسلمانوں کی مسیحائی کا دعویٰ کرنے والی جماعتوں نے فوراً اپنے دروازے مسلمانوں کے لیے بند کر دیے اور زبانوں سے لفظ مسلمان لینا بند کر دیا کہ کہیں ان پر مسلم نوازی کا الزام عائد نہ ہوجائے، لیکن مسلم سیاستداں اور مسلمانوں سے ہمدردی کا دعویٰ کرنے والی جماعتیں بڑی آسانی سے رد کرسکتی تھیں، ان کے پاس حکومت سے ملنے والے ہر ایک فائدے میں مسلم اور غیرمسلم فائدہ اٹھانے والوں کی مکمل معلومات تھی، ملازمت، بینکوں سے قرض، سڑکیں، مکان، اسکول، اسپتال، وظیفے، تجارتی امداد وغیرہ ہر شعبے کی معلومات مسلمانوں کے پاس ہونی چاہیے تھی لیکن ان کی جماعتوں کے پاس ایسی کوئی معلومات نہیں تھی، نتیجہ یہ ہے کہ مسلمان غریب ہیں لیکن عوام کی اکثریت ان کو امداد کا مستحق نہیں سمجھتی بلکہ جو کچھ ہے اسے بھی چھین لینے کی حمایت کرتی ہے، یہ سارا معاملہ اس وجہ سے ہے کہ مسلمان تنظیمیں اور قائدین اپنے کاموں میں قابل اعتبار معلومات جمع کرنے کا اہتمام نہیں کرتے اور اس کے لیے ضروری افراد کا تقرر بھی نہیں کرتے اور جو ہیں ان کو ضروری تربیت اور ٹریننگ بھی نہیں دیتے۔
مثلاً یہ بات کہ مسلمان انتخابی اعتبار سے بہت ساری نشستوں میں موثر ہیں لیکن ان کے سیاستدانوں میں متعین اعداد و شمار اور معلومات حاصل نہ کرنے اور اس کے مطابق اقدامات کا اہتمام نہ کرنے کی وجہ سے وہ روایتی سیاست میں مصروف ہیں اور پورے ملک کو ایک ہی سیاسی یونٹ کی طرح سے ایک ہی قسم کی تقریروں اور موضوعات سے متاثر کرنے کی مہم چلاتے ہیں، ظاہر ہے کہ جیتنے والی جماعتیں ہر نشست کی الگ الگ حکمت عملی بنانے کا اہتمام کرتی ہیں اور ملکی سطح پر الگ، یہ سب ممکن ہوتا اگر مسلمان قیادت میں ڈیٹاجمع کرنے اور اس کا موثر استعمال کرنے کا اہتمام کیا جاتا، یہی نہیں بلکہ خود اپنے قیمتی سرمایہ کو ملی فلاح کے لیے پورے خلوص کے ساتھ خرچ کرنے والوں کے ساتھ بھی یہی پریشانی ہے کہ وہ کروڑوں روپے خرچ کرتے رہتے ہیں اور نتائج نہیں حاصل ہوتے کیونکہ بیشتر اہم پروجیکٹس پر پیسہ لگانے سے پہلے اس کا بنیادی سطح کا تجزیہ کرنے کا اہتمام نہیں ہوتا، متعدد مدارس بڑی بڑی عمارتیں رکھنے کے باوجود طلبا کو اپنی طرف متوجہ کرنے میں ناکام ہیں، کوئی تعلیم کے بعد ان کو بہتر مستقبل دینے میں ناکام ہے، کوئی ان کی اہم صلاحیتوں کا بہتر استعمال کرنے میں ناکام ہے کیونکہ مدارس اور اداروں کے کام کرنے کے کلچر میں کہیں نہ کہیں سادگی کا وہ تصور عام ہے کہ کام کیے جا نتیجہ اللہ تعالیٰ پر چھوڑ دے، یا اخلاص کا وہ ناقص تصور عام ہے جس کے چلتے انہیں کام کرنے سے پہلے بہت زیادہ ہوم ورک کرنا غیر ضروری لگتا ہے، لیکن کوئی بھی مسلمان تاجر خود اپنے ذاتی کاموں میں یہ غلطیاں نہیں کرتا، اپنی ذاتی تجارت میں وہ بہت تیاری کرتا ہے، پھر آخر ملی اور اجتماعی کاموں میں یہ تغافل کیوں؟
مسلم قیادت کو یہ محسوس کرنے کی ضرورت ہے کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے زمانے میں معلومات یا ڈیٹا سب سے بڑی دولت یا سرمایہ ہے، آپ جتنی زیادہ معلومات جتنے بہتر طریقے سے جمع کرسکتے ہیں اور اس کا تجزیہ کرنے والے سافٹ ویئر اور طریقوں کے ذریعہ انہیں سمجھ سکتے ہیں تو آپ محض دو چار مہینوں کے نہیں بلکہ دو چار دہائیوں کے ٹرینڈ اور ضرورتوں کی پیشین گوئی کر سکتے ہیں، مسلمان تنظیمیں اپنے بارے میں بہت بڑی بڑی باتیں کرتی ہیں اور اپنے کارناموں کو بہت بڑھا چڑھا کر پیش کرتی ہیں، اگرچہ اشتہار کی غرض سے ایسا کرنا ضروری ہے لیکن اپنے آپ کا جائزہ لینے کے لیے نقصان دہ اور اپنے کارکنان کو غلط سمت میں اور غلط تاثر میں رکھنے کے مترادف ہے اور آج کے ڈیٹا مینجمنٹ سے کوئی بھی عام تجزیہ کار آسانی سے بتا سکتا ہے کہ کسی تنظیم یا شخص نے کتنا کام کیا ہوگا اور کیا کیا ہوگا، مثال کے طور پر آنے والے زمانے میں مصنوعی عقل کا استعمال عام ہو جائے گا، جن کو اس کا احساس ہے وہ اس میدان میں تعلیم لینے سے لے کر کمپنیاں تک قائم کر رہے ہیں، اگر مسلمان ادارے اور قیادت بالضبط معلومات کی بنیاد پر اپنے تجزیے کرنے کا اہتمام کرتے تو ان کے لیے بھی یہ جاننا کوئی مشکل کام نہیں ہوتا کہ انہیں کب کہاں کتنے انٹر کالج، کتنے مدرسے، کتنے انجینئرنگ اور کتنے میڈیکل کالجز کی ضرورت پڑنے والی ہے۔ یہ معلوم کرنا بالکل ممکن ہے کہ کس علاقے میں کس قسم کا انویسٹمنٹ کرنے سے کس طرح کی معاشرتی خوبیاں یا خرابیاں پھیل سکتی ہیں۔ یہ جاننا بالکل ممکن ہے کہ مسلمانوں کی فی کس آمدنی آئندہ کتنے سالوں میں کتنی ہوسکتی ہے اور کون سے علاقے کے مسلمان کس کس میدان میں نمایاں ہوسکتے ہیں، یہ باتیں حکومتوں کو بھی معلوم ہیں اور پرائیویٹ کمپنیوں کو بھی معلوم ہیں، لیکن کیا ہم اور آپ معلومات کے اس دور میں معلومات کو اسی طرح منظم اور موثر انداز سے استعمال کرنے کی کوشش کے لیے تیار ہیں، اس کے لیے ابتدائی اقدامات بہت معمولی ہوں گے، ہر ادارے میں ایک شخص معلومات جمع کرنے کے لیے مختص ہو ، اس کو ڈیٹا مینجمنٹ کی بنیادی ٹریننگ دلائی جائے، اس کو ڈاکیومنٹیشن کی بنیادی تربیت دی جائے اور اپنے اداروں کی ضرورتوں کے مطابق معلومات جمع کرنے اور اس کو اسٹور کرنے اور اس کو حسب ضرورت استعمال کرنے کا اہتمام کیا جائے۔ یہ بیحد اہم ہے اور بیحد آسان بھی اور بہت زیادہ سستا بھی، بس کرکے دیکھنے بھر کی ضرورت ہے، خود میں اور میرا ادارہ اس کام کے لیے اپنے احباب کے ساتھ تعاون کرنے کے لیے تیار ہیں۔
(مضمون نگار سینٹر فار اسٹڈیز آف پلورل سوسائٹیز، تھنک ٹینک کے ڈائریکٹر ہیں۔)
[email protected]