ڈاکٹر محمد ضیاء اللّٰہ
فلسطینیوں پر اسرائیلی مظالم کی داستان ایسا کرب ناک اور تکلیف دہ سلسلہ ہے جس میں اس بات کا فیصلہ کر پانا مشکل ہو جاتا ہے کہ کس واقعہ پر زیادہ توجہ دی جائے اور اس کے تمام پہلوؤں کو تفصیل سے بیان کیا جائے کیونکہ فلسطینی عوام کی زندگی کا ہر روز نہیں بلکہ ہر لمحہ اپنے وجود کی جنگ میں گزرتا ہے۔ غزہ اور ویسٹ بینک کوئی آزاد علاقہ نہیں ہے کہ جہاں آزادی کے ساتھ فلسطینی زندگی گزار سکیں اور اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کا کوئی پلان تیار کر سکیں۔ وہ تو ایک کھلے جیل میں جیتے ہیں جہاں پر اسرائیلی فوج، صہیونی نو آبادکار اور اسرائیل کی پولیس مشترک طور پر فلسطینیوں پر حملہ آور ہوتے ہیں اور انہیں ان کے گھروں سے بے دخل کر دیتے ہیں۔ اگر کسی نے ادنیٰ درجہ میں بھی مزاحمت کی تو اسرائیلی بندوق کی گولیوں کا نشانہ بن جاتا ہے۔ یہ ایک ایسا سلسلہ ہے جو ہر روز ہی کسی نہ کسی شکل میں جاری رہتا ہے۔ اس کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس برس اب تک 30 فلسطینی مارے جا چکے ہیں۔ لیکن 26 جنوری کو جنین میں فلسطینیوں کا جس وحشت ناکی کے ساتھ قتل کیا گیا ہے وہ گزشتہ کئی برسوں میں اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ کہا جا سکتا ہے۔ جنین میں بسنے والے دس فلسطینیوں کے قتل کی ضرورت اسرائیل کو کیا پڑی تھی جبکہ وہاں کے حالات پہلے ہی سے مسلسل خراب چل رہے تھے اور ضرورت اس بات کی متقاضی تھی کہ مزید بحران سے اس معاشرہ کو بچایا جائے۔ لیکن شاید نیتن یاہو کی قیادت میں تشکیل پانے والی اسرائیل کی حالیہ حکومت سے اس کی توقع نہیں کی جاسکتی کیونکہ اس کے حلیفوں میں اسرائیل کی وہ مذہبی اور صہیونی سیاسی پارٹیاں شامل ہیں جو اپنے تشدد آمیز افکار اور فلسطینیوں کے تئیں سخت موقف کے لئے معروف ہیں جن میں داخلی سیکورٹی کے وزیر ایتمار بن گویر سر فہرست ہیں۔ جنین پر کئے گئے حملہ اور اس میں دس فلسطینیوں کو شہید کرنے کے بعد اسرائیلی فوج اور جنرل سیکورٹی سسٹم شاباک کا جو مشترکہ بیان جاری کیا گیا ہے اس سے بھی اندازہ ہوتا ہے کہ گویر برانڈ اسرائیلی پالیسیاں فلسطینیوں پر نافذ کی جا رہی ہیں۔ بیان میں اسرائیلی ملٹری کے ترجمان نے دعویٰ کیا ہے کہ جنین میں فوجی اور پولیس کارروائی کی ضرورت اس لئے پیش آئی کیونکہ اسرائیل کی خفیہ ایجنسیوں کو پختہ معلومات حاصل ہوئی تھیں کہ ’جہاد اسلامی‘ کے ایک سیل نے اسرائیل کے کسی شہر میں خطرناک مسلح حملہ کا پلان تیار کیا تھا۔ اسرائیلی دعویٰ کے مطابق اسرائیلی سیکورٹی فورسز نے جنین کیمپ پر چھاپہ اس لئے نہیں مارا تھا کہ کسی کو قتل کرے بلکہ ان کا مقصد اس پلان کے سب سے بڑے منصوبہ ساز کو گرفتار کرنا تھا جس کا تعلق ’جہاد اسلامی‘ سے بتایا جاتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اسرائیل نے ایسے کسی شخص کی کوئی پہچان یا اس سے متعلق تفصیلات کو پیش نہیں کیا ہے۔ اسرائیلی حملہ کی مزید تفصیل جو اسرائیلی مصادر سے ملی ہے اس کے مطابق اسرائیلی فورسز نے جنین میں واقع اس عمارت کو اپنے حصار میں لیا تھا جس میں مبینہ طور پر مسلح افراد چھپے ہوئے تھے۔ اسرائیلی فورسز نے دو مسلح افراد کو عمارت سے بھاگتے ہوئے دیکھا اور ان پر گولیاں چلاکر انہیں ختم کر دیا۔ مسلح افراد میں سے ایک شخص جو اسرائیل کو مطلوب تھا اس نے خود کو اسرائیلی فوج کے حوالہ کر دیا اور اس کی گرفتاری عمل میں آئی۔ اس کے بعد اسرائیلی فوج کے وہ افراد عمارت میں داخل ہوئے جو دھماکہ خیز مادوں کو تباہ کرنے کے ماہر ہیں کیونکہ ان کا مقصد ان دھماکہ خیز مادوں کو تباہ کرنا تھا جن کا استعمال مبینہ طور پر فلسطینی مسلحہ کار کرنے والے تھے۔ لیکن عمارت میں انہیں چوتھا مسلح شخص نظر آیا جس پر گولی چلائی گئی اور اس کو گرفتار کیا جا رہا تھا کہ اسرائیلی سیکورٹی فورسز پر گولی باری ہونے لگی جس کے جواب اسرائیلی فورسز کو گولی چلانی پڑی اور اس کے نتیجہ میں کئی لوگ زخمی ہوگئے لیکن اسرائیلی فورسز میں سے کوئی زخمی نہیں ہوا۔ اسرائیل کے ذریعہ پیش کردہ ان تفصیلات سے ایسا تاثر پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے گویا یہ ایک جائز اقدام تھا جس کا مقصد اسرائیل کے عوام کو تحفظ فراہم کرنا تھا لیکن جنین قتل کی جو تفصیلات دیگر مصادر سے موصول ہوئی ہیں ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ اسرائیلی فورسز کا مقصد مبینہ ملزمین کو گرفتا کرنا نہیں بلکہ منصوبہ بند طریقہ سے انہیں قتل کرکے فلسطینیوں پر قائم خوف و ہراس کے ماحول کو مزید سخت بنانا تھا اور اسی لئے وہ دن کے بالکل آغاز میں ہی جنین کیمپ میں اس طرح داخل ہوئے گویا دودھ تقسیم کرنے والی عام سی گاڑی ہو۔ اس گاڑی میں سوار ہوکر وہ گھر میں گئے جہاں پر مبینہ فلسطینی مسلحین کے چھپے ہونے کا امکان تھا۔ اس سے قبل ایک ڈرون کے ذریعہ سے اس گھر پر نظر رکھی جا رہی تھی۔ جب اسرائیلی فوج وہاں پہنچی تو جھڑپیں شروع ہوگئیں اور یہ جھڑپیں صرف گھر کے آس پاس تک محدود نہیں رہیں بلکہ دوسرے علاقوں تک بھی پھیل گئیں۔ اس جھڑپ کے نتیجہ میں 10 فلسطینی جاں بحق ہوگئے جن میں ایک معمر فلسطینی خاتون بھی شامل تھیں۔ ان کے علاوہ 20 دیگر زخمی بھی ہوئے جن میں سے چار کی حالت نازک ہے جیسا کہ فلسطینی وزارت صحت نے بتایا ہے۔ ایک فلسطینی نوجوان کو کیمپ کے باہر ہی قتل کر دیا گیا تھا۔ ان تفصیلات سے معلوم ہوتا ہے کہ اسرائیل کا دعویٰ کس قدر بے بنیاد ہے۔ اسرائیل کے دعوی کے بطلان کی دوسری بڑی دلیل یہ ہے کہ انہوں نے فلسطینی اتھارٹی کے ساتھ کوئی تنسیق اور کوآرڈینیشن کرنا ضروری نہیں سمجھا جبکہ فلسطینی اتھارٹی اور اسرائیل کے درمیان جو سیکورٹی معاہدہ تھا اس کے تحت ایسا کرنا ضروری تھا۔ فلسطینی اتھارٹی نے اس حملہ کے ردعمل کے طور پر اسرائیل کے ساتھ سیکورٹی کوآرڈینیشن کو ختم کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ اس بات کا اعلان فلسطینی صدر کے ترجمان نبیل ابو ردینہ نے ایک پریس کانفرنس میں کیا۔ انہوں نے کہا کہ فلسطینی اتھارٹی اسی لمحہ سے یہ سمجھتی ہے کہ اب سیکورٹی کوآرڈینیشن کا کوئی وجود باقی نہیں رہا۔ ساتھ ہی فلسطینی صدر محمود عباس نے جنین حملہ کے بعد یہ اعلان بھی کر دیا کہ اب فلسطینی عوام اسرائیلی دہشت گردی کا مقابلہ مزید شدت سے کریں۔ ان واقعات سے اندازہ ہوتا ہے کہ اسرائیل ایک ذمہ دار اسٹیٹ کی طرح برتاؤ نہیں کرتا ہے بلکہ ایک غیر ذمہ دار مسلح جماعت کی ذہنیت سے کام کرتا ہے اور اس کے نتیجہ میں نہ صرف فلسطینیوں کی جان و مال کا شدید نقصان ہو رہا ہے بلکہ خود اسرائیل کے لوگ بھی امن و امان سے محروم ہو رہے ہیں اور پورا معاشرہ شدت پسندی کی سخت گرفت میں ہے۔ جنین جیسے اسرائیلی حملوں کے منفی نتائج کو اس اعتبار سے سمجھا جا سکتا ہے کہ اس حملہ کے بعد ایک نو عمر فلسطینی نوجوان نے مشرقی یروشلم میں واقع ایک یہودی عبادت گاہ پر پستول سے حملہ کر دیا جس میں سات عبادت گزار مارے گئے اور کئی زخمی ہوگئے۔ گویا اسرائیل نے جو پالیسیاں تیار کی ہیں ان کی روشنی میں ایسے معاشرہ کا تصور مفقود نظر آتا ہے جس کے تحت رواداری اور بقاء باہم کا مزاج پروان چڑھ سکے۔ خود اسرائیلی فورسز کے مطابق اس حملہ میں ملوث فلسطینی نوجوان جس کی عمر صرف 13 برس تھی اس کا تعلق کسی مسلح مزاحمتی گروپ سے نہیں تھا اور نہ ہی اس سے قبل وہ کسی مجرمانہ سرگرمی میں ملوث پایا گیا ہے۔ گویا عام انسان اور نوخیز عمر کے بچے بھی اسرائیلی پالیسیوں کی وجہ سے مایوسی کا شکار ہو رہے ہیں اور بے بسی اور غصہ کے اثرات سے مغلوب ہو کر وہ اس قسم کے اقدامات کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ اسرائیل کی قیادت کی ذمہ داری تھی کہ وہ اس سماجی اور سیاسی بحران کو ختم کرتی لیکن اس کے برعکس نیتن یاہو نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ ہر اسرائیلی اب بندوق بردار ہوگا۔ ظاہر ہے کہ اس کے نتائج بہت خطرناک ہوں گے اور قتل و تشدد کی فضا میں مزید اضافہ ہوگا۔ سب سے تکلیف دہ پہلو یہ ہے کہ یہ واقعات ایسے وقت میں ہو رہے ہیں جبکہ امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن اسرائیل، مصر اور فلسطین کے دورہ پر ہیں اور جس کا اعلان امریکہ نے جنین قتل کے واقعہ سے چند گھنٹے قبل ہی کیا تھا۔ یہ دورہ 29 جنوری سے لے کر 31 جنوری تک جاری رہے گا۔ اس سے قبل سی آئی اے کے سربراہ نیتن یاہو سے مل کر اور بات چیت کر کے جا چکے ہیں اور اگلے مہینہ نیتن یاہو کے امریکہ دورہ کی تیاریوں پر گفتگو کی ہے۔ اس کے باوجود امریکہ نے مشرقی یروشلم میں ہوئے حملہ کی مذمت تو کی لیکن جنین میں قتل ہونے والے فلسطینیوں کے حق میں انصاف کی دو بات کہنے کے بجائے بائیڈن نے اسرائیل کی سیکورٹی کی ضمانت پر لیکچر دے ڈالا۔ یوروپی یونین نے بھی آخری حربہ کے طور پر مہلک ترین ہتھیار استعمال کرنے کی حمایت اسرائیل کو دے ڈالی۔ موجودہ دور کی عالمی قیادت کا یہ کھلا تضاد ہی فلسطین کے مسائل کے حل کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ زبانی طور پر گرچہ آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کی باتیں بائیڈن کرتے رہتے ہیں لیکن عملی طور پر اسرائیل کی نو آبادکاریوں کو روکنے میں کوئی دلچسپی نہیں دکھاتے۔
مضمون نگار سینٹر فار انڈیا ویسٹ ایشیا ڈائیلاگ کے وزیٹنگ فیلو ہیں