شاہد زبیری
شمال مشرقی ریاستوں میں سے ایک تریپورہ کے اسمبلی انتخابات کا قومی الیکشن کمیشن نے آج نوٹیفیکیشن جاری کر دیا ہے۔ 2023میں شمال مشرق کی 3ریاستوں سمیت 9ریاستوں میں انتخابات ہو نے ہیں۔ ان انتخابا ت کو 2024کے پارلیمانی انتخابات کا سیمی فائنل مانا جارہا ہے جس کیلئے بی جے پی پوری طرح تیار دکھائی دیتی ہے جب کہ اپوزیشن جماعتیں حسبِ عادت انتشار کا شکار ہیں اور کسی بھی اپوزیشن جماعت میں انتخابات کولے کر کوئی ہل چل نظر نہیں آرہی ہے سوائے راہل گاندھی کی بھارت جوڑو یاترا کے اور آئندہ ہاتھ سے ہاتھ جوڑو نام سے اگلی یاترا کے اعلان کے بی جے پی کے بارے میں عام تصور یہ بن چکا ہے کہ بی جے پی ہر وقت انتخابی موڈ میں رہتی ہے اس کے لیڈر اور اس کے کارکن متحرک رہتے ہیںاور ایک انتخاب ختم نہیں ہوتا دوسرے کی تیاری میں وہ جی جان سے جُٹ جا تے ہیں ۔
اس تناظر میں دہلی میں 2روزہ بی جے پی کے ایگزیکٹوکمیٹی کے 2 روزہ اجلاس میں وزیر اعظم نریندر مودی کا یہ بیان بڑی اہمیت رکھتا ہے جس میں انہوں نے پارٹی لیڈران اور کارکنان کو نصیحت کی کہ پارٹی کے پاس 2024کے پارلیمانی انتخابات کیلئے صرف 400دن بچے ہیں۔ وزیر اعظم نے یہاں ماہ و سال کا نہیں دنوں کا حساب بتا کر جو پیغام دیا ہے اس سے بی جے پی کیلئے اور خود وزیر اعظم نریندر مودی کیلئے 2024کا پارلیمانی انتخاب کتنی اہمیت رکھتا ہے اس کا اندا زہ ہوتا ہے۔اسی کے ساتھ پارٹی کے قومی صدر جے پی نڈا کی مدتِ کار میں 2 سال کی توسیع بھی کر دی ہے ۔اس سے ظاہر ہے کہ بی جے پی ریاستوں کے ساتھ مرکز کے انتخابات کیلئے کوئی کور کسر چھوڑنا نہیں چاہتی ۔
پارٹی ایگزیکٹو کے 2روزہ اجلاس میں وزیر اعظم نریندر مودی نے جہاں ویمینس امپارومینٹ،بیٹی بچائو بیٹی پڑھائو اور دھرتی بچائو جیسے پروگراموں پر زور دیا۔ انہوں لیڈروں اور کارکنان کو یہ بھی ہدا یت کی کہ وہ سماج کے تمام مذہبی طبقات اور ذات برادری کے لوگوں سے سیدھا تعلق قائم کریں۔ خاص بات یہ بھی ہے کہ وزیر اعظم نے اسی کے تحت بوہرہ مسلمانوں اور پسماندہ مسلمانوں اور تعلیم یافتہ مسلمانوں سے جُڑ نے پر بھی خاص طور پر زور دیا ہے اور یہ بھی نصیحت کی کہ وہ مسلمانوں کو لے کر اور فلموں کو لے کر طعن و تشنیع سے پر ہیز کریں ۔وزیر اعظم کی ان باتوں کو آپ چاہیں گجرات فسادات پر بننے والی بی بی سی کی ڈاکیومینٹری فلم کے تناظر میں عالمی دبائو کا نتیجہ مانیں یا مسلمانوں کی ووٹ کی سیاسی قوت کو پارہ پارہ کئے جا نے کی کوششوں کا حصہ سمجھیں یا وزیر اعظم کی انتخابی حکمت عملی کا حصہ،کیا ہی اچھا ہوتا اگر وزیراعظم اپنی سرکاری مشینری کو بھی ہدایت کرتے کہ وہ ان عناصر کے خلاف بھی قانو نی شکنجہ کسیں جو ملک کی ایک بڑی اقلیت یا دوسری اکثریت کے خلاف اشتعال انگیزی کرتے ہیں لیکن وزیر اعظم نے ایسا کوئی ادنیٰ سا اشارہ بھی نہیں دیا ۔وزیر اعظم کی بھی سیاسی مجبو ریا ں ہیں اورہماری بھی ناسمجھی ہے کہ ہم وزیر اعظم سے ایسی توقعات رکھتے ہیں ،ہر چند کہ پہلے وزیر اعظم جواہر لال نہرو کے بعد آج کے ہمارے وزیر اعظم ہر لحاظ سے جتنے طاقت ور ہیں اوراکثریتی طبقہ میں مقبول ہیں یہ حیثیت کسی اور وزیر اعظم کو حاصل نہیںر ہی ۔اتنا ہی نہیں وزیر اعظم نریندر مودی آج جس مقام پر ہیں اس کے آگے بی جے پی بونی نظر آنے لگی ہے اس کا احساس بی جے پی کے ہرچھوٹے بڑے لیڈر اور ہر کارکن کو او پر سے نیچے تک ہے۔ سنگھ پریوار بھی اس حقیقت سے آنکھیں نہیں چرا سکتا ۔اس لحاظ سے دیکھا جا ئے تو ریاستی اسمبلیوں کے انتخابات ہوں یا پارلیمانی انتخابات بی جے پی اور سنگھ کی مجبوری ہے کہ وہ وزیر اعظم نریندر مودی کے چہرہ کو سامنے رکھے بغیر ان انتخابات میں کامیاب نہیں ہو سکتی ۔اپوزیشن کی کسی بھی جماعت کے پاس آج ایسا کوئی چہرہ نہیں جس کو سامنے رکھ کر وہ انتخابات کے اکھاڑے میں اتر سکے۔ کسی شخصیت کو تو چھوڑئے اپوزیشن جماعتیں او بی سی،ایس سی /ایس ٹی اور دیگر چھوٹے چھوٹے طبقاتی گروہوں کو بھی اپنے پالے میں نہیں رکھ پائیں جو بی جے پی چھتر چھایا میں چلے گئے ہیں۔ دور کیوں جائیں کجریوال کے گڑھ دہلی میں ایگزیکٹو کمیٹی کے اجلاس کے موقع پر وزیر اعظم نریندر مودی کے روڈ شو میں جو بھیڑ امڈی اس سے آنکھیں نہیں چرائی جا سکتی ہیں۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ وزیر اعظم کا یہ روڈ شو راہل کی بھارت جوڑو یاترا کا جواب دینے کی کوشش تھی ۔
حقیقت یہ ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی کی نظر انتخابات کے وقت چھو ٹی سے چھوٹی بات پر رہتی ہے وہ اس موقع پر بھی پارٹی لیڈروں اور کارکنان کو یہ بتانا نہیں بھولے کہ گزشتہ انتخابات میں جن بوتھوں پر پارٹی کمزور ثابت ہوئی ہے ان کو مضبوط کیا جا ئے ایسے 72,000بوتھوں کی نشاندہی کی جا چکی ہے یہ اس لئے بھی ضروری تھا کہ ہماچل پردیش کے حالیہ اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کو شکست سے دو چار ہو نا پڑا ہے جس کا زخم تازہ ہے، مدھیہ پردیش میں بھی شیو راج چوہان کی سرکار جوڑ توڑ سے بنی تھی جہاں اب انتخابات ہو نے والے ہیں ،گووا میں بھی ایسا ہی کچھ ہوا تھا ۔ یقینا ایسی ریاستوں میں بی جے پی کی راہ آسان نہیں ہے، کرناٹک اور کیرالہ کے علاوہ چھتیس گڑھ اور راجستھان میں بھی اس کو پاپڑ بیلنے پڑسکتے ہیں لیکن اس کیلئے خوش کن بات یہ ہے کہ اپوزیشن جماعتیں انتشار کا شکار ہیں جن کے اتحاد کے امکانات دور دور تک دکھائی نہیں دے رہے ہیں گو کہ تلنگانہ کے وزیر اعلیٰ اور حکمراں جماعت بھارت راشٹر سمیتی ( بی آر ایس )کے قائد چندر شیکھر رائو نے اپوزیشن کو یکجا کرنے کیلئے پہل کی ہے لیکن اس میں ان کو کوئی خاص کامیابی نہیں ملی ان کی دعوت پر دہلی کے وزیر اعلیٰ اور آپ پارٹی کے چیف اروند کجریوال، پنجاب آپ پارٹی کی سرکار کے وزیر اعلیٰ بھگونت مان اور کیرالہ کے وزیر اعلیٰ پنر ائی و جین کے علاوہ یو پی کے سابق وزیر اعلیٰ اور سماجوادی پارٹی کے قائد اکھلیش یادو کے علاوہ کوئی اور بڑا نام ایسا نہیں ہے جو اس میں شامل رہا ہو۔ حتیٰ کہ بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بنری نے بھی شرکت کی نہیں حالا نکہ ممتا بنر جی نے ہی گزشتہ سال اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد کا پہلا ڈول ڈال تھا اور کانگریس کو چھوڑ کر انہوں نے اپوزیشن کی سب جماعتوں کے قائدین کے دروازہ پر دستک دی تھی لیکن اپوزیشن اتحاد کی یہ بیل منڈھے نہیں چڑھی تھی اب بھی ایسا ہی کچھ نظارہ ہے اور اپوزیشن اتحاد کا کوئی امکان دور دور تک نظر نہیں آتا۔یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ اپوزیشن جماعتوں میں کانگریس کو چھوڑ کر کسی پارٹی کا نہ تو ملک بھر میں کوئی تنظیمی ڈھانچہ ہے اور نہ ہی ایک سے زائد صوبوں میںکسی کی سرکار ہے گئی گزری حالت میں بھی کانگریس آج بھی تین ریاستوں راجستھان،چھتیس گڑھ اور ہماچل پر دیش میں کانگریس بر سرِ اقتدار ہے اور اس وقت ملک کا جو منظر نامہ سامنے ہے اس سے سے یہی لگتا ہے کہ پارلیمانی انتخابات میں بی جے پی کا اگر کسی اپو زیشن جماعت سے مقابلہ راست طور پر ہو گا تو وہ کانگریس ہی ہے لیکن نہ جا نے اپوزیشن اتحاد کی بات کر نے والی جماعتوں اور ان کے لیڈروں کو یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ کانگریس کے بغیر اپوزیشن جماعتوں کا اتحاد کار گر نہیں ہو سکتا۔ کانگریس اپوزیشن جماعتوں میں تنہا ایسی جماعت ہے جو اس وقت سڑکوں پر ہے اور بھارت جوڑو یاترا کے بعد اس نے ہاتھ سے ہاتھ جوڑو یاترا کا بھی اعلان کیا ہے۔ عوام میں بھارت جوڑو یاترا کو خلاف توقع جو کامیابی ملی ہے اس سے امید کی کرن پھوٹی ہے۔اگر کانگریس اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد کی پہل کرے اور اپوزیشن جماعتیں اپنے محدود مفادات کی بجا ئے ملک کے وسیع تر مفادات میں انتخابی اتحاد نہ سہی انتخابی تال میل ہی کر لیں تو اچھے نتائج کی توقع کی جا سکتی ہے بصورت دیگر2024کے پارلیمانی انتخابات میں بی جے پی کو اقتدار سے بے دخل نہیں کیا جا سکتا ۔
[email protected]