ڈاکٹرریحان اختر قاسمی
آج دنیا تیز رفتاری کے ساتھ ترقی کی راہ پرگامزن ہے،چہاردانگ عالم میں روزبروز نئی ایجادات عمل میں آرہی ہیں،زندگی گزارنے کے طریقۂ کارمیں بڑی تیزی کے ساتھ تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں،دلکش اورفلک بوس عمارتیں دعوت نظارہ دے رہی ہیں اورانسان بحروبر کے ہرناپنے میں فتح وتسخیر کی کمنڈیں ڈالے ہوئے نظرآرہاہے۔
لیکن یہ تمام مناظر تصویر کاایک رخ پیش کرتے ہیں اوراس کا دوسرارخ یہ ہے کہ آج انسانی زندگی انتشار وبدنظمی اورتباہی وبربادی سے دوچار ہے اورہلاکت کے آخری دہانے پرکھڑی ہوچکی ہے۔ظلم وعدوان ،جبروتشدد،معصوم انسانوں کاقتل،حقوق انسانی کی پامالی اورمذہبی رواداری کی تحقیر وتضحیک معاشرہ انسانی کاخاصہ اوروطیرہ بن گئی ہے۔ظلم و جورکاغلغلہ ہے،طاقت وقوت کادبدبہ ہے،غریب وبے بس کاکوئی پرسان ِ حال نہیں۔غربت زدہ طبقہ امیروں کے جبرو تشدد کی زنجیرمیں جکڑانظرآتاہے۔انسانی زندگی کاکوئی شعبہ اوردنیا کاکوئی خطہ بدعنوانیوں اوردسیسہ کاریوں سے پاک نہیں ہے جس میں انسان شایان شان زندگی گزارتے ہوئے راحت وسکون اورامن وامان کے خوشگوار اور پُربہار ماحول میں ایک متحرک اورفعال کارکن بن کرمعاشرہ ،ملک اورقوم کے لئے نسخۂ شفاتجویز کرسکے۔لیکن ان تمام نامساعد و منحوس حالات کاذمہ دار مغرب نے اسلام اورمسلمانوں کوٹھہرایاہے۔ایسے حالات میں معروضی انداز سے دیکھے جانے کی ضرورت ہے کہ سچائی کیاہے؟اسلام کن چیزوں کی تعلیم دیتاہے؟اوراس کے ماننے والوں کاانسانیت کے ساتھ کیا عمل رہاہے؟کیااسلام واقعی خونخوار ودہشت گردی کی تعلیم دیتاہے جسے مغرب نے اپنی تسبیح بناڈالی ہے۔
اسلام کی روشن تعلیمات اوراس کے زندہ وتابندہ اصول واحکام دنیا کے سامنے موجود ہیں۔یہ اللہ رب العزت کی طرف سے دنیائے انسانیت کے لئے ایسا طریقہ زندگی ہے جوہمدردی ومحبت اورانسانیت نوازی وبشردوستی کی تعلیم دیتاہے۔نہ یہاں دوسرے علمبرداران مذہب کے تئیں جبرواکراہ پایاجاتاہے اورنہ ہی دوسرے مذاہب کے جذبات سے کھلواڑ کرنے کی اجازت دی جاتی ہے۔ہاں دعوت وتبلیغ اس کے علمبرداروں کاطرئہ امتیاز ہے اوریہاں بھی حکمت و موعظت کی تعلیم دی جاتی ہے۔ذیل میں اسلام کے امن پسندمذہب ہونے سے متعلق معروضات قابل ملاحظہ ہیں۔اسلام کوایک جارح مذہب اورمسلمانوں کودہشت گردقوم قراردینا اسلام کے محکم اصولوں سے بے خبری کی دلیل اورکوتاہ نظری کی بدترین مثال ہے۔اسلام مذہبی تقدس،قومی تشخص اورانسانیت نوازی برقراررکھنے کے لئے عمل پیہم اورجہدمسلسل کی اجازت ضروردیتا ہے اوردعوت وتبلیغ کے مشن سے تمسک کی تلقین بھی کرتاہے،تاہم حکمت عملی اورموعظۂ حسنہ کے لعل وگہرکو اس راہ کاتوشہ قراردیتاہے:
’’اے نبیؐ! اپنے رب کے راستے کی طرف دعوت دوحکمت اورعمدہ نصیحت کے ساتھ اورلوگوں سے مباحثہ کروایسے طریقہ پرجوبہترین ہو۔(النحل:125)
یہ تعلیم ان لوگوں کودی جارہی ہے جن کے پاس فوج وسپاہ نہیں اورآلات حرب وضرب بھی نہیں۔صرف زبان کی طاقت ہے۔اس کواستعمال کرنے کے لئے بھی حسن گفتار اورطریقۂ احسن کی قیدلگادی گئی۔تبلیغ وہدایت کے نتیجے میں اسلام قبول کرنے والوں کے ساتھ تالیف قلب اور حسن معاملہ کادرس دیاگیا اورتلقین وہدایت کی ہرممکن کوشش کے بعد بھی اسلام سے منحرف رہنے والوں کے ساتھ درگزر سے کام لینے کافرمان جاری کیاگیا،یہاں تک کہ کفار کے معبودوں اورپیشوائوں کوبرا کہنے سے روک دیاگیا:
’’تم ان کے معبودان باطل کوجنہیں یہ خداکوچھوڑکرپکارتے ہیں ،گالیاں نہ دو،ورنہ تووہ جہالت کی بناپراللہ کوگالیاں دیں گے۔‘‘(الانعام:108)
جبرواکراہ مذہب اسلام کی شان کے خلاف ہے۔قرآن وسنت کے مطابق یہ دنیا دارالعمل یادارالامتحان ہے۔ امتحان گاہ میں بزوروجبر کسی کوکچھ لکھنے کے لئے آمادہ نہیں کیا جاتاکیوں کہ یہ امتحان کے اصول کے خلاف ہے۔ اس دنیا میں سب کو رہنے کاحق ہے اورسبھی رحمان کے بندے ہیں،ہاں دنیا کی اس امتحان گاہ میں جس نے اللہ ورسول کے احکام پرعمل پیراہوکر اپنے آپ کولائق وفائق بنالیا،وہ موت کے بعد کی زندگی میں اجرعظیم کامستحق ہوگا اورجس نے انحراف و بغاوت کی روش اختیار کی،وہ عذاب عظیم سے دوچار ہوگا۔قرآن وسنت کی یہ زریں تعلیمات اپنے ماننے والوں کوتوسع اوررواداری کی شاہراہ عظیم تودکھاتی ہیں لیکن جبرواکراہ سے گریزاں اورمتنفر بنادیتی ہیں۔اس کے باوجود اسلام کی طرف جبرواکراہ کومنسوب کرنابڑی دریدہ دہنی ورڈھٹائی ہے۔اللہ رب العزت کاارشاد ملاحظہ ہو:
’’دین میں کوئی زوروزبردستی نہیں ہے۔سیدھی راہ غلط راہ سے ممتاز کرکے دکھائی جاچکی ہے۔اب جو کوئی معبودباطل کوچھوڑکر اللہ پرایمان لاتاہے وہ ایک مضبوط رشتہ سے تعلق جوڑتا ہے جوٹوٹنے والا نہیں ہے اوراللہ خوب سننے والااورخوب جاننے والا ہے۔‘‘(البقرہ:256)
اس قرآنی حقیقت کااعتراف فرانسیسی مؤرخ ڈاکٹر گستاولی بان اپنی کتاب میں کرتے ہیں:
’’اشاعت قرآن اوردین کی حیرت انگیز سرعت نے مخالف مؤرخین کونہایت تعجب میں ڈالا ہے اوربجز اس کے کوئی توجیہہ نہ بن پڑی کہ اس مذہب میں شہوت نفسانی کی بات ڈھیلی کردی گئی ہے جس کی وجہ سے عوام کی رغبت اس کی طرف ہوئی اوریہ امرنہایت آسانی کے ساتھ ثابت ہوسکتاہے کہ ان کایہ خیال بالکل بے بنیاد ہے‘‘۔(ڈاکٹر گستاولی بون:تمدن عرب ،ص:210-209)
ڈاکٹر لیبان فتوحات عرب کے سلسلے میں لکھتے ہیں:
’’جب ہم فتوحات عرب پر نظر ڈالیں گے اوران کی کامیابی کے اسباب کوابھارکر دکھائیں گے تومعلوم ہوگاکہ اشاعت مذہب اسلام میں تلوار سے مطلق کام نہیں لیاگیا،کیوں کہ مسلمان ہمیشہ مفتوح اقوام کو اپنے مذہب کی پابندی میں آزاد چھوڑدیتے تھے۔اگراقوام عیسوی نے اپنے فاتحین کے دین کوقبول کرلیااوربالآخر ان کی زبان کوبھی اختیار کیاتویہ محض اس وجہ سے تھاکہ انہوں نے اپنے جدید حاکموں کو ان قدیم حاکموں سے جن کی حکومت میں وہ اس وقت تک تھے،بہت زیادہ سچا اورسادہ پایا۔یہ امر تاریخ سے ثابت ہوچکاہے کہ کوئی مذہب بزورشمشیر نہیں پھیلایاجاسکتا۔جس وقت عیسائیوں نے اندلس کوعربوں سے فتح کرلیااس وقت اس مفتوح قوم نے جان دیناقبول کرلیا،لیکن مذہب بدلنا قبول نہیں کیا‘‘۔(ڈاکٹر گستاولی بون:تمدن عرب،ص:210-209)
لندن کی خاتون رائٹر کارین ارم اسٹرانگ نے مذہب پرایک درجن سے زیادہ کتابیں لکھی ہیں اس خاتون کی تقریباً تین سوصفحہ کی ایک کتاب سیرت رسولؐ پرہے۔اس کتاب میں اسلام کامنصفانہ مطالعہ پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔خاص طورپر اس میں اس پروپیگنڈے کو ردکیاگیاہے کہ اسلام ایک تشدد پسندمذہب ہے۔کتاب کاخاتمہ ان الفاظ پر ہوتاہے:
“Muhammad Founded a religion,a cultural tradition that was not based on the sword.Despite the Western myth ‘Islam’ signifies peace and reconciliation۔”
(Maren Armstrong: Western Attempt to Understanding Islam, 1992, p.266,London)
محمد ایک ایسے مذہب اورایسے کلچر کے بانی تھے جس کی بنیاد تلوارپرنہیں تھی ۔مغربی افسانہ کے باوجود اسلام کانام امن وصلح کامفہوم رکھنے والاہے۔
اسلام صرف اگرافہام وتفہیم کامذہب ہوتا،نیکی وراستی کاصرف سبق پڑھاتا،خداترسی وخداطلبی کاصرف وعظ کہتا،تادیب وسرزنش اس میں نہ ہوتی توہرگز ظلم وستم ،جبروتشدد،فساد وہلاکت نیز تباہی وبربادی کاقلع قمع نہیں ہوسکتا تھا۔جولوگ کہتے ہیں کہ اسلام کاتلوار سے کوئی تعلق نہیں رہاہے،اس میں بھی مبالغہ آرائی ہے،کیوں کہ فتنہ وفساد کوکچل کرمعاشرہ انسانیت کوامن وآشتی کی نعمت سے ہمکنار کرنے کے لئے اسلام نے حدودوقیود کے پاس ولحاظ کے ساتھ تلوار اٹھانے کی اجازت دی ہے۔بلکہ شرو فساد کاقلع قمع کرنے کے لئے امرناگزیرقرار دیاہے۔اسلام کی تلوار ایسے لوگوں کی گردنیں کانٹنے کے لے ضرور تیز ہے جوشرانگیزی وبدکاری اورفتنہ وفساد کے ذریعہ معاشرئہ انسانی کوقعرہلاکت میں دھکیل دیتے ہیں لیکن جولوگ ظالم وجابر نہیں ہیں بدکاروبدکردار نہیں جوصدقہ فی سبیل اللہ نہیں کرتے،جوکسی کے دین کومٹانے کی پالیسی اوراس کودبانے کی کوشش نہیں کرتے جوخلق خدا کے امن وامان اوراطمینان کوغارت نہیں کرتے خواہ وہ کسی قوم سے تعلق رکھتے ہوں،ان کے دینی عقائد خواہ کتنے باطل ہوں،اسلام ان کے جان ومال سے کچھ تعرض نہیں کرتا۔ایسے لوگوں کے لئے اسلام کی تلوار کند ہے اوربے شک اس کی نظر میںان کاخون حرام ہے بلکہ قرآنی اعلامیے کے مطابق ایک انسان کاقتل ناحق پوری انسانیت کے قتل کے برابر ہوجاتاہے۔
جنگ توہروقت ہوسکتی ہے،ہربات پرشروع ہوسکتی ہے اورجنگ کے دوران ہرناجائز کام کوجواز کاپروانہ مل جاتاہے۔فاتح قوم جس طرح چاہے مفتوح اقوام کواستعمال کرسکتی ہے،خواہ تواس طرح کے جنگ کاتصور ماقبل اسلام عربوں کی جنگوں میں ہویاکہ عصرحاضر میں ہونے والی جنگوں میں جن کے ذریعہ بلحاظ مذہب وملت انسانیت کے بنیادی حقوق کوپیروں تلے رونددیاجاتاہے اورانسانیت کے بنیادی حقوق ومراعات کی کوئی پرواہ نہیں کی جاتی ۔یہ تووہیں دنیاوی جنگوں کے تاریخی حقائق جن سے کوئی بھی دیدئہ بینا اورگوشئہ شنوا انکاروانحراف نہیں کرسکتا۔
اس کے بالمقابل اسلام کانظریہ جنگ و جہاد ذاتی رجحانات کاتابع نہیں ہوتا۔وہ کسی بھی حالت میں انسانوں کے بنیادی حقوق کوسلب کرنے کی اجازت نہیں دیتا ہے اورنہ ہی کسی بھی ملک وقوم پرجارحانہ حملہ کی اجازت دیتا ہے۔اسلام نے امن وآشتی ،عدل وانصاف اورحقوق انسانی کی پاسداری کے جواحکامات دیئے ہیں اوران احکامات و ہدایات پرمسلمانوں نے جس طرح عمل کیاہے،اس کی نظیردنیا کے میثاق امن میں ملنے سے قاصر ہے۔اسلام کاجنگ و جہاد اپنے فطری حقوق کی بازیافت کے لئے ایک دفاعی اقدام ہے اوریہ صرف ظلم وعدوان اورسرکشی وفتنہ پروری کے خلاف ہے۔جنگ وجہاد کے دوران اسلام کسی بھی قسم کے ننگ انسانیت فعل کوممنوع قرار دیتاہے،جس کی تفصیل مقالے میں قرآن وحدیث کے حوالے سے موجود ہے۔
امن وآشتی اورعدل وانصاف کاقیام ہردور اورتمام مذاہب وملت میں تسلیم کیاگیاہے۔کوئی بھی صاحب عقل وشعوراس بات کوباورنہیں کراسکتاہے کہ کوئی بھی ملک،کوئی بھی قوم،یاکوئی بھی زمانہ امن وسلامتی کے بغیر ترقی وکامیابی کی منازل کوطے کرسکتاہے۔یہی وجہ ہے کہ سارے سنجیدہ انسان،خواہ ان کاتعلق کسی بھی ملک ومذہب سے ہو،ان کی یہی خواہش ہوتی ہے کہ ملک ومعاشرہ میں سکون واطمینان کاماحول ہو،باہم رشتوں میں مؤدت ومرحمت کاچلن ہو،تاکہ سارے لوگ پرامن طریقے سے زندگی گزاریں۔لیکن نہ ہی ان کے پا س کوئی ایساطریقۂ کار ہے جس پرعمل پیراہوکر افراد معاشرہ امن وسکون کی نعمت غیرمترقبہ سے مالامال ہوں اورنہ ہی ان کے پاس کوئی ایسانظام معاشرت ہے جس کے نفاذ سے بدامنی کے اس ماحول میں امن وآشتی اورعدل وانصاف کی پربہار فضا قائم ہو۔
یہ ایک حقیقت بھی ہے کہ دوعالمی جنگوں کی ماری دنیا نیز امن وآشتی اورسکون وعافیت سے محروم عوام وخواص کو ایک ایسے پاکیزہ،صاف وشفاف اورمضبوط نظام ِ امن کی ضرورت ہے جوملکی ونسلی منافرت کومٹاکر عالمی اخوت ومحبت اورانسانی مساوات وہمدردی کادرس دے اورکرئہ ارض پرامن وسلامتی ،عدل وانصاف،انسانیت نوازی وبشر دوستی،حق و صداقت اورانسانی شرف وتکریم کوبحال کرسکے۔
اس وقت دنیا کی اس تجربہ گاہ میں اس ربانی نظام امن وسلامتی کوپیش کرنے کی ضرورت ہے جوہرانسان کو بلاتفریق مذہب وملت امن وسلامتی کی مکمل ضمانت دیتاہے اورایک صالح معاشرہ کی تشکیل نومیں معاون ومددگار ثابت ہوتا ہے۔ اندرون ِ ملک کامعاملہ ہویاتعلقات ِ خارجہ ہوں،یہ ربانی قانون سب میں رہنمائی فراہم کرتاہے۔اس قانون امن میں انسانی وحدت ومساوات،باہمی تعاون،شرافت ِ انسانی،ظلم وجور کے خلاف صدائے احتجاج، عفوو درگزر، حریت فکر،عدل وانصاف کاقیام،ایفائے عہد اورمؤدت ومحبت کولوازم زندگی کی حیثیت دی گئی ہے اوردوسری طرف اس نظام میں کبرو غرور،دولت وثروت،ملکی ونسلی عصبیت،رنگ ونسل کاامتیاز اورحب جاہ کی کوئی گنجائش نہیں رکھی گئی ہے۔
حاصل یہ ہے کہ اسلام ہی وہ واحد مذہب ہے جوجامعیت وہمہ گیریت کامرقع پیش کرتاہے۔یہ نظام اپنے اندر تمام انسانی زندگی کی ضروریات وخواہشات کوسمیٹے ہوئے ہے اوریہ کرئہ ارض پرامن وسلامتی،مساوات وجمہوریت اوراحترام انسانیت کی اعلیٰ قدروں کانقیب ہے،چنانچہ بجاطورپر کہاجاسکتاہے کہ اس کی روشن اورزندہ تعلیمات ایک مثالی معاشرے کے قیام واستحکام کی ضمانت بن سکتی ہیں۔
اسسٹنٹ پروفیسر،فیکلٹی آف تھیولوجی
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ،علی گڑھ
[email protected]