عمومی دعویٰ ہے کہ ہندوستان پر گزشتہ 8-10 برسوں سے بھارتیہ جنتا پارٹی کے پردہ میںراشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آرایس ایس) بالواسطہ حکمراں ہے۔ اس کی منظوری کے بعدہی حکومت کسی پالیسی کااعلان کرتی ہے، فیصلے لیتی ہے اور نفاذ کی کارروائی کی جاتی ہے۔ کچھ کے نزدیک ہوسکتا ہے کہ یہ بے بنیاد دعویٰ ہو لیکن زبان خلق بی جے پی اور آرایس ایس کو ایک جان دو قالب ہی سمجھتی ہے۔ حکومت بھی اپنے اعمال و افعال سے بارہا یہ ثابت کرچکی ہے کہ سنگھ کی منظوری کے بغیرحکومت ایک تنکا بھی ہلانے کی اہل نہیں ہے۔ اس کا کام فقط اتنا ہے کہ وہ سنگھ کے دیے ہوئے منصوبہ عمل کو نافذ کرے۔ اس کے بتائے ہوئے راستہ پر چل کر طے کردہ منزل ’ ہندو راشٹر‘ کاسفر طے کرے۔
اب تک کے اس سفر میں ہندوستان جنت نشان میں جو کچھ ہوا ہے وہ کسی سے چھپا ہوا نہیں ہے۔ لیکن اب سنگھ نے ہندو راشٹر کے اس سفر کو ’جارحانہ ‘ بنانے کا فیصلہ کرلیا ہے۔سنگھ کے سربراہ موہن بھاگوت نے ہندوکو جنگجو قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ایک جنگجو کا جارحانہ ہونا عین فطری ہے یعنی ہندواگر جارحیت کا مرتکب ہوتا ہے تو یہ فطری تقاضا ہے، اس فطری تقاضاپر نہ تو کوئی بند باندھا جاسکتا ہے اور نہ اس کے خلاف کوئی کارروائی کی جاسکتی ہے۔
موہن بھاگوت نے راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے ترجمان میگزین ’آرگنائزر اور پنج جنیہ ‘ کو دیے طویل انٹرویو میں کہا ہے کہ ملک کا ہندو سماج گزشتہ ہزار برسوں سے حالت جنگ میں ہے۔ان پر یہ جنگ تھوپی گئی ہے۔ہندو ایک جنگجو کے طور پر گزشتہ ایک ہزار برس سے دشمنوں کا مقابلہ کررہاہے اور جنگجو کا جارحانہ ہونا عین فطری ہے۔ یہ جنگ بیرونی حملوں، بیرونی اثر و رسوخ اور بیرون ملک سے آنے والی سازشوں کے خلاف جاری ہے اور سنگھ نے ہندو سماج کی اس جدوجہد کی حمایت کی ہے۔ سنگھ کی کارروائیوں کی وجہ سے ہندو سماج بیدار ہوا ہے۔
موہن بھاگوت کے بیان سے یہ واضح نہیںہوپایا ہے کہ ہندو سماج آج آزادی کے اس ’امرت کال‘ میں کس کے خلا ف جنگ کر رہا ہے، اس کا دشمن کون ہے؟لیکن ان کے انٹرویو میں چھپے بین السطور مفاہیم بہت کچھ بیان کر رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ لڑائی ہو تو دشمن کو سمجھنا پڑتا ہے، دشمن کو ذہن میں رکھ کر کام کرنا ہوتا ہے، یہ سمجھنا ہوتا ہے کہ ہم کیا ہیں اور ہمیں کب کیا کرنا ہے۔انہوں نے مغلوں کے خلاف شیواجی کی مثال پیش کرتے ہوئے کہا کہ ہندوئوں کو شیواجی کی پالیسی پر عمل کرنا ہوگا۔ انہوں نے استفہامیہ لہجہ میں کہا کہ شیواجی مہاراج کی پالیسی کیا تھی؟ وہ دشمن کے بارے میں جانتے تھے، لیکن اپنے بارے میں بھی وہ واقف تھے کہ انہیں کب لڑنا ہے اور کب نہیں لڑنا ہے۔
موصوف نے اپنے انٹرویو میں مسلمانوں کو بھی کچھ نصیحتیں کر ڈالیں۔انہوں نے کہا کہ ہندوستان میں رہنے والے مسلمانوں کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔ اگر وہ اپنے مذہب پر قائم رہنا چاہتے ہیں تو وہ رہ سکتے ہیں اور اگر اپنے ’آباو اجداد‘ کے مذہب میں واپس لوٹنا چاہتے ہیں توان کا خیر مقدم ہے تاہم یہ مکمل طور پر ان پر منحصر ہے، انہیں اس کیلئے اپنے مذہب کے اعلیٰ و ارفع ہونے کا نظریہ ترک کرنا ہوگا، انہیں یہ سوچ بھی ختم کرنی ہوگی کہ اس ملک پر انہوں نے حکمرانی کی ہے اور دوبارہ وہ اس ملک کے حکمراں بنیں گے۔
ان کے انٹرویو میں ہندوئوں کو اکسانے اور ان کے اشتعال میں آکرہتھیار اٹھا لینے کا وافر مواد بھی ہے۔ موہن بھاگوت نے کھل کر کہا کہ جب پہلا حملہ آور سکندر ہندوستان آیا تھا،اس وقت سے لے کر اب تک کی روایت میں مختلف لوگوں نے ہندو سماج کو ایک اور لڑائی سے خبردار کیا ہے۔ یہ لڑائی باہر سے نہیں ہے، یہ لڑائی اندر سے ہے۔
ہندوئوں کی سلامتی کیلئے موہن بھاگوت یا آرا یس ایس کی یہ فکرمندی کون سے نئے گل کھلاسکتی ہے، اس کا تصور ہی محال ہے۔ موہن بھاگوت کے اس بیان کے بعد یہ خدشہ سرابھارنے لگا ہے کہ ملک کے مختلف مقامات پر ہونے والی شدت پسندانہ اور فرقہ وارانہ کارروائیوں میں تیزی آجائے اور حکومت اس کے خلاف کوئی اقدام بھی نہیں کرے گی کیوں کہ سنگھ کی نظر میں یہ عین فطری ہے اور فطرت کے خلاف کوئی بھی حکومت کوئی اقدام نہیں کرسکتی ہے۔اگر ایسا نہیں ہے اور حکومت کی اپنی کوئی آزادانہ رٹ ہے تو موہن بھاگوت کے اس انٹرویو اور بیان کا آئین کی روشنی میں تجزیہ کرے، ان کے خلاف کارروائی کرے۔لیکن ایسا ہونہیں سکتا ہے کیوں کہ زبان خلق کہتی ہے کہ آج بالواسطہ ہندوستان پر سنگھ کی ہی حکمرانی ہے اور سرسنگھ چالک کا بیان حکومت کیلئے فرمان امروزکا درجہ رکھتا ہے۔
[email protected]
فرمان امروز!
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS