خواجہ عبدالمنتقم
ایک طرف تو آئین کی دفعہ351 میں یہ توضیع کی گئی ہے کہ ہندی زبان کی اشاعت کو فروغ دینے کے لیے آٹھویں فہرست بند میںشامل بھارت کی دوسری زبانوں سے الفاظ اخذ کرکے ہندی کومالامال بنایا جائے تو دوسری جانب سینٹرل بورڈ آف سیکنڈری ایجوکیشن نے رواں سال 2022-23 سے نویں و دسویں کلاسوں کے لیے تیسری زبان(بشمول ارد و) کی بجائے چھٹے مضمون کے طور پر پیشہ ورانہ مضمون لینے کے لیے سرکلر جاری کیا ہے۔آئین کے آٹھویںفہرست بند میں جن زبانوں کو شامل کیا گیا ہے وہ ہیں، آسامی، بنگالی، بوڈو، ڈوگری، گجراتی، ہندی، کنٹر، کشمیری، کونکنی، میتھلی، ملیالم، منی پوری، مراٹھی، نیپالی، اڈیا، پنجابی، سنسکرت سنتھالی، سندھی، تامل،تیلگواور اردو۔
یہ مانا کہ ووکیشنل یعنی پیشہ وران مضمون کا انتخاب تعلیم مکمل کرنے کے بعد روزگارحاصل کرنے یا اپنا کوئی کام کرنے میں مدد گار ثابت ہوگا لیکن یہ دیگر زبانوں کو مضرت پہنچائے بغیر کیا جانا چاہیے۔ اگر اس سرکلر کو عملی جامہ پہنایا جاتا ہے تو یہ آئین کی ان دفعات کی اغراض و منشا کو غیر موثر بنانے کے مترادف ہوگا جن کے لیے انہیں آئین میں شامل کیا گیا ہے۔ ان میں شامل ہیں لسانی، ثقافتی، تعلیمی امور وغیرہ سے متعلق درج ذیل دفعات۔ اس کے علاوہ یہ اقوام متحدہ کی ان دستاویزات کے ایسے التزامات کی بھی خلاف ورزی ہوگی جنہیں مماثل اغراض و مقاصد کے لیے آئین میں شامل کیا گیا ہے۔ان میں متذکرہ بالا دفعہ 351 کے علاوہ دیگر اہم دفعات بھی شامل ہیں اوریہ ہماری نئی تعلیمی پالیسی سے بھی میل نہیں کھاتا جس میں مادری زبان میںتعلیم کو کافی اہمیت دی گئی ہے۔ اب تک چھٹے مضمون کی شکل میں سنسکرت، پنجابی، گجراتی، ملیالم، تامل،اردو وغیرہ مضامین پڑھائے جاتے رہے ہیں۔ خوشی کی بات ہے کہ اس سرکلر کی مخالفت سنسکرت ٹیچرز ایسوسی ایشن کے عہدیداران کی جانب سے کی جا رہی ہے۔ اگر کہیں صرف اس سوال کو اردو والے اٹھاتے تو اسے ان کی تنگ و محدود سوچ سے منسوب کر دیا جاتا۔
.29اقلیتوں کے مفادات کا تحفظ۔(1) بھارت کے علاقے میں یا اس کے کسی حصہ میں رہنے والے شہریوں کے کسی طبقہ کو جس کی اپنی الگ جدا گانہ زبان، رسم الخط یا ثقافت ہو، اس کو محفوظ رکھنے کا حق ہوگا۔
(2) کسی شہری کو ایسے تعلیمی ادارہ میں جس کو مملکت چلاتی ہو یا جس کو مملکتی فنڈ سے امداد ملتی ہو داخلہ دینے سے محض مذہب، نسل، ذات،زبان یا ان میں سے کسی کی بنا پر منع نہیں کیا جائے گا۔
.30اقلیتوں کو تعلیمی ادارے قائم کرنے اور ان کا انتظام کرنے کا حق۔ (1)تمام اقلیتوں کو خواہ وہ مذہب کی بنا پر ہوں یا زبان کی، اپنی پسند کے تعلیمی ادارے قائم کرنے اور ان کا انتظام کرنے کا حق ہوگا۔
(1الف)فقرہ(1) میں محولہ کسی اقلیت کے قائم کردہ او ر زیر انتظام کسی تعلیمی ادارے کی کسی جائیداد کے لازمی حصول کی نسبت کوئی قانون بناتے وقت مملکت اس امر کو یقینی بنائے گی کہ ایسی جائیداد کے حصول کے لیے ایسے قانون کی رو سے مقررہ یا اس کے تحت تعین شدہ رقم ایسی ہوجس سے اس ضمن کے تحت ایسا حق، جس کی ضمانت دی گئی ہے، محدودیاساقط نہ ہوجائے۔
(2) مملکت تعلیمی اداروں کو امداد عطا کرنے میں کسی تعلیمی ادارے کے خلاف اس بنا پر امتیازنہ برتے گی کہ وہ کسی اقلیت کے زیرانتظام ہے خواہ وہ اقلیت مذہب کی بنا پر ہویا زبان کی۔
.347اس زبان کے متعلق خصوصی توضیع جو ریاست کی آبادی کا ایک حصہ بولتا ہو۔اس بارے میں مطالبہ کیے جانے پر صدر، اگر وہ مطمئن ہو کہ کسی ریاست کی آبادی سے قابل لحاظ تناسب کی خواہش ہے کہ وہ ریاست کی کسی زبان کے استعمال کو جس کو وہ بولتے ہیں، تسلیم کرے تو ہدایت کر سکے گا کہ ایسی زبان بھی اس ریاست بھر میں یا اس کے کسی حصہ میں اس غرض کیلئے، جس کی وہ صراحت کرے، سرکاری طورپر تسلیم کرلی جائے۔
350۔شکایتوں کے ازالہ کی درخواستوں میں استعمال ہونے والی زبان۔ہر شخص کو کسی شکایت کے ازالہ کے لیے یونین یا کسی ریاست کے کسی عہدہ دار حاکم کو ان زبانوں میں سے کسی زبان میں جو یونین یا اس ریاست میں، جیسی کہ صورت ہو، استعمال ہوں عرض داشت پیش کرنے کا حق ہوگا۔
350الف۔ابتدائی درجے میںمادری زبان میں تعلیم دینے کی سہولتیں۔ہر ریاست اور اس ریاست کے اندر ہر مقامی حاکم کی کوشش ہوگی کہ لسانی اقلیتی زمروں سے تعلق رکھنے والے بچوں کو تعلیم کے ابتدائی درجے میںمادری زبان میں تعلیم دینے کی کافی سہولتیں مہیا کرے اور صدر کسی ریاست کو ایسی ہدایتیں اجرا کرسکے گا جو ایسی سہولتیں مہیا کرنے کے لیے وہ ضروری یا مناسب سمجھے۔
.351ہندی زبان کو فروغ دینے کے لیے ہدایت۔ یونین کا یہ فرض ہوگا کہ ہندی زبان کی اشاعت کو فروغ دے تاکہ وہ بھارت کی ملی جلی تہذیب کے تمام عناصر کے لیے اظہار ِ خیال کے ذریعہ کے طور پر کام آئے اور اس کے مزاج میں دخل انداز ہوئے بغیر ہندوستانی اور آٹھویں فہرست بند میں مندرجہ بھارت کی دوسری زبانوں میںاستعمال ہونے والی تراکیب، اسلوب اور اصطلاحات کو جذب کرکے اور جہاں بھی ضروری ہو یا مناسب ہو، اس کے ذخیرہ الفاظ کے لیے اولاً سنسکرت اور ثانیاً دوسری زبانوں سے اخذ کرکے اس کو مالا مال کرے۔
ان دفعات پر محض ایک نظر ڈالنے سے ایک عام قاری بھی یہ سمجھ لے گا کہ اگر علاقائی زبانوں بشمول ارد وپر اس طرح کی پابندیاں لگائی جائیں گی تو کس طرح لسانی و ثقافتی تحفظ کو یقینی بنایا جا سکے گا۔ نصاب کی نوعیت تو ایسی ہونی چاہیے کہ طلبا کو اپنی پسندیدہ زبان اور پیشہ ورانہ تعلیم حاصل کرنے کا بیک وقت موقع ملے۔اگر ایسا نہیں کیا گیا تو اردو و سنسکرت جیسے مضامین کون پڑھے گا۔یہ ان زبانوں کی ترقی و فروغ پر بتدریج ضرب کاری ہوگی۔
اس کے علاو ہ اقوام متحدہ کے1948کے انسانی حقوق کے عالمگیر اعلامیے کی دفعہ میں18 اور قومی قلیتوں سے متعلق 1992کے اعلامیے کی دفعات 1 و 5کی عبارات میں بھی یہ واضح کردیا گیا ہے کہ سب کو بشمول اقلیتوںکے اپنی پسند کے مطابق تعلیم حاصل کرنے اور اپنی زبان کا استعمال کرنے کا حق حاصل ہے۔
مزید یہ کہ ملک کی تمام زبانوں کی اہمیت کا اندازہ کرتے ہوئے آئین وضع کرتے وقت بھی دفعہ 349، جوزبان سے متعلق بعض قوانین وضع کرنے کے خاص طریق کار سے متعلق ہے، اس بات کو یقینی بنایا گیا تھا کہ آئین کی تاریخ نفاذ سے پندرہ سال کی مدت کے دوران پارلیمنٹ میں زبان سے متعلق کسی ایوان میں صدر کی ما قبل منظوری کے بغیرکوئی ایسا بل پیش نہ ہوگا اور نہ اس میں ترمیم کی تحریک ہوگی جس میں دفعہ 348 کے فقرہ(1) کی متذکرہ اغراض میں سے کسی غرض کے لیے استعمال ہونے والی زبان کی نسبت توضیع درج ہو۔یہ اس بات کا عندیہ تھا کہ آئندہ بھی ایسے معاملات پر یہی روش اختیار کی جائے گی تا کہ کسی بھی زبان کے فروغ میں کوئی رکاوٹ پیدا نہ ہو۔
(مضمون نگار آزاد صحافی، مصنف، سابق بیورکریٹ اور عالمی ادارہ برائے انسانی حقوق سوسائٹی کے تاحیات رکن ہیں)
[email protected]