تریپورہ کی سوندھی مٹی سے اٹھتی اردو کی دل آویز مہک

0

محمد فاروق اعظمی

دانستہ یا نادانستہ طور پر آج ہندوستان میں مشترکہ تہذیب و وراثت کی امین ’ اردو‘ کو غیر ملکی قرار دے کراسے محدود کرنے کی کوشش ہورہی ہے۔ یہ کسی سے چھپا ہوا بھی نہیں ہے کہ اردو بولنے، لکھنے اور پڑھنے والے لوگوں کو مین اسٹریم سے کٹا ہوا سمجھاجاتا ہے اوران کے ساتھ دوسرے درجہ کے شہریوں جیسا سلوک بھی روا ہے۔ اردو جن ریاستوں میں دوسری سرکاری زبان ہے وہاں تو ووٹ کی مجبوری حکومت کو کھل کھیلنے سے باز رکھتی ہے لیکن درون خانہ اردو اسکول، اردو اساتذہ، اردو اخبارات ہی نہیں بلکہ اہل اردو کے ہی پر کترنے کی سازش مسلسل جاری رہتی ہے۔ اس کی نمایاں مثال مغربی بنگال، بہار اور اترپردیش ہیں ہر چند کہ ان تینوں ہی ریاستوں میں اردو کو دوسری سرکاری زبان کا درجہ حاصل ہے لیکن اردو کی عملی حیثیت صفر سے زیادہ نہیں ہے۔ ان تینوں ہی بلکہ دوسری کئی ریاستوں میں بھی آئینی مجبوری نے اردوا کادمی کی عمارت بھی کھڑی کر رکھی ہے لیکن یہ اکادمیاں اردو کی ترویج و اشاعت، اردو کے نفاذ اور اردو کوروزگار سے جوڑنے کے بجائے اہل اردو کے درمیان حکومت کے گماشتہ کا کام کرتی ہیں اوراس سے منسلک ارباب حل و کشاد حکومتی دسترخوان کا جوٹھن بٹورتے ہیں۔ کسی بھی ریاست کی اردو اکادمی کی اس سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں ہے۔ ان سب کے درمیان ہندوستان میں ایک ایسی ریاست بھی ہے جہاں نہ تو اردو بولنے والے ہی ہیں اور نہ اردو وہاں کی دوسری سرکاری زبان ہے اور نہ ہی وہاںاردو کی ترویج و اشاعت کے نام پر کوئی اکادمی کی عمارت ہے، باوجود اس کے اس ریاست میں اردو سرکاری اور غیر سرکاری مدارس کے تعلیمی نصاب کا جزء لازم ہے۔یہ ہندوستان کی ایک چھوٹی سی ریاست تری پورہ ہے۔ شمال مشرقی سرحد پر واقع یہ ریاست اپنے رقبے کے ساتھ ساتھ آبادی کے لحاظ سے بھی بہت چھوٹی ہے لیکن اس کے مکینوں کا دل کافی کشادہ اور ظرف اعلیٰ ہے۔
تریپورہ کی تاریخ کافی پرانی اور طویل ہے۔اس کی تاریخ 14ویں صدی میں بنگال کے حکمرانوں کی طرف سے تریپورہ کے بادشاہ کی مدد سے ملتی ہے۔ تریپورہ کے حکمرانوں کو مغلوں کے بار بار حملوں کا سامنا کرنا پڑا۔تریپورہ کے حکمرانوں نے مختلف لڑائیوں میں کئی بار بنگال کے سلطانوں کو شکست دی۔ تریپورہ میں 19ویں صدی میں مہاراجہ ویرچندر کشور مانکیہ بہادر کے دور حکومت میں ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔ انہوں نے برٹش انڈیا کے ماڈل کو اپنایا اور ان میں بہت سی اصلاحات نافذ کیں۔ انہوں نے تریپورہ پر 15 اکتوبر 1949 تک حکومت کی۔ اس کے بعد تریپورہ یونین آف انڈیا میں ضم ہو گیا۔ابتدائی طور پر یہ پارٹ-سی کے تحت ایک ہندوستانی ریاست تھی اور پھر 1956 میں ریاستوں کی تنظیم نو کے بعد اسے مرکز کے زیر انتظام علاقہ بنا دیا گیا۔ بعدازاں 1972 میں اسے مکمل ریاست کا درجہ دے دیا گیا۔ تریپورہ ہندوستان کی تیسری سب سے چھوٹی ریاست ہے جس کا رقبہ تقریباً 10491 مربع کلومیٹر ہے۔ تریپورہ کی سرحد شمال، مغرب اور جنوب میں بنگلہ دیش سے ملتی ہے جب کہ مشرق میں آسام اور میزورم کی ریاستیں ہیں۔تریپورہ وسط اور شمال میں ایک پہاڑی علاقہ ہے جو مشرق سے مغرب تک چار بڑی وادیوں دھرمن نگر، کیلاشہر،کمال پور اور کھوائی پر محیط ہے۔مغرب اور جنوب میں نشیبی وادیاں اور جنوب میں یہ خطہ بہت زیادہ کٹا ہوا ہے اور گھنے جنگلات سے ڈھکا ہوا ہے۔
2011 کے مطابق ریاست تریپورہ کی آبادی تقریباً 36 لاکھ 71 ہزار تھی۔ پوری ریاست میں بنگلہ اور تریپوری زبانیں نمایاں طور پر بولی جاتی ہیں۔اردو اور ہندی بولنے والے خال خال ہی ملیںگے۔ریاست کی پوری آبادی میں مسلمان فقط8فیصد اور صرف ایک دو اضلاع تک ہی محدود ہیں۔ مسلمانوں کی زبان بھی بنگلہ اور تری پوری زبان ہے۔اپنے فن و ثقافت اور تہذیبی ورثہ کے لحاظ سے بھی یہ ریاست اردو الوں کی تہذیب سے بالکل ہی جداہے۔اس جداگانہ حیثیت کے باوجود یہاں کے مسلمانوں نے اردو کوا پنے تعلیمی نصاب کا ایک حصہ بنایا ہے اور حکومت بھی اردو کے ساتھ تعصب و امتیاز کے بجائے مدارس و اسکولوں میں اس کی تدریس کے مواقع فراہم کررہی ہے۔
ہر چند کہ تریپورہ کے مسلمانوں کی معاشی اور سماجی صورتحال ایسی نہیںہے کہ فی الوقت ان کے کسی بھی بڑے جدید تعلیمی ادارہ کا تصورحقیقت کی شکل اختیار کرے لیکن وہاں اب تک مسلمانوں نے جتنے بھی مدارس قائم کیے ہیں، ان میں اردو کی تدریس کا انتظام رکھا ہے۔تریپورہ میں مسلمان صرف8فیصد ہیں۔یہ عددی کمی مسلمانوں کے سیاسی اورسماجی معاملات پر بھی اثر انداز ہوئی ہے۔ اکثریت کی مادری زبان بنگلہ اور تری پوری ہے۔مدارس اور اسکولوں میں بھی بنگلہ ہی میںتعلیم دی جاتی ہے تاہم مدارس اورکئی ایسے اسکول ہیں جہاں اردو بطور مضمون پڑھائی جاتی ہے۔گزشتہ دنوں تریپورہ کے کئی اسکولوں اور مدارس میں جانے کا اتفاق ہوا اور یہ دیکھ کر خوش گوار حیرت ہوئی کہ مدارس وا سکول کے نونہال اپنی مادری زبان بنگلہ کے ساتھ ساتھ اردو بھی اتنی ہی دلچسپی سے پڑھتے ہیں۔تریپورہ میں فی الوقت کل 180مدارس ہیں، ان میں 51مدارس کو سرکاری گرانٹ حاصل ہوتی ہے جب کہ 129مدارس، مدرسہ جدید کاری اسکیم سے فیضیاب ہورہے ہیں۔یہ تمام مدارس ریاستی حکومت کے محکمہ تعلیم کے تحت کام کرنے والے ڈائریکٹوریٹ آف سیکنڈری ایجوکیشن سے ملحق ہیں اور ان میں اردو ایک مضمون کے طور پر ہے۔ ان مدارس میں درجہ دواز دہم تک کی تعلیم ہوتی ہے اور تمام طلبا اردو لازمی مضمون کے طور پر پڑھتے ہیں۔ان مدارس اور طلبا کی وجہ سے سچ پوچھاجائے تو یہاں مسلمانوں کی ایک منفرد شناخت ہے۔’ دارالعلوم مدنی نگر ‘ سونا موڑاایسے ہی مدارس میں سے ایک ہے۔یہ مدرسہ راجدھانی اگرتلہ سے 50 کلومیٹر سیپ جالا ضلع کے سونا موڑا سب ڈویزن میں واقع ہے۔اس شہر کی مجموعی آبادی تقریباً15ہزار ہے اور یہاں 40فیصد مسلمان ہیں۔
مفتی عبدالمومن جوجمعیۃ علماء تریپورہ کے صدر ہیں، ’دارالعلوم مدنی نگر ‘ سونا موڑاکے مہتمم بھی ہیں۔انہوںنے بتایا کہ اس مدرسہ میں50طلبا ہیں جن میں سے20اقامتی طلبا ہیں۔ مفتی عبدالمومن نے مدرسہ کے احوال بتانے کے ساتھ ساتھ علاقہ کے مسائل پر بھی کھل کر گفتگو کی اور کہا کہ اکتوبر 2021میں بنگلہ دیش میں ہوئے فرقہ وارانہ تشدد کا اثر یہاں بھی پڑا، یہاں کی چند ایک مساجد شرپسندوں کے حملے کا شکار ہوئیں۔لیکن یہ حالات تادیر نہیںرہے۔ انہوں نے ریاست میں24سال کی لیفٹ حکومت کے سلسلے میں بتایا کہ بنگال کی طرح ہی تریپورہ میں مسلمانوں کی ترقی کا کوئی کام نہیں ہوا، نہ ان کے مدرسوں کو سرکاری منظوری ملی نہ ان کیلئے اسکول کالج بنائے گئے لیکن ان سب کے باوجود یہاں کے مسلمان جن اسکولوں اور مدرسوں کے ذمہ دار ہیں، وہاں انہوں نے اردو کو لازمی مضمون کے طورپر رکھا ہے۔تریپورہ کے سب سے بڑے مدرسہ درالعلوم سونا موڑا، رنگا مٹیاکے مہتمم مفتی طیب الرحمن نے اپنے مدرسہ کا دورہ بھی کرایا۔یہ مدرسہ کئی ایکڑ پر محیط ہے اور اسی کے احاطہ میں علاقہ کی جامع مسجد بھی ہے۔ مدرسہ کے تمام طلبا حتیٰ کہ اساتذہ کی مادری زبان بھی اردو ہی ہے یہاں اردو ذریعہ تعلیم تو نہیںہے لیکن یہاں بھی اردو بطور مضمون ابتدائی درجات سے ہی شامل نصاب ہے۔
تریپورہ کے بنگلہ اورتریپوری بولنے والے مسلمانوں کی اردو سے محبت نہ تو روزگار کی غرض سے ہے اور نہ انہیں کسی اکادمی کا رکن بننا ہے بلکہ وہ اردو کو مسلمانوں کا تہذیبی ورثہ سمجھ کر حرزجان بنائے ہوئے ہیں اور اپنی آنے والی نسلوں کو بھی اردو کے فیض سے محروم نہیںرکھنا چاہتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ تریپورہ کے مسلمان مادری زبان نہ ہوتے ہوئے بھی اردو کی خوشبو سے ریاست کے جنگلات اور وادیوں کو مہکارہے ہیں۔ اردو بدوش مدارس اور اس کے اساتذہ و طلبا بجا طورپر ستائش و توقیر کے مستحق ہیں۔بنگال، بہار، اترپردیش اور دوسری ریاستوں کے جغادری اردو دانش وروں کوان سے سبق لینے کی ضرورت ہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS