عبدالعزیز
آج سے تقریباً چالیس پچاس سال پہلے کی بات ہے خاکسار کے ہفتہ وار ’’تحریک ملت‘‘ کلکتہ کے ’’اقبال نمبر‘‘کی رسم اجراء کی تقریب تھی۔ تقریب میں کئی شعراء اور ادباء بھی شریک تھے۔ اقبال کی شاعری اور فلسفہ زیر بحث تھا۔ ایک شاعر اور افسانہ نگار نے اپنی تقریر کے دوران فرمایا کہ اقبال شاعر نہیں تھے ۔ اس وقت کئی اصحاب نے ان کی اس بے معنی بات کا جواب دیا اور وہ جواب سن کر شرمندہ ہوئے یا نہیں کہا نہیں جاسکتا۔ بہت دنوں کے بعد موصوف کی ایک کتاب جس پر انھیں پی ایچ ڈی کی ڈگری ملی تھی،میرے ہاتھ آئی۔ اس کتاب کے پہلے صفحہ پر ایک شعر درج تھا ؎
صفیں کج، دل پریشاں، سجدہ بے ذوق
کہ جذبۂ اندروں باقی نہیں ہے
تعجب ہوا کہ جو صاحب اقبال کو شاعرہی نہیں سمجھتے وہ اقبال کے شعر کے بغیر اپنی کتاب مکمل کرنے سے قاصر ہیں۔آپ بھی اس باطن اورضمیر کو سمجھنے کی زحمت فرمائیں۔
محبت کا جنوں باقی نہیں ہے- مسلمانوں میں خوں باقی نہیں ہے – صفیں کج، دل پریشاں، سجدہ بے ذوق- کہ جذبۂ اندروں باقی نہیں ہے
تشریح: افسوس کہ جنوں باقی نہیں رہا۔ مسلمانوں کی رگوں میں دوڑنے والا خون نظر نہیں آتا۔ وہ نماز باجماعت کے لئے مسجدوں میں کھڑے ہوتے ہیں تو دیکھو ان کی صفیں ٹیڑھی ہوں گی۔دل پریشاں اور سجدوں میں کوئی ذوق ولذت نہ ہوگی۔ اس کا سبب کیا ہے؟ سبب یہ ہے کہ ان کے دلوں میں عشق کا جذبہ باقی نہ رہا۔(شرح غلام رسول مہر)
تشریح:’’اس رباعی میں اقبال مسلمانوںکی صورت حال پر تاسف کا اظہار کرتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ ان میں نہ جذبہ رہا نہ غیرت! نہ ہی کچھ کر گزرنے کاجنون برقرار ہے۔ آج کے مسلمانوں کی کیفیت تو یہ ہے کہ ان کی صفوں میں نفاق کا بیج بوئے ہوئے ہیں جس کے سبب پریشان حالی ان کا مقدر بن کر رہ گئی ہے۔ حد تو یہ ہے کہ خالق حقیقی کی بارگاہ میں سجدہ ریز ہوتے ہیں تو ان سجدوں میں ذوق اور خلوص ناپید ہوتا ہے۔ ان ساری صورت حال کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ان کے دل عشق حقیقی کے جذبے سے خالی ہوچکے ہیں‘‘۔ (شرح اسرارِ زیدی)
تشریح:’’کہتے ہیں کہ مسلمانوںمیں حرارتِ ایمانی بالکل مفقود ہے اور اس کا سبب یہ ہے کہ وہ کتاب و سنت سے منحرف ہوگئے ہیں اور اس بنیادی کمزوری کے علاوہ ان میں دیگر عیوب بھی پیدا ہوگئے ہیں۔ مثلاً ان میں اتحاد و اتفاق نہیں ہے۔ ان کے دل اطمینان سے محروم ہیں۔ اور اگر وہ عبادت کرتے ہیں تو اس میں انھیں کوئی لطف نہیں آتا۔ اور ان سب نقائص کا سبب یہ ہے کہ ان میں محبت کا جنوں جیسے جذبۂ اندروں سے بھی تعبیر کرسکتے ہیں باقی نہیں رہا۔پس اگر مسلمان اپنی تمام کمزوریوں کا ازالہ کرنا چاہتے ہیں تو از سر نو مسلمان ہوجائیں یعنی عشق رسولؐ اختیار کرلیں‘‘۔ (شرح یوسف اسلام چشتی)
مذکورہ بالا تشریحات سے وہ صاحب یا وہ صاحبان جو علامہ اقبال کو شاعر نہیں سمجھتے ہیں ان کو اپنا سر پیٹنا چاہئے کہ جب وہ اقبال ہی کو نہیں سمجھتے تو اقبال کی شاعری کو کیسے سمجھ سکتے ہیں؟ اقبال کو سمجھنے کے لئے اسلام کو گہرائی سے سمجھنے کی ضرورت ہوتی ہے اور جو علامہ اقبال کو سمجھ لیتا ہے میرے خیال سے وہ اسلام کو بھی گہرائی سے سمجھ پاتا ہے۔ یہ بالکل صحیح ہے کہ علامہ اقبال کی شاعری کا منبع قرآن اور عشقِ مصطفیؐ ہے۔ جو قرآن سے نابلد ہے اور عشق مصطفی سے محروم ہے ، نہ اس کی سمجھ میں اسلام آسکتا ہے اورنہ اقبال۔
دنیائے صحافت کی دو شخصیات کے مابین گذشتہ دنوں ایک عجیب سی بحث چھڑی ہوئی تھی۔ ایک کا کہنا تھا کہ علامہ اقبال نہ تو شاعر مشرق تھے اور نہ ہی کوئی قومی شاعر ہیں بلکہ وہ صرف ایک مقامی شاعر تھے اور اْن کا پیغام اب فرسودہ ہوچکا ہے۔ انہوں نے جو کہا وہ ان کے دور تک درست تھا مگر اب وہ تھیسسز آؤٹ ڈیٹیڈ ہوچکاہے۔ اس کا جواب دیتے ہوئے ایک بہت معروف کالم نگار نے کہا ہے کہ اقبال صرف پاکستان کے ہی نہیں بلکہ ایران، تاجکستان اور ترکستان میں بھی انہیں قومی شاعر تسلیم کیا جاتا ہے۔ہندوستان میں ان کی شاعری پر بہت کام ہورہا ہے بلکہ دنیا بھر میں اْن کی شاعری کی دھوم ہے اور وہ بلا شبہ شاعر مشرق ہیں۔ میرا ان دونوں شخصیات سے اختلاف ہے بلکہ میں کیا خود علامہ اقبال کا بھی یہی موقف ہے۔ علامہ اقبال کے بارے میں ایسی رائے رکھنے والوں کو اصل میں غلط فہمی اس لیے ہوتی ہے کہ انہوں نے اقبال کے چند اشعار سنے ہوتے ہیں لیکن وہ فکر اقبال سے ناآشنا ہوتے ہیں۔ اقبال شاعر تھے ہی نہیں ، اس لیے اْن کے مقام و مرتبہ کو شاعری کے پیمانے سے ماپنا درست نہیں۔ یہ صحیح ہے کہ انہوں نے شاعری کو اپنے پیغام کا ذریعہ بنایا مگر اس میں اورشاعرانہ ذہنیت میں بہت فرق ہے۔ قرآن نے شاعری کو ایک ذہنیت قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی ہے جس کا کوئی نصب العین نہیں ہوتا۔قابل مذمت اسلوب بیان نہیں بلکہ ذہنیت ہے۔ اصل اہمیت پیغام کی ہوتی ہے اسلوب بیان چاہے کوئی سا بھی کیوں نہ ہو۔ اگر کوئی حقائق اور سچ کی بات کے اظہار کے لیے شاعری کو ذریعہ بنائے وہ قابل گرفت نہیں ہوتا۔ قابل اعتراض پیغام اور انداز فکر ہوتا ہے۔شاعرایک وقت میں ہجر و فراق کی بات کررہے ہوتے ہیں لیکن ساتھ ہی وصل کی لذت سے بھی محظوظ ہورہے ہوتے ہیں۔ اْن کے ذہن کی اڑان ہوتی ہے کہ کبھی گل و بلبل کے قصے کبھی محبوب کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے اورہجوپہ آجائیں تو رقیب کو روسیا قرار دے دیں۔ اسی شاعرانہ طرز عمل کے بارے میں علامہ ا قبال نے کہا کہ
شاعر کی نوا مردہ و افسرد ہ و بے ذوق
افکار میں سرمست نہ خوابیدہ نہ بیدار
تشریح: ’’صوفیوں اور علماء سے ہٹ کر اگر ادیبوں خصوصاً شاعروں کو دیکھیں تو ان کی شاعری مری ہوئی اور بجھی ہوئی ہے۔ اس میں کوئی جوش ، کوئی ولولہ اور سوئی ہوئی قوم کے لئے کوئی پیغام نہیں ہے بلکہ اس کے برعکس قوم کو مردہ اور افسردہ کرنے کی باتیں موجود ہیں۔ آج کے نام نہاد شاعر اپنے فرضی خیالات میں مگن ہیں۔ ان کی حالت یہ ہے کہ وہ سوئے ہوؤں میں سے معلوم ہوتے ہیں اور نہ جاگے ہوؤں میں سے۔ بس اپنے فرضی خیالات میں مست ہیں جن میں کوئی عملی بات اور پیغام نہیں ہے‘‘۔
علامہ نے تو شاعری ترک کردی تھی مگر اپنے استاد سر آرنلڈ اور قریبی دوست شیخ عبدالقادر کے کہنے پر دوبارہ شاعری کو ذریعہ پیغام بنایا۔ انہوں نے خود کہا کہ میری شاعری سے کوئی تعلق نہیں میں نے تو اسے صرف اپنے پیغام کا ذریعہ بنایا ہے وہ کہتے ہیں کہ
نغمہ کجا و من کجا ! ساز سخن بہانہ است
سوئے قطار می کشم ناقہ بے زمام را
’’شاعری کہاں اور میں کہاں! میں تو دراصل شاعری کے بہانے بھٹکی ہوئی بے لگام اونٹنی۔مراد ہے ملت اسلامیہ۔ کہ پھر سے قافلہ میں چلنے والی قطار میں واپس لانے کی جدوجہد کر رہا ہوں‘‘۔
جو انہیں شاعر کہتے تھے انہیں وہ جواب دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ میرے پیغام پر غور کریں اور اسے روایتی شاعری پر معمول نہ کریں۔ بال جبریل میں وہ لکھتے ہیں کہ
میری نوائے پریشاں کو شاعری نہ سمجھ
کہ میں ہوں محرم راز درون مے خانہ
علامہ درد دل سے شکوہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جو میں کہا ہے اس پر تم غور نہیں کرتے بلکہ اس مجھ پر شاعر ہونے کی تہمت لگا دیتے ہو اور انہوں نے بہت ہی سخت بات کہہ دی کہ
نہ پنداری کہ من بیی بادہ مستم مثال شاعران افسانہ بستم
نہ بینی خیر از ان مرد فرودست کہ بر من تہمت شعرو سخن بست
ہم انہیں خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے شاعر مشرق قرار دیتے ہیں لیکن اقبال چیخ چیخ کر کہتے ہیں کہ میں شاعر نہیں ہوں۔ وہ بارگاہ رسالتؐ میں شکایت کرتے ہیں کہ
من اے میر امم داداز تو خواہم
مرا یاراں غزل خوائے شمر دند
وہ کہتے یہ ہیں کہ اے میرے اور ساری کائنات کے آقاؐ! میں آپ کی خدمت میںیہ فریاد لے کر حاضر ہوا ہوں کہ میں نے تو اپنی قوم کو آپؐ کا پیغام سنایا لیکن میری قوم نے مجھے محض ایک شاعر سمجھا۔وہ مثنوی اسرارو رموز میں مزید عرض کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اگر میرے پیغام میں قرآن کے سوا کچھ اور ہے تو روز محشر مجھے سب کے سامنے رسوا کیا جائے۔
پردہ ناموس فکرم چاک کن ایں خیاباں راز خارم پاک کن
یہی نہیں بلکہ مجھے حضورؐ کے قدموں کے بوسے سے بھی محروم کردیا جائے۔
روز محشر خوار و رسوا کن مرا بے نصیب از بوسہ پاکن مرا
فکر اقبال کا تھیسز آؤٹ ڈیٹیڈکیسے ہوسکتا ہے کیونکہ اس کا منبع قرآن ہے۔وہ عشق مصطفیٰ ؐ کا پیغام ہے۔ وہ ہر دور کے لیے قابل عمل رہے گا۔ اقبال نے تو اپنے پیغام کو فردا قرار دیتے ہوئے آنے والے دور کا پیغام قرار دیاہے اقبال کا اصل مقام پیامبر قرآن کا ہے۔ وہ حکیم الامت تھے اور جن لوگوں نے اْن کی فارسی شاعری، خطبات اور باقی کلام کو غور سے پڑھا ہے وہ اقبال کو یہی مقام دیتے ہیں۔آج پوری دنیامیں اقبال کے کروڑوں چاہنے والے اْس کی اس دعا کی قبولیت ثبوت ہے جو اس نے بارگاہ ایزدی میں کی تھی کہ
خدایا آرزو میری یہی ہے
میرا نور بصیرت عام کردے
[email protected]