نیا سال 2023: ہندوستان کیلئے چیلنجز اور مواقع

0

صبیح احمد

ہندوستان نئے سال 2023 میں چیلنجوں اور مواقع کے ساتھ ایک ایسے وقت میں داخل ہو رہا ہے جب سفارتی اور فوجی محاذوں پر روس-یوکرین جنگ اور چین سے جنگ جیسی صورتحال اس کی دہلیز پر کھڑی ہے۔ کووڈ19-کی غیر یقینی صورتحال نے دنیا کو پھر سے اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ ایک معاشی بدحالی افق پر بڑے پیمانے پر پھیلتی دکھائی دے رہی ہے۔ G-20 کے چیئر مین کے طور پر ہندوستان دنیا کو درپیش مسائل کے حل کے لیے ایک نیا زاویہ پیش کرنے کو تیار ہے۔ ہندوستان کو نئے سال میں جن نئے چیلنجز کا سامنا ہے، وہ نئے نہیں ہیں۔ بیشتر 2022 میں بھی موجود تھے اور انہیں حل کرنے کی ہر ممکن کوشش بھی کی گئی لیکن مسائل اور چیلنجز کے اثرات اتنی جلد زائل نہیں ہوتے۔ ان سے نجات پانے کے لیے برسوں بلکہ دہائیوں کی محنت اور جد وجہد درکار ہوتی ہے۔ گزشتہ سال کی جو ا ہم تشویشات ہیں ان میں روس-یوکرین جنگ، چین کی جارحیت، طالبان کے ساتھ رشتے، پڑوسی ملکوں کے بحران شامل ہیں۔ یوکرین پر روسی حملے نے دوسری جنگ عظیم کے بعد پہلی بار بڑے پیمانے پر عالمی نظام کو بگاڑ کر رکھ دیا ہے، دنیا کی خوراک اور توانائی کی سلامتی کو متاثر کیا ہے، اور عالمی معیشت کو کساد بازاری کی طرف دھکیل رہا ہے۔ روس اور چین کی اسٹریٹجک قربت ایک اور پریشانی کا باعث ہے۔
حالیہ توانگ تصادم نے ظاہر کیا ہے کہ چین نہ صرف مشرقی لداخ بلکہ دیگر سیکٹروں میں بھی جوں کی توں کی صورتحال کو چیلنج کر رہا ہے۔ اب یہ واضح ہو گیاہے کہ چین ہی ہندوستان کا سب سے بڑا حریف ہے جبکہ پہلے کچھ لوگ اسے شبہ کا فائدہ دے رہے تھے۔ روس گزشتہ 7 دہائیوں سے دفاعی سازوسامان کا ایک قابل اعتماد سپلائر رہا ہے، اور امریکہ، فرانس اور اسرائیل سمیت دیگر ممالک کی سرگرمیوں کے باوجود اس کا اب بھی اس شعبہ میں غلبہ ہے۔ لیکن یہ روس-یوکرین جنگ کی وجہ سے پیچیدہ ہو گیا ہے، جہاں روسی آلات کی معتبریت پر سوالیہ نشان لگ رہا ہے اور سپلائی چین دباؤ کا شکار ہے۔ ہندوستان کے لیے چین سب سے بڑی پریشانی کا باعث رہا ہے اور ہندوستان کے لیے تشویش کی بات یہ ہے کہ روس کے چین کے ساتھ تعلقات اس کے بعض فیصلوں پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ سرد جنگ کے بعد کے دور میں اقتصادی تعلقات نے چین اور روس کے تعلقات کے لیے ’نئی اسٹریٹجک بنیاد‘ تشکیل دی ہے۔ جنگ کے بعد روس کے ساتھ مغرب کا رویہ ماسکو کو چین کے بہت قریب لے آیا ہے۔ ہندوستان کے ذریعہ سستے تیل کی خریداری اور روس کے خلاف مغربی خیمہ میں شامل نہ ہونے کے بعد ہندوستان کو یوروپی اور امریکی شراکت داروں کے تحفظات کو دور کرنے کے لیے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ جہاں سری لنکا نئے سال میں ہندوستان کی انسانی، مالی اور سیاسی توجہ کا مطالبہ کرتا رہے گا، وہیں ہندوستان مالدیپ میں سیاسی بات چیت کا حصہ بھی بننے کی کوشش کرے گا۔ مالدیپ میں ستمبر 2023 میں انتخابات ہونے والے ہیں اور ’انڈیا آؤٹ‘ مہم سے سیاسی بحث کے مزید بھڑکنے کا امکان ہے۔ بنگلہ دیش بھی 2023 میں ہی انتخابی موڈ میں چلا جائے گا کیونکہ وہاں جنوری 2024 میں عام انتخابات ہونے والے ہیں۔ ہندوستان ایک بار پھر شیخ حسینہ کی جیت کے امکانات کیلئے پر امید ہے کیونکہ حسینہ حکومت نے ہندوستان کی مشرقی ریاستوں میں سلامتی کو یقینی بنانے میں کافی مدد کی ہے۔ نیپال میںایک ڈرامائی موڑ دیکھنے میں آیا ہے جس میں باغی سے سیاست داں بنے پشپ کمل دہل ’پرچنڈ‘ وزیر اعظم بنے ہیں۔ یہ ہندوستان کے لیے ایک اہم چیلنج کا باعث بنے گا کیونکہ حالیہ برسوں میں کاٹھ منڈو میں بیجنگ کے اثر و رسوخ میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ پاکستان میں بھی عام انتخابات 2023 کے اواخر میں ہونے والے ہیں۔ یہ ایک بار پھر دیکھنے والی بات ہوگی کہ نئی سویلین حکومت اور آرمی چیف ہندوستان کے بارے میں کس طرح کا رویہ اپنا رہے ہیں۔ بہرحال ہندوستان کی گھریلو کوششوں کو دوسروں کے ساتھ ہوشمند شراکت داری کے ذریعہ تقویت دینے کی ضرورت ہوگی۔ نئے دوست بنانے کے دوران ہندوستان کو روس جیسے پرانے شراکت داروں کو اپنے ساتھ رکھنے، چین سمیت تمام ممالک کو شامل کرنے اور چھوٹے پڑوسیوں کے ساتھ زیر التوا معاملات کو حل کرنے کی ضرورت ہے جنہوں نے کئی دہائیوں سے خارجہ پالیسی کو متاثر کر رکھا ہے۔
ہندوستان دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے جس نے پچھلی چند دہائیوں میں کافی ترقی کی ہے لیکن ایک ترقی یافتہ ملک بننے سے اب بھی کافی دور ہے، اس لیے ہم روزمرہ کے مسائل کو فراموش نہیں کر سکتے جو قوم کی ترقی میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ ہندوستان میں سب سے زیادہ پھیلنے والی وبائی بیماری بدعنوانی ہے جس سے جلد اور دانشمندی سے نمٹا جانا چاہیے۔ پرائیویٹ اور پبلک سیکٹر میں شاید ہی کوئی ایسا دفتر ہو جو اس بیماری سے اچھوتا ہو۔ اس کی وجہ سے معیشت کو اتنا نقصان پہنچاہے کہ سوچا بھی نہیں جا سکتا۔ ہندوستان میں ناخواندگی کی شرح تشویشناک ہے۔ بہت سے لوگ جو پڑھے لکھے شمار ہوتے ہیں، بمشکل پڑھ لکھ سکتے ہیں۔ ہندوستان کے نظام تعلیم پر بہت زیادہ نظریاتی، لیکن عملی اور مہارت پر مبنی نہ ہونے کا الزام لگایا جاتا ہے۔ طلبا نمبر حاصل کرنے کے لیے پڑھتے ہیں، علم حاصل کرنے کے لیے نہیں۔ یہ نام نہاد جدید نظام تعلیم نوآبادیاتی آقاؤں نے ایسے نوکر پیدا کرنے کے لیے متعارف کرایا تھا جو خدمت تو کر سکتے تھے لیکن رہنمائی نہیں کر سکتے اور ہمارے یہاں آج بھی وہی نظامِ تعلیم موجود ہے۔
صفائی ستھرائی بھی ہندوستان میں ایک اہم مسئلہ ہے۔ تقریباً 700 ملین لوگ ایسے ہیں جن کو گھروں میں بیت الخلا تک رسائی نہیں ہے۔ اس طرح لوگ کھلے میں رفع حاجت کرنے پر مجبور ہیں جس سے ڈائریا، ہیضہ، پانی کی کمی وغیرہ جیسی متعدد بیماریاں جنم لیتی ہیں۔ بہت سے دیہی اسکولوں میں بھی بیت الخلا نہیں ہیں جس کی وجہ سے والدین اپنے بچوں خصوصاً لڑکیوں کو اسکول نہیں بھیجتے۔ بڑھتی ہوئی آبادی سب سے بڑا چیلنج ہے۔ ہندوستان میں صحت کی دیکھ بھال ایک نظر انداز شدہ مسئلہ ہے کیونکہ توجہ کا مرکز زراعت، بنیادی ڈھانچہ اور آئی ٹی ہیں۔ خط افلاس سے نیچے زندگی گزارنے والی ہندوستان کی آبادی پلاننگ کمیشن کے اعداد و شمار کے مطابق 2004-05 میں 37 فیصد سے کم ہو کر 2011-12 میں 22 فیصد رہ گئی۔ آلودگی اور ماحولیاتی مسائل دوسرے چیلنجز ہیں جن کا ہندوستان اس وقت سامنا کر رہا ہے۔ مرد اور عورت دونوں یکساں مواقع سے لطف اندوز ہوتے ہیں لیکن جہاں تک خواتین کی آزادی اور تحفظ کا تعلق ہے، ہندوستان پیچھے ہے۔ آج کل نوجوانوں میں بے روزگاری بہت عام ہے۔ حکومت کو سرکاری اور پبلک سیکٹر میں ملازمت کے مزید مواقع پیدا کرکے اسے ختم کرنے کے لیے ضروری اقدامات کرنے چاہئیں۔ ہندوستان ایک ایسا ملک ہے جو پوری دنیا میں اپنی زراعت کے لیے مشہور ہے لیکن ہمارے ملک کی افسوسناک حالت یہ ہے کہ یہاں کسانوں کو بہت زیادہ مسائل کا سامنا ہے۔ کسانوں کی خودکشی کی کہانیاں تقریباً ہر روز میڈیا میں آتی ہیں۔
یہ سب ایسے مسائل ہیں جو قطعی نئے نہیں ہیں بلکہ کچھ تو برسوں یا دہائیوں نہیں، صدیوں سے ہیں۔ نئے سال میں بھی کم و بیش وہی مسا ئل اور چیلنجز کا سامنا ہے جو رخصت پذیر سال یعنی 2022 میں تھے۔ ہمیں کچھ نیا کرنے کی بھی ضرورت نہیں ہے بلکہ کوششوں اور اقدامات کے تسلسل کو مزید عزم کے ساتھ جاری رکھنا ہے۔ بہرحال ہندوستان ترقی کے مرحلے میں ہے، یعنی ایک ترقی یافتہ ملک بننے کی راہ پر ہے۔ ہمارا ملک اپنے راستے میں آنے والے ہر چیلنج پر جوش و خروش کے ساتھ قابو پا رہا ہے۔ حکومت ہند کو ایک ایسا ماحولیاتی نظام بنانے کی ضرورت ہے جو نجی سرمایہ کاری، کھپت میں اضافہ، برآمدات کی مسابقت اور تیز انفراسٹرکچر سرمایہ کاری کے قابل بنائے۔ یہ اقدامات ہندوستان کو عالمی سپر پاور کی حیثیت تک پہنچا سکتے ہیں جس کا وہ بجا طور پر مستحق ہے۔
[email protected]

 

 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS