ہر نیا سال نئی امید لے کر آتا ہے، اس لیے 2023 سے بھی نئی امید وابستہ کرنا کوئی عجیب بات نہیں ہوگی۔ ہندوستان کے لیے تو جاتا ہوا سال بھی سوغات دے کر گیا۔ سلامتی کونسل کی صدارت کے علاوہ جی-20 جیسے بڑے ادارے کی صدارت اسے ملی۔ اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ عالمی سطح پر اس کے دائرۂ اثر میں اضافہ ہو رہا ہے اور کیو ںنہ ہو، ایک طرف امریکہ اور برطانیہ کے لوگ مہنگائی سے پریشان ہیں تو دوسری طرف وطن عزیز ہندوستان کے لوگ کسی حد تک مہنگائی سے راحت محسوس کر رہے ہیں۔ سرکار کی طرف سے یہ امید بندھائی جا رہی ہے کہ ملک کی اقتصادی حالت ٹھیک ہے، فکر کرنے کی کوئی بات نہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ 2023 میں عالمی مندی کے واضح اثرات نظر آنے لگیں گے مگر سرکار کی طرف سے بندھائی جا رہی امید عام لوگوں کے لیے حوصلہ افزا ہے۔ اس سال کئی ریاستوںمیں اسمبلی انتخابات ہوں گے۔ فروری 2023 میں تریپورہ، میگھالیہ اور ناگالینڈ، مئی 2023 میں کرناٹک تو نومبر 2023 میں چھتیس گڑھ، مدھیہ پردیش، میزورم اور دسمبر 2023 میں راجستھان، تلنگانہ میں اسمبلی انتخابات ہونے کا امکان ہے۔ اسی سال جموں اور کشمیر میں بھی اسمبلی الیکشن ہونے کی امید ہے۔ ان انتخابات کی اہمیت اس لیے بھی ہے کہ 2024 میں لوک سبھا انتخابات ہونے ہیں، چنانچہ فطری طور پر ان انتخابات کے نتائج سے لوگوں کے رجحان کا اندازہ لگانے کی کوشش کی جائے گی۔ ایسی صورت میں ملک کی فضا کو کچھ اور خراب کرنے کی کوشش کی جائے تو حیرت نہیں ہونی چاہیے مگر خیال دنیا کے بدلتے حالات کا رکھنا چاہیے۔ پاکستان سے ہندوستان کے تعلقات کبھی اچھے نہیں رہے، کیونکہ پاک لیڈروں نے تعلقات کو کبھی سنجیدگی سے لیا ہی نہیں۔ گلوان کے بعد چین کی اصل حقیقت بھی سامنے آ چکی ہے۔ ہند-چین تنازع کے سلسلے میں خود سی ڈی ایس جنرل انل چوہان تشویش ظاہر کر چکے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’ملک کو سب سے بڑا خطرہ چین کی سرحد سے ہے۔‘ تو ظاہر ہے، اس خطرے کو نظر انداز کرنا مشکل ہے۔ ایسی صورت میں توجہ یہ دینی ہوگی کہ کس پڑوسی سے چین کے تعلقات زیادہ مستحکم ہو رہے ہیں تاکہ چینی سرگرمیوں کی مناسبت سے تیاری کی جاسکے۔ نیپال میں پشپ کمل داہال عرف پرچنڈ کا تیسری بار وزیراعظم بننا بھی اہم ہے۔ وہ چین سے قربت کے لیے مشہور رہے ہیں۔ یہ بات الگ ہے کہ جولائی، 2022 میں پرچنڈ ہندوستان آئے تھے اور بی جے پی کے سربراہ جے پی نڈا سے ملاقات کی تھی، اس لیے یہ امید بندھتی ہے کہ وہ ہندوستان کی دوستی کی اہمیت کو سمجھیں گے اور نیپال کا جھکاؤ پوری طرح چین کی طرف نہیں ہونے دیں گے۔
گزرے ہوئے سال کے واقعات کو نظر انداز کر کے نئی امید کرنا اندھیرے میں بغیر ٹارچ کے کوئی قیمتی شے تلاش کرنے جیسا ہے۔ گزشتہ برس یوکرین پر روس کے حملوں نے یہ احساس دلایا ہے کہ دنیا ویسی ہی نہیں رہے گی جیسی ہے۔ اس جنگ پر یوروپی ممالک کی آرا بٹی ہوئی نظر آئیں۔ اس سے یوروپی اتحاد کی حقیقت سامنے آئی۔ یوروپ کا جاڑا اور روسی گیسوں کی عدم سپلائی یوروپی ملکوں کے اتحاد کی کیا نئی حقیقت اس نئے سال میں سامنے لاتی ہے، یہ دیکھنے والی بات ہوگی۔ گزشتہ برس ولادیمیر پوتن اور دیگر روسی لیڈروں نے جیسے ایک سے زیادہ بار ایٹم بم کا ذکر چھیڑا، اس سے اس اندیشے کا پیدا ہونا فطری ہے کہ یوکرین جنگ کی کبھی بھی توسیع ہوسکتی ہے اور ان یوروپی ملکوں کے لیڈران جنہوں نے گزشتہ 75 سال میں امن کی باتیں کر کے مختلف ملکوں میں جنگ کے لیے امریکی فوجیوں کے ساتھ اپنے فوجیوں کو بھیجا ہے، اپنے ہی ملک میں جنگ ان کے لیے بھی ایک امتحان بن سکتی ہے۔ یہ کہنا نامناسب نہ ہوگا کہ یوکرین جنگ کی توسیع کا خطرہ ابھی ٹلا نہیں ہے مگر دنیا امید پر قائم ہے، اس لیے یہ امید رکھی جانی چاہیے کہ نئے سال میں یوکرین جنگ ختم ہوجائے گی، یوروپیوں کو جنگ کے خدشات سے نجات مل جائے گی، جنگ کی وجہ سے توانائی اور اشیائے خوردنی کے سلسلے میں جو دشواریاں سامنے آرہی ہیں، وہ نہیں رہیں گی۔ گزشتہ برس ماحولیاتی تبدیلی کے سلسلے میں عالمی برادری نے سنجیدگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ یہ امید افزا ہے۔ گزشتہ برس کورونا پر بڑی حد تک قابو پا لیا گیا تھا مگر سال کے آخری دنوں میں نئے اومیکرونBF.7 ویرینٹ (Omicron BF.7 variant) نے کورونا کی سنگینی کا پھر احساس دلایا ہے۔ اس کے باوجود یہ امید کی جانی چاہیے کہ اس نئے سال میں کورونا پر قابو پا لیا جائے گا۔ یہ سال واقعی امیدوں کے پورا ہونے کا سال ثابت ہوگا۔
[email protected]