پروفیسر اخترالواسع: افغانستان میں طالبان اور اسلام

0

پروفیسر اخترالواسع

مسلمانوں کو آج کل طالبان کے حوالے سے شناخت کرانے کی کوششیں ساری دنیا کی طرف سے جاری ہیں اور طالبان کی سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ وہ اپنی قبائلی فکر سے اوپر اٹھ کر اسلام کے حوالے سے اپنی حکومت، کردار اور ملک کو پیش کریں۔ وہ لوگ جو طالبان کی حکومت کے ذمہ دار رہے ہیں ان کا اگر کوئی بڑا کارنامہ یاد کیا جائے تو صرف یہ ہے کہ امریکہ اور پاکستان کی مدد سے شروع میں برہان الدین ربانی، صبغت اللہ مجدّدی، مولوی محمد یونس اور گلبدین حکمت یار جیسے مذہبی رہنماؤں جنہوں نے روسی قبضے کو شکست دینے میں نمایاں رول انجام دیا تھا کی سرکار کو بے دخل کرکے اس پر اپنا قبضہ جمایا۔ دوسرا بڑا کام جو طالبان نے اپنے دورِ اقتدار میں کیا وہ یہ کہ بامیان، جو غزنی سے متصل علاقہ ہے وہاں واقع مہاتما بدھ کے مجسموں کا انہدام تھا جس کے نتیجے میں بدھ مذہب کے ماننے والوں جو اس وقت تک مسلمانوں اور اسلام کے خلاف نہیں تھے،کو بھی دشمنوں کی صف میں پہنچا دیا۔ یہاں یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ غزنی، محمود غزنوی کی حکومت کا پایہ تخت رہا ہے اور اس نے یا اس کے پہلے اور بعد میں آنے والے حکمرانوں نے بھی ان کو منہدم نہیں کیا تھا اور طالبان کے اس منفی عمل کا نتیجہ یہ ہے کہ جہاں جہاں بدھ مذہب کے ماننے والوں کی اکثریت ہے وہ مسلمانوں کے خلاف رویہ اپناتے ہیں، چاہے وہ سری لنکا کے سنہالی ہوں یا میانمار کے بدھسٹ، وہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف اپنے معاندانہ رویے سے دنیا بھر کو آزمائش میں ڈالے ہوئے ہیں۔
ابھی طالبان نے نیا شوشہ یہ چھوڑا ہے کہ خواتین کے لیے یونیورسٹیوں کے دروازے بند کر دیے ہیںجس کی ہر طرف سے مذمت ہو رہی ہے۔ انتہا یہ ہے کہ سعودی عرب جو افغانستان میں طالبان کا سب سے بڑا حامی رہا ہے، وہ بھی انہیں برابر یہ مشورہ دے رہا ہے کہ اپنے فیصلے کو بدل لیں۔ مجلس اقوام متحدہ اور اس سے جڑے ہوئے بیشتر ملکوں کی بھی افغانستان سے یہی خواہش کی ہے کہ وہ اپنی خواتین کے ساتھ یہ زیادتی نہ کرے اور جنسی بنیادوں پر تعلیمی اداروں میں تفریق و امتیاز کی پالیسی سے دستبردار ہوجائے۔
نبی کریم حضرت محمد مصطفیؐ جو رحمۃ للعالمین ہیں تو اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ایک ایسی دنیا میں جہاں کچھ لوگوں کی علم پر اجارہ داری تھی اور حرفِ علم و دانش کو حاصل کرنا تو بڑی بات تھی، اگر غلطی سے کسی کانوں میں بھی وہ پڑ جاتا تھا تو اس کے کانوں میں گرم گرم سیسہ پگھلا کر ڈال دیا جاتا تھا۔ وہ جب غارِ حرا سے سوئے قوم آئے تو اپنے ساتھ نماز، زکوٰۃ، روزے اور حج کا حکم نہیں بلکہ اقرأ کا پیغام لے کر آئے تھے۔ آپؐ نے فرمایا تھا ’’علم حاصل کرنا فرض ہے ہر مسلمان مرد پر اور ہر مسلمان عورت پر۔‘‘ اتنا ہی نہیں آپؐ نے یہ بھی فرمایا کہ ’’علم حاصل کرو ماں کی گود سے لے کر قبر تک۔‘‘ ہمیں یہاں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ رسول اللہؐ مرد تھے اور مرد ہونے کی حیثیت سے باپ تھے پھر بھی انہوں نے حصولِ علم کے لیے ماں کی گود کو تعلیم کی آماجگاہ قرار دیا۔ جس کا سیدھا سادہ مطلب یہ تھا کہ ہر وہ باپ جو بیٹیوں والا ہے اپنی بیٹیوں کو بہتر سے بہتر اور اعلیٰ سے اعلیٰ تعلیم دلائے اور یہاں یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ آج کی بیٹیاں ہی کل کی مائیں ہوں گی۔ اگر آج وہ زیورِ تعلیم سے آراستہ نہیں کی جائیں گی تو ان کی گود کس طرح سے آنے والی نسلوں کے لیے تعلیم کی آماجگاہ اور درسگاہ بن پائے گی۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ جس امت میں مائیں تعلیم یافتہ ہوتی ہیں، اس کے بیٹے کبھی جاہل نہیں رہتے۔ پھر ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ اس امت مسلمہ کو ایک تہائی شریعت ایک عورت یعنی ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہؓ کے ذریعے ہی ملی ہے اور حضرت عائشہؓ کو امت تک یہ علم پہنچانے کا کام خود نبی کریمؐ نے سونپا تھا اور جس کام کو اللہ پاک کے رسولؐ نے فرض بتایا ہو اور جائز رکھا ہو، وہ کسی کے کہنے سے ناجائز نہیں ہو سکتا۔ طالبان افغانستان کو کہاں لے جانا چاہتے ہیں،یہ ایک سوال ہے جو سب کو پریشان کیے ہوئے ہے۔ افغانیوں کو اپنی قبائلی شناخت کھوئے بغیر ساری دنیا میں اسلام کا ایک بہتر، روشن اور مثبت چہرہ بن کر آگے آنے کا ہر موقع ملنا چاہیے۔ ہم یہ بالکل نہیں کہہ رہے ہیں کہ افغانستان یوروپ ہو جائے لیکن ہم اتنا ضرور عرض کرنا چاہیں گے کہ جو کچھ اللہ پاک اور اس کے رسولؐ نے عورتوں سمیت انسانی معاشروں کو حقوق دیے ہیں، وہ افغانستان میں بھی جاری و ساری ہونے چاہئیں۔
اسی طرح افغانستان کے ہرات میں ایک گاؤں ہے جو ’’ایک گُردے والوں کا گاؤں‘‘ کہلاتا ہے اور اس کا یہ نام اس لیے ہے کیوں کہ غربت و افلاس کی خاطر یہاں کے لوگ اپنا ایک گردہ بلیک میں بیچنے پر مجبور ہو گئے ہیں اور وہاں پر خداوند قدوس کی عطا کے طور پر دو گردوں والی کوئی عورت یا مرد نہیں ہے۔ ایسا نہیں کہ غریبی کی وجہ سے اعضا کی پیوندکاری کے لیے انسانی جسم کے مختلف اعضا کی یہیں خرید و فروخت ہو رہی ہو بلکہ بہت سے ملکوں میں خاص طور سے غریب لوگ پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے اور اپنے خاندان والوں کی کفالت کرنے کے لیے ایسا کرنے پر مجبور ہیں۔ یہ ایک انتہائی سنگین اور غربت کا سفاک پہلو ہے جس کی طرف افغانستان کی حکومت کو سب سے پہلے اور خاص توجہ دینی چاہیے۔ہم افغانستان اور اس کے لوگوں کو ہر طرح سے متمول اور صاحب ثروت دیکھنا چاہتے ہیں اور طالبان حکومت کو افغانستان میں دہشت و وحشت کا کاروبار کرنے اور علاقے میں عدم استحکام پیدا کرنے کے بجائے غربت، جہالت، صنفی تفریق اور مذہبی عناد کو ہر قیمت پر ختم کرنا چاہیے اور بچوں کے ایک بہتر مستقبل کے لیے ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے۔
ایک چیز جو اور تشویشناک ہے وہ یہ کہ افغانستان کے اندر ایک دوسرے کا قتل کرنے اور دہشت و وحشت کا کاروبار جاری رکھنے سے نہیں روکا جا رہا ہے اور اب تو انتہا یہ ہے کہ افغانستان میں نمازی بھی خیریت سے نہیں ہیں اور اس کے ہم نوا اور پڑوسی ملک پاکستان میں بھی طالبان کی حکومت خیبر پختون خوا کے علاقوں کو اپنے قبضے میں لینے کے لیے جنگ پر آمادہ ہے جس کے لیے پاکستان نے افغانی طالبان کو لقمہ اجل بنا دیا ہے۔
افغانستان کی موجودہ حکومت اور اس کے ذمہ داروں کو یہ سمجھنا چاہیے کہ دنیا کسی طرح کی دہشت اور وحشت کو قبول کرنے کو تیار نہیں ہے۔ امریکہ نے طالبان کو جس طرح عنانِ حکومت سونپی اس سے لگتا ہے کہ وہ چاہتا تھا کہ عالمِ اسلام بالخصوص افغانستان اور اس کے آس پاس جو عدم استحکام اور دہشت و وحشت کا کاروبار چل رہا ہے، اس کی ذمہ داری اس کے سر نہ جاکر طالبان کے سر جائے اور دنیا بھر میں اسلام اور مسلمان کٹہرے میں کھڑے کیے جا سکیں۔ امید کی جاتی تھی کہ قطر میں ہونے والی خیرسگالی گفتگو اور امریکہ کی حمایت سے چلنے والی حکومت کی دستبرداری کے بعد جب طالبان دوبارہ اقتدار میںآئیں گے تو وہ، جیسا کہ انہوں نے یقین بھی دلایا تھا کوئی تفریق، کسی بھی بنیاد پر روا نہیں رکھیں گے اور ایک ایسا نظام افغانستان میں لائیں گے جو سب کے لیے نہ صرف افغان بلکہ آس پاس کے ملکوں کے لوگوں کے لیے بھی قابلِ قبول ہوگا۔
موجودہ صورتحال میں اس سے پہلے کہ مغربی طاقتیں طالبان کے کسی رویے کو بنیاد بنا کر عالمِ اسلام میں بحران پیدا کر دیں، اس لیے ضروری ہے کہ سعودی عرب، ایران، ترکی اور قطر جیسے ممالک طالبان کو سمجھائیں اور راہِ راست پر لائیں۔
(مضمون نگار جامعہ ملیہ اسلامیہ کے
پروفیسر ایمریٹس (اسلامک اسٹڈیز) ہیں۔)
[email protected]

 

 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS
Previous articleانتہاپسند عناصر اور اسرائیل کی نئیصف بندی
Next articleمحمد حنیف خان: فنون لطیفہ کو کہیں لطیفہ نہ بنادیں میرے جذبات
Akhtarul Wasey (born September 1, 1951) is the president of Maulana Azad University, Jodhpur, India, and a former professor of Islamic Studies. He taught at Jamia Millia Islamia (Central University) in New Delhi, where he remains professor emeritus in the Department of Islamic Studies. Early life and education: Wasey was born on September 1, 1951, in Aligarh, Uttar Pradesh to Hairat bin Wahid and Shahida Hairat. He is the oldest of six children. Wasey attended Primary School No. 16, the City High School of Aligarh Muslim University, and Aligarh Muslim University where he earned a Bachelor of Arts (Hons.) in Islamic studies in 1971, a Bachelor of Theology in 1975, a Master of Theology in 1976, and an Master of Arts in Islamic studies in 1977. He also completed a short-term course in the Turkish language from Istanbul University in 1983. Career: On August 1, 1980 he joined Jamia Millia Islamia, Delhi as lecturer and worked there till 31 August 2016.Wasey was a lecturer, reader and professor at Jamia Milia Islamia University in New Delhi from 1980-2016, serving as the director of Zakir Husain Institute of Islamic Studies and later becoming head of the Department of Islamic Studies and Dean of the Faculty of Humanities and Languages. He is currently the president of Maulana Azad University in Jodhpur and remains a Professor Emeritus in the Department of Islamic Studies at Jamia Millia Islamia. In March 2014, Wasey was appointed by Indian President Shri Pranab Mukherjee to a three-year term as Commissioner for Linguistic Minorities in India, and became the first Urdu-speaking commissioner since 1957. Wasey is the editor of four Islamic journals: Islam Aur Asr-e-Jadeed; Islam and the Modern Age; Risala Jamia; and Islam Aur Adhunik Yug. Awards and honors: 1985 Award from Urdu Academy, Delhi and UP Urdu Academy on "Sir Syed Ki Taleemi Tehreek" 1996 Maulana Mohammad Ali Jauhar Award 2008 Fulbright Fellowship 2013 Padma Shri award from President Pranab Mukherjee of India 2014 Makhdoom Quli Medal from the President of Turkmenistan 2014 Daktur-e-Adab from Jamia Urdu, Aligarh