لغو چیز پر ان کا گزر ہوتا ہے تو…

0

عمیر کوٹی ندوی
خـرافـات، لغویات،بیہودگی چاہے زبان سے کی جائے، دل دماغ میں کوندے،عمل وکردار سے ظاہر ہواپنے آپ میں بری ہی ہوتی ہے۔ پھر چاہے ’مفاد‘ اسے گلے لگائے یا اس کے ذریعہ سے نقصان پہنچانے کی منصوبہ بندی کی جائے۔ چاہے طاقتور اس کے ذریعہ سے دوسروں کو کمتر جتانے یا کوئی اور اس کے سہارے کسی کو ذلیل کرنے کی کوشش کرے۔ اس وقت کا المیہ یہ ہے کہ ہر طرف اسی کا دور دورہ ہے۔ چاہیں تو چاروں طرف نظر اٹھاکر دیکھ لیں۔ ملک کے کسی بھی کونے میں جہاں کہیں چند لوگ جمع ہوں وہاں سے گزر جائیے شاید ہی کبھی ایسا ہو کہ کوئی لغو بات سننے اور دیکھنے کو نہ ملے۔ چھوٹے چھوٹے بچے ان لغویات کو دیکھ کر ان سے متاثر ہورہے ہیں۔ ان کے ذہن ودماغ ان سے پراگندہ ہو رہے ہیں۔ ان کو اپنا رہے ہیں، اپنی زبان سے انہیں ادا کر رہے ہیں۔ گلی کوچے، سڑک چوراہے، گھر دکان، اسکول، کالج اور کھیل کے میدان ہر جگہ ہرکہیں اس کے مناظر آسانی کے ساتھ دکھ جاتے ہیں۔ خرافات اور لغویات کا چلن سماج کو بہت زیادہ نقصان پہنچا رہا ہے۔ اس کی وجہ سے نت نئے جرائم پنپ رہے ہیں۔ طرح طرح کی برائیاں عام ہو رہی ہیں۔
اس صورت حال نے ویسے تو زندگی کے تمام شعبوں کو متاثر کیا ہے لیکن خاص طور پر خواتین اور ان میں بھی بچیوں کے لئے تو انتہائی تکلیف دہ صورت حال ہو جاتی ہے جب انہیں نہ چاہتے ہوئے بھی وہ سب دیکھنا اور سننا پڑتا ہے جس سے ان کی نگاہیں شرم سے جھک جاتی ہیں۔ ان کے ساتھ چل رہے گھر والے بھی عجب نفسیاتی کیفیت سے دوچار ہوتے ہیں اور اکثر اوقات اپنی بچیوں سے نظریں ملانا تک ان کے لئے آسان نہیں ہوتا ہے۔ پر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سماج اب ان سب کا عادی ہو چکا ہے اور اسے اب اس سے فرق نہیں پڑ رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لغویات کا دائرہ لگا تار بڑھتا جارہا ہے۔ وہ بے شرمی کی انتہا کو پہنچتا ہوا دکھ رہا ہے۔ پہلے لغویات سے واسطہ رکھنے والے چاہتے تھے کہ انہیں کوئی دیکھ نہ لے، پھر گلی محلے اور جان پہچان کے لوگوں سے ہی چھپا جانے لگا اور اب تو گھر والوں میں سے بھی بہت سے ان میں شریک یا رازدار ہوتے ہیں، نہیں تو کم از کم ان پر سب کچھ عیاں ضرور ہوتا ہے۔ یہ صورت حال لغویات کے انتشار اور اس سے ہونے والی سماج کی تباہی کو بیان کرتی ہے۔
لغویات کے اس قدر عام ہونے اور پھیلنے کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ اس کو صنعت کے طور پر استعمال کیا جانے لگا ہے۔ اس وجہ سے دنیا کے کاروبار کا بڑا حصہ اسی کے ارد گرد گھوم رہا ہے۔ کاروباری دنیا نے زیادہ سے زیادہ نفع کمانے کی ہوڑ میں جائز ناجائز تو دور اچھے اور برے کی تمیز بھی کھو دی ہے۔ کاروباری لوگوں کی طرف سے لغویات کے دلدادہ لوگوں کی بھرپور مدد کی جاتی ہے۔ انہیں اس بات کی شہ دی جاتی ہے کہ جب بھی لغویات کے خلاف آواز بلند ہو، کہیں سے کوئی اس پر بات کرے، کسی برائی اور غلط روش کو برا کہے تو اسے تنقید کا نشانہ بنایا جائے۔ برائیوں کی بنیاد کی طرف انگلی اٹھانے اور حق بات کہنے کی کوشش کرنے والوں کے خلاف سخت ردعمل کا اظہار کیا جاتا ہے، ان کے خلاف تیز وتند طوفان بدتمیزی بلند ہوتا ہے۔ سماج میں اس کی ایک نہیں بے شمار مثالیں موجود ہیں۔ ان سے مجبور ہوکر بہت سے سچ بولنے والوں نے خاموشی اختیار کی ہے، اپنی بات واپس لی ہے اور کئی بار تو معافی مانگی ہے۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جو کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔
ایک شریف، عزت دار، غیرت مند اور مہذب آدمی کے لئے یہ صورت حال یقیناً انتہائی تکلیف دہ ہے۔ وہ اسے اچھا نہیں سمجھتا ہے اور نہ ہی اسے قبول کرتا ہے۔ لیکن اس کے خلاف بولنے کی جگہ خود اس کے اپنے بھی اسے چپی سادھنے کا مشورہ دیتے ہیں اور ایسا نہ کرنے پر برا بھلا کہتے ہیں۔ اس وقت شریف النفس آدمی کے سامنے لازماً یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ اس روش پر کیا کرے، اسے ناپسند کرتے ہوئے اس پر خاموش رہے یا اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کرے۔ اس وقت ہمارے سماج میں یہ کشمکش پائی جارہی ہے اور اسے ہرجگہ دیکھا اور ہر وقت محسوس کیا جاسکتا ہے۔ انسانوں کو پیدا کرنے والے اور پوری کائنات کو بنانے والے اللہ نے لغویات کے تعلق سے کیا رویہ اختیار کرنا ہے اس کی پوری رہنمائی کی ہے۔ سب سے پہلے ضروری ہے کہ سمجھدار آدمی اپنے آپ کو ان برائیوں سے بچائے۔ ایسا کرنے والوں سے اللہ نے اپنے پیار کا اظہار کیا ہے اور انہیں رحمن کے بندے بتاتے ہوئے کہا ہے کہ’’جب کسی بیہودہ بات کے پاس سے ان کا گزر ہوتا ہے تو شرافت سے، اپنی عزت سنبھالتے ہوئے گزر جاتے ہیں‘‘(الفرقان:72)۔
شریف اور سمجھ دار آدمی کی خوبی یہ ہے کہ جب وہ کہیں لغو اور باطل کام کو ہوتا ہوا دیکھے اور پائے کہ لوگ اس میں لگے ہوئے ہیں تو وہ ان کے پاس سے اپنی عزت سنبھالتے ہوئے گزر جائے۔اپنے آپ کو ان میں ملوث نہ ہونے دے اور ایسی مجلسوں اور جگہوں سے بچے۔ ایسا کرنے والوں کو اللہ نے کامیاب بتایا ہے اور کہا ہے کہ وہ ایمان والے کامیاب ہوگئے ’’ جو لغویات سے منھ موڑ لیتے ہیں‘‘(المومنون: 3)۔ ایک دوسری جگہ بھی اللہ نے ان کی یہ خوبی بیان کی ہے کہ ’’ اور جب بیہودہ بات کان میں پڑتی ہے تو اس سے کنارہ کر لیتے ہیں‘‘(القصص:55)۔ رسول ؐ نے فرمایا ’’آدمی کے اسلام کی خوبی یہ ہے کہ وہ ایسی چیزوں کو چھوڑ دے جو اس سے غیر متعلق ہوں‘‘(ترمذی: 2318)۔ اس کا انعام یہ ملتا ہے کہ اس کو اللہ دنیا میں تو عزت دیتا ہی ہے آخرت میں ایسا بلند مقام حاصل ہوتا جہاں ان کے کان لغویات سے محفوظ رہتے ہیں۔ ’’وہاں کوئی لغو اور جھوٹی بات وہ نہ سنیں گے‘‘(النبا:35)۔ سورہ واقعہ اور غاشیہ میں بھی یہی بات کہی گئی ہے۔
آدمی ایسا نہ کرے تو پھر اس کا کیا انجام ہوتا ہے،اسلام نے اسے بھی بتا دیا ہے۔ اللہ کے رسولؐ نے فرمایا کہ’’بندہ ایک ایسا کلمہ زبان سے نکالتا ہے جو اللہ کی ناراضگی کا باعث ہوتا ہے اسے وہ کوئی اہمیت نہیں دیتا لیکن اس کی وجہ سے وہ جہنم میں چلا جاتا ہے‘‘(بخاری: 6478)۔ ایک دوسری حدیث میں رسولؐ نے فرمایا ’’بندہ ایک بات زبان سے نکالتا ہے اور اس کے متعلق سوچتا نہیں،جس کی وجہ سے وہ دوزخ کے گڑھے میں دور گر پڑتا ہے ‘‘(بخاری: 6477)۔ ایمان والوں کی ذمہ داری خود کو بچانے کے ساتھ ساتھ دوسروں کو بچانے کی بھی ہے۔ گھر، قریبی رشتہ دار سے ہوتے ہوئے تمام رشتہ دار، محلہ، پڑوس، بستی، شہر،علاقہ ، ملک اور پوری دنیا اس کی ذمہ داری میں دی گئی ہے۔ کہا گیا ہے کہ دنیا تو تمہارے لئے بنائی گئی ہے لیکن تمہیں تمام انسانوں کی اصلاح کی ذمہ داری دی گئی ہے ’’ تم بہترین امت ہو جو لوگوں کے لئے پیدا کی گئی ہے کہ تم نیک باتوں کا حکم کرتے ہو اور بری باتوں سے روکتے ہو‘‘(آل عمران:110)۔ اس لئے اہل ایمان کا کام خود کو لغویات سے بچانے کے ساتھ ساتھ دوسروں کو بھی بچانا ہے اور اس پر بھی توجہ دینی ہے کہ جو لوگ لغویات میں لگ گئے ہیں ان کی بھی فکر کرنی ہے۔
([email protected])

 

 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS