یوگیندر یادو
بھارت جوڑو یاترا آخر کار دہلی پہنچ گئی ۔ قومی خطہ راجدھانی میں اس کی آمد قومی سطح پر ایک شعور کو بیدار کرنے والی رہی ہے۔ اگرچہ قومی میڈیا کے بڑے سیکشن نے اس یاترا کو نظرانداز کیا اور بڑی بددلی سے اس کی کامیابی کا اعتراف کیا اور اب جبکہ یہ یاترا ملک کے سیاسی منظرنامے پر دکھائی دینے لگی ہے۔ اس کامیابی کے لیے مودی سرکار نے پھوہڑ پن سے اور غیر دانشمندانہ انداز سے کووڈ کو استعمال کرکے یاترا کو روکنے کی کوشش کی تھی۔
جب آپ اس مقام پر پہنچ گئے ہیں تو آپ کا سامنا سوالوں سے ہوگا۔ یاترا کی کامیابی پر کچھ مبصرین نے تبصرے کیے ہیں ان میں اہم دانشور بھی ہیں۔ اب تک تو بھارت جوڑٰ یاترا کا براہ راست نشر ہورہا تھا اور سرکاری طور پر باقاعدہ بیانات جاری کیے جارہے تھے تو کچھ لوگ اپنے سفر نامے کے طور پر اس یاترا کو پیش کررہے تھے۔ کچھ لوگ گرائونڈ رپورٹس بنا کر پیش کررہے تھے۔ لیکن حال ہی میں کچھ آرٹیکلس اس معاملہ پر بحث کو کسی دوسرے مقام پر لے گئے ہیں۔ کچھ چیزوں پر بحث ہوئی ہے جیسا کہ راہل گاندھی کی ٹی شرٹ ، یاتریوں کے کنٹینر اور کئی مقامات پر یاترا کے روٹ کو لے کر بھی بحث ہوئی ہے لیکن اب یہ پوری بحث اصل چیز کی طرف منتقل ہوگئی ہے۔ قومی سیاست میں اس کا اثر دکھائی دیا ہے ۔ خاص طور پر سیاسی اور نظریاتی سطح پر دکھائی دے رہا ہے۔ وہ استبدادی طاقتوں کے خلاف ہے جو ہماری جمہوریت کو تباہ کرنے کے پر آمادہ ہیں۔
یاتریوں پر ہونے والی نکتہ چینیاں روشنی کے مینار ہیں۔ ہم اس موقع پر پروفیسر سہاس پالیشکر اور بھانو پرتاپ مہتا کے انڈین ایکسپریس میں شائع ہونے والے آرٹیکلس پر توجہ مرکوز کریں گے۔ صرف اس لیے نہیں کہ وہ ایک بڑے قومی اخبار میں شائع ہونے والے بڑے مبصرین کے مضامین ہیں۔ بلکہ اس لیے بھی کہ یہ بھارت جوڑو یاترا پر سب سے سنجیدہ نکتہ چینی ہے جس میں یاترا کے مقاصد کو لے کر شروع کیے گئے نکات شامل ہیں۔ پالیشکر نے اس بابت سیاق وسباق وضع کیے ہیں۔ ’آج کا سب سے اہم معاملہ آئین کو پیش کرنے کا ہے۔ باقی دوسرا ہندوستان کی نئے سرے سے امیج بنانا اور جمہوریت کے نکات کی تشریح کرنا ہے۔‘ میرے خیال میں یہاں پر یہ کہنا مناسب ہوگا ہمیں اس یاترا کا کامیابی کا اندازہ ملک کودرپیش چیلنجز کو مد نظر رکھتے ہوئے کرنا ہوگا۔ ان دنوں میں سے کسی نے بھی یاترا کے مقاصد کو لے کر اطمینان کا اظہار نہیں کیا ہے جبکہ انہوںنے ’’ اس بات کا اقرار کیا ہے کہ یہ سیاسی منظرنامے کو حاصل کرنے کے لیے ایک نئے انداز کی کوشش ہے اور نفرت کی سیاست کے خلاف ایک اہم موقف ہے۔ ‘ ‘ اس کے باوجود پالشیکر نے اشارہ دیا ہے کہ یاترا اپنے مقاصد کو حاصل کرنے میں اس حد تک کامیاب نہیں ہوئی ۔ خاص کر پارٹی کو سرگرم بنانے اور اپنے ملک کے جمہوری نظام کی ازسر نو بازیافت کے معاملہ پر ۔
یاترا میں شریک ہونے والے کچھ یاتری ان جائزوں اور آزادی پر کو اختلاف رائے ظاہر کرسکتے ہیں مثلاً یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ ناقدین اور مبصرین ان حالات کو سمجھنے سے قاصر ہیں جن حالات میں یہ یاترا شروع کی گئی تھی اور جن حالات میں اس یاترا کو شروع کیا جانا تھا ۔ یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ یاترا کی کامیابی کا اندازہ یاترا کے خاتمے کے بعد لگایا جاسکتا ہے۔ بھانو پرتاپ مہتا ان باتوں کو سمجھتے ہیں۔یاترا کے خلاف آنے والے تبصرے اور نکات بے مقصد ہیں۔ بہر حال یاترا ابھی اپنے مقاصد کے حصول تک نہیں پہنچی ہے۔ یقینا اس کا مقصد سری نگر سے آگے تک ہے۔ یعنی ہندوستانی عوام کے ذہنوں اور دلوں تک راستہ بناتا ہے۔ یہ وسط مدتی تجزیے اور جائزے ہمارے عمل کی سمت کو طے کرسکتے ہیں اور ہم کو روشنی دکھاسکتے ہیں۔ کسی بھی بھارت جوڑو یاترا کے یاتری کو یہ بات سمجھنے میں اچھی لگے گی جس کا اشارہ پالیشکر نے کیا ہے۔ انہوںنے کہاہے کہ اس یاترا کے جغرافیائی ، سیاسی اور نظریاتی منظرنامے کو وسیع کیا جائے۔ بھانو پرتاپ مہتا کے تین نکات کو سمجھ کر ان پر غور کرنا ہوگا ۔ نمبر ایک نئی نظریاتی بصیرت پیدا کرنا، سیاسی تحریک حاصل کرنا اور اپوزیشن کے اتحادکا محور بننا۔
اس قسم کی نکتہ چینیاں ہم کو بھارت جوڑو یاترا کے مقاصد کو سمجھنے میں معاون اور مددگار ہوں گی ۔ خاص طور پر سیاسی اور نظریاتی سطح پر اور ہمیں یاترا کے دوسرے مرحلے کی شروعات میں ان نکات پر غور کرنا ہوگا۔
ہمیں اپنا پیغام وسیع تر پیمانے پر پھیلانا ہوگا۔ بھارت جوڑو یاترا کے سامنے سب سے مشکل کام نظریاتی چیلنجز کا مقابلہ کرنا ہے۔ یہ سب سے مشکل کام ہے اور یہی وہ نکتہ ہے جس کا عوام مقابلہ کررہے ہیں۔ میرے خیال میں اس یاترا کی کامیابی کا اثرکانگریس پر ہی نہیں بلکہ پوری اپوزیشن پر پڑے گا۔ یاترا کا سب سے اہم چیلنج نظریاتی ہے اور یہی اس کی کامیابی کا ذریعہ بنے گا ۔ یہ یاترا راشٹر یہ سیوک سنگھ اور بھارتیہ جنتاپارٹی کی نظریاتی اجارہ داری کو چیلنج کررہی ہے ۔ آج کے ماحول میں جبکہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے مخالفین بھی بی جے پی کی ہندتو کی نقل کر رہے ہیں۔ ایسے حالات میں بھارت جوڑو یاترا نے آئینی اقدار کی بات کہی ہے اور سیکولر زم کے موقف پر قائم رہنے کا موقف دہرایا ہے۔ ایک طویل عرصے بعد سیاسی لیڈروں نے سرمایہ داروں کے ایک ٹولے کی بالادستی کے خلاف زبان کھولی ہے۔ اس یاترا میں وہی سب کچھ نہیں کہا جا رہا ہے جو پریس کانفرنسوں میں یا اسٹیج پر بولا جارہا ہے بلکہ کچھ اور امور بھی زیر بحث آرہے ہیں۔ اس میں ایک مذہبی یاترا کی طرح کا ایک کردار نکل کر سامنے آرہا ہے جو تپسیا ہے اور یہی انداز یکجہتی بی جے پی کی نظریاتی اجارہ داری پر اثرانداز ہورہا ہے ۔ اس یاترا میں نئے انداز سے محبت اور اتحاد کے الفاظ آرہے ہیں۔ اسی طریقے سے یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ ہندوستان کسانوں کا ہے، مزدوروںکا ہے اور غریبوں کا ہے۔ اب یہ ممکن ہوسکا ہے کہ ہم نفرت کے خلاف بول سکیں۔ یہ اپنے آپ میں کم بڑی کامیابی نہیں ہے۔
اس بھارت جوڑو یاترا میں اب تک جو بھی مقاصد حاصل کیے گئے ہیں اور ان کو قومی سطح پر منتقل کرنے کا کام ابھی باقی ہے۔ اکثر ایسا ہوتاہے کہ پیغام کے مقابلے میں پیغام بھیجنے والا زیادہ اہم ہوجاتا ہے۔ یہاں یہ بات اس لیے بھی اہم ہوجاتی ہے کہ پیغام بھیجنے والے کو غیر معتبر بنانا بی جے پی کا اہم حربہ تھا تاکہ اس نے جو پیغام بھیجا ہے وہ غرق ہوجائے۔ مگر بھارت جوڑو یاترا نے اب تک وہ مقام حاصل کرلیا ہے جہاں پر پیغام زیادہ دور تک پہنچ جاتا ہے۔ مسئلہ یہ نہیںہے کہ کیا پیغام جارہاہے بلکہ ایک اس پیغام کی ہمہ جہتیت بھی ہے اور اس کے کئی زاویے ہیں جن کی وجہ سے کسی حد تک پیغام کے مقاصد حاصل کرنے میں خاطر خواہ کامیاب نہیں ہوسکی۔ یہ یاترا اپنے مقاصد کو ملک کے وسیع تر میدان میں پہنچانے میں کامیاب ہوئی ہے ۔ حالانکہ میڈیا نے اس کو بالکل نظرانداز کردیا تھا۔
دوسری طرف سیاسی محاذ پر بھی اس یاترا نے کچھ ایسے مقاصد حاصل کرلیے ہیں جو کہ اب تک ناپید تھے۔ اس یاترا کے ذریعہ میدان پر قدم جمائے جاچکے ہیں اور دلچسپ بات یہ ہے کہ عوام باہر نکل کر سڑکوں پر آتے ہیں تو اس سے جمہوریت کی بقا یقینی ہوجاتی ہے۔ بھارت جوڑو یاترا نے کافی حد تک اس کا منظرنامہ دکھا دیاہے۔
مودی کا سب سے زیادہ نوکیلا ہتھیار خراب کردیا گیا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس یاترا کا کانگریس کے مستقبل پر کیا اثر پڑے گا۔ سول سوسائٹی کے یاتریوں کے لیے یہ کوئی بڑا سوال نہیں ہے۔ مگر ہندوستان کا کوئی بھی شہری کانگریس کو لے کر بے فکر نہیں رہ سکتا۔ تاریخ کے اس دو راہے پر ملک کی قسمت کانگریس کی قسمت سے جڑ گئی ہے۔ اس طریقے سے یہ یاترا کافی حد تک اپنے مقاصد میں کامیاب رہی ہے۔ کانگریس کے حامی اور وفادار ووٹروں نے کانگریس میں اپنے اعتماد کو ایک مرتبہ پھر بیدار کیا ہے۔ یہی ورکر اور زمین کے چھوٹے عہدوں پر فائز لیڈر ہیں جو اب مثبت طریقے سے مستقبل کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ پارٹی نے اپنی لیڈر شپ میں اعتماد ظاہر کیا ہے۔ راہل گاندھی نے اپنے اندر خوداعتمادی پیدا کی ہے۔ یہ سب کچھ کانگریس خاندان کے لیے انتہائی اہمیت کی حامل ہے مگر کسی حد تک یہ بات بھی صحیح ہے کہ پارٹی کی انتخابی حیثیت اور کامیابی کو بدلنے کے لیے یہ اتنا کافی نہیں ہے۔ مگر پھر بھی ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ وہ اقدام ہے جس کا طویل مدت سے انتظار ہورہاتھا۔ یہ پہلا ضروری قدم بھی ہے۔
کانگریس کے علاوہ بھی بھارت جوڑو یاترا نے اپنا اثر دکھایا ہے۔ بی جے پی مخالف اور غیر کانگریسی کیمپوں میں بھی اس کے اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ کانگریس نے کچھ نئے دوست بنائے ہیں۔ ہزاروں لوگ جو کہ اس تحریک سے اور یاترا سے جڑے ہیں ۔ وہ کانگریس کے گرد جمع ہونے شروع ہوگئے ہیں۔ راہل گاندھی بطور خاص ا ن کے دل جیتنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ عام لوگوں کے لیے سب سے اہم بات یہ ہے کہ راہل گاندھی کی خود کی ذاتی امیج بہتر ہوئی ہے۔ ان کے اوپر پپو ہونے کا جو اسٹیکر لگا ہوا تھاوہ ہٹ گیا ہے۔ اس طریقے سے ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ مودی کا سب سے بڑا ہتھیار خراب ہوگیا ہے۔ اس کا نہ صرف کانگریس کو بلکہ دیگر اپوزیشن پارٹیوں کو بھی فائدہ ملے گا۔
یقینا یہ ایک شروعات ہے۔ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ کامیاب یاترا انتخابی فائدے کے لیے کوئی گارنٹی نہیں ہے۔ ہمارا پہلا قدم غیر این ڈی اے کی پارٹیاں ہوں گی۔ حالانکہ ہمیں پوری اپوزیشن کوملا کر مہا گٹھ بندھن جس میں پوری اپوزیشن آتی ہے اس کی ضرورت نہیں ہے۔ حالانکہ اس ضرورت کا احساس ظاہر کیا جارہا ہے کہ ہمیں وسیع تر مقاصد حاصل کرنے کے لیے اتحاد درکار ہے۔ ہمارے سامنے ایک بڑا چیلنج اس حمایت کو ووٹرمیں بدلنا ہے۔
بھارت جوڑو یاترا جھوٹ پر کھڑی دیوار میں سوراخ کرنے میں کامیاب رہی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ہمارے ملک کے سامنے ایک نفرت کا بڑا چیلنج بھی تھا۔ اس میں بھی دراڑ آگئی ہے۔ خدا کرے کوئی امید کی کرن دکھائی دے اورخوش شگوار ہوا کا جھونکا آئے۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ اصل کام یاترا کے بعد شروع ہوگا۔ جیسا کہ سبھاش پالیشکر نے ہمیں آگاہ کیا ہے۔ یہ یاترا صرف ایک ایونٹ بن کر نہ رہ جائے بلکہ ایک مہم میں تبدیل ہوجائے۔
مضمون نگار سوراج انڈیا کے صدر اور ابھیان کے بنیادگزار ہیں۔