راہل گاندھی کا ایک تاریخی فیصلہ

0

آصف تنویر تیمی
سب کو معلوم ہے کہ اس دنیا میں بلا محنت اور تگ ودو کے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ انسان کا ٹارگیٹ جتنا بڑا ہوتا ہے محنت بھی اتنی ہی زیادہ کرنی پڑتی ہے۔اس وقت بھارت کی سیاست جس سمت سفر کررہی ہے اس سے سب لوگ واقف ہیں۔برسر اقتدار پارٹی کا ایجنڈا بھی کسی سے مخفی نہیں۔ اس پارٹی کے سیاستداں بڑے فخر سے اپنی پارٹی کے عزائم اور مقاصد کا اظہار کرتے اور الیکشن جیت لیتے ہیں۔حالیہ گجرات کا الیکشن اس کی واضح ثبوت ہے، جہاں مودی جی کو بھاری اکثریت حاصل ہوتی۔دو دہائی سے زیادہ سے مودی جی گجرات کی حکومت پر براجمان ہیں۔ہندوستان میں اس وقت جو سیاست ہورہی ہے وہ سیاست دنیا میں کہیں نہیں ہوتی اور دنیا کی کسی یونیورسٹی میں پڑھائی بھی نہیں جاتی ۔ ہندوستان کا موجودہ سیاسی کھیل ایک معمہ ہے نہ سمجھنے کا نہ سمجھانے کا۔گاندھی،نہرو اور آزاد جیسی سیاسی اور قومی سوچ رکھنے والے اب اس ہندوستان میں بہت کم لوگ ہیں۔ہندوستان کی موجودہ صورت حال کو دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ آئندہ بھی کچھ سالوں تک برسراقتدار پارٹی کا سیاسی کھیل جاری رہے گا۔جب تک بھارت کے نوے فیصد لوگ اس کھیل سے پورے طور پر واقف نہیں ہوجاتے اور ان کے پیٹ اور جیب تک اس کھیل کا اثر نہیں ہوتا اس وقت تک یہ کھیل ختم ہونے والا نہیں ہے۔
ہندوستان کے بہت سارے ذہین لوگوں کے ساتھ مسٹر راہل گاندھی بھی اس پورے کھیل کو سمجھ رہے ہیں۔بس دوسرے لوگوں اور راہل جی میں فرق یہ ہے کہ بھارتیوں کی مسیحائی کے لئے قبل از وقت وہ اپنے حصار سے نکل کھڑے ہوئے ہیں۔ جبکہ ان جیسے دوسرے لوگ خاموش اس بات کے منتظر ہیں کہ پانی جب سر سے اونچا ہوجائے گا تو خود لوگ ہوش میں آئیں گے اور اپنی غلطی کو محسوس کریں گے۔ابھی تو پکوان(گیس، پٹرول،ڈیزل اور خوردنی تیل کی قیمت آسمان پر ہے) میں ہی کمی ہوئی ہے اور بھی چیزوں میں کمی ہونی باقی ہے۔
راہل جی کو آنے والے کل کا بہترین منصوبہ ساز کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ان کو معلوم ہے کہ جس راستہ کو انہوں نے چناہے وہ کٹھن ضرور ہے مگر اس پر چل کر منزل تک پہنچا جاسکتا ہے۔لوگ مختلف قسم کا جام نوش کر اگرچہ گہری نیند میں ہیں مگر انہیں جگایا ضرور جاسکتا ہے۔بہت دیر تک ان کے لئے نیند کے آغوش میں رہنا ٹھیک نہیں ہے۔ راہل جی نے کنیا کماری سے لوگوں کو جگانا شروع کیا ہے، جگاتے جگاتے لال قلعہ کی فصیل تک پہنچ چکے ہیں۔لال قلعہ کے فصیل سے جو انہوں نے تقریر کی اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہ اپنی یاترا اور اپنے عزائم کے تئیں کتنے سنجیدہ ہیں۔انہوں نے ہندوستان کے موجودہ حالات کے لئے جتنا قصوروار سیاسی جماعتوں کو ٹھہرایا اتنا ملک کے نیشنل میڈیا کو بھی۔میڈیا کا سہارا لیکر سادہ لوح ہندوستانیوں کی توجہ کو ملک کے اصل ایشوز سے ہٹایا جاتا اور ان کے جیب پر حملہ کیا جاتا ہے۔انہوں نے اپنی تقریر میں اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ اگر میڈیا کا ساتھ انہیں مل جائے تو ان کی یاترا کم وقتوں میں ثمر آور ہوسکتی ہے۔نیشنل میڈیا کے اوپر راہل گاندھی جی کی اپیل کا کتنا اثر ہوگا یہ تو آنے والا وقت ہی بتلائے گا۔راہل گاندھی نے 2004 میں اپنے سیاسی کیریئر کا آغاز کیا۔سیاست انہیں وراثت میں ملی۔اگر چاہتے تو اس وراثت کو ترک کرکے دنیا کے کسی بھی گوشہ میں پر تعیش زندگی گزار سکتے تھے۔مگر کچھ سوچ کر انہوں نے سیاست کے اکھاڑے میں قدم ڈالا ہے۔اور مسلسل کامیابی کی طرف سفر کررہے ہیں۔مشکلات سے کسے گزرنا نہیں ہوتا مگر اصل کامیاب وہ ہے جو مشکلات سے گھبرائے بغیر اپنے مقصد کی اور قدم بڑھاتا رہے،اور یہی کام اس وقت راہل جی کر رہے ہیں،اور ان کی یہ حکمت عملی قابل ستائش ہے۔
ان کے مخالفین بھی اب ماننے لگے ہیں کہ راہل جی بہت اہم مشن پر ہیں۔وہ صرف عارضی کامیابی نہیں بلکہ دائمی کامیابی کے طلبگار ہیں۔ان کی یاترا کی گونج صرف کان تک نہیں بلکہ دل ودماغ تک ہے۔ان کا ایک ایک قدم آنے والے دنوں میں حریفوں پر بھاری پڑنے والا ہے۔ 104 دنوں کی یاترا دہلی تک مکمل ہوچکی ہے،اب دہلی سے کشمیر تک راہل گاندھی کو سفر کرنا ہے۔اب تک جتنی ریاستوں سے ان کا قافلہ گزرا ہے عوام وخواص کی طرف سے بڑی مقبولیت ملی ہے۔ سماج کے ہر طبقہ کا انہیں سپورٹ حاصل ہے۔
[email protected]

 

 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS