حضرت سلیمان علیہ السلام کی سرزمین کہے جانے والے افریقہ کے ملک ایتھوپیا میں چند ماہ قبل 2؍نومبرکو ہونے والے جنگ بندی معاہدے کی عمل آ وری شروع ہوگئی ہے اورمرکزی سرکار نے اپنے اہلکاروںکو تگرے میں روانہ کرکے وہاں امن سمجھوتہ کے اطلاق کی سرگرمی شروع کردی ہے۔ خیال رہے کہ گزشتہ دو سال میں تگرے میں علیحدگی پسند پرتشدد تحریک چل رہی ہے تھی جس میں ہزاروں لوگ جان کھو چکے ہیں۔ عالمی برادری اور افریقی یونین کی ایما پر ایک قیام امن کے لئے کوششیں کی گئی تھیں۔ جس کے تحت جنوبی افریقہ کی راجدھانی میں ایک مصالحت عمل میں آئی تھی۔ اس مصالحتی فارمولہ کے ذریعہ تگرے میں وزیراعظم ابی احمد کی قیادت والی سرکارنے فلاحی اور رفاحی کام شروع کردیے ہیں۔س فارمولے کے اطلاق کے بعد ایتھوپیا میں غیرملکی اور اقوام متحدہ کی امداد آنے اور اس کی تقسیم کا عمل تیز ہوگیا ہے۔ تگرے میں پرتشدد مزاحمت کو دبانے کے لئے عدس ابابا نے نہ صرف یہ کہ مواصلاتی نظام منجمد کردیا تھا بلکہ اس علاقے میں جانے والی قحط سالی کا مقابلہ کے لئے بنائی گئی فلاحی اور رفاحی اسکیموںکا اطلاق بھی روک دیا تھا۔ جس کی وجہ سے اس پورے خطے میں بڑے پیمانے پر میدان جنگ کے علاوہ بھی بہت ساری فطری و غیرفطری اموات ہوئیں۔ عالمی برادری کی شکایت تھی کہ ابی احمد نے دوسال قبل اقتدارمیں آنے کے بعداس علاقے کونظرانداز کرنا شروع کردیا تھا جبکہ ابی احمدکا کہنا تھا کہ پرتشدداورمسلح مزاحمت علاقے اور ایتھوپیا کی علاقہ سلامتی کے لئے خطرہ تھی جس کودبانا کسی بھی حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ خیال رہے کہ ابی احمد نے دوسال قبل اقتدارمیں آنے کے بعد نہ صرف یہ پڑوسی ملک ایریٹیریا کے ساتھ جنگ بندی ختم کرنے میں کامیابی حاصل کرلی تھی۔ ایریٹیریا طویل مدت سے ایتھوپیا کے ساتھ برسرپیکار تھا۔ اس وقت تو عالمی برادری نے ابی احمد کی اس کامیابی پر خراج تحسین پیش کیا تھا اور دنیا بھر میں ابی احمد کی مصالحانہ اور امن پسندانہ حکمت عملی کو سراہا گیا تھا۔ بین الاقوامی برادری ابی احمد کی قائدانہ صلاحیتوں سے اس قدر متاثر تھی کہ دنیا کا عظیم ترین نوبل انعام برائے امن ابی احمد کو عطا کردیا گیا۔ مگر جب ابی احمد نے تگرے میں تخریبی کارروائیوں میں ملوث تگرے پیوپلس لبریشن فرنٹ (ٹی پی ایل ایف) کے خلاف فوجی کارروائی کی اور قومی افواج نے دہشت گردوں کے ٹھکانوںکو نیست و نابودکیا توعالمی (مغربی ممالک)برادری سکتے میں آگئی۔ ابی احمدکا یہ عمل شاید عالمی برادری کے حلق سے نہ اتر سکا اور ابی احمد کے خلاف امریکہ اور یوروپی ممالک نے پروپیگنڈہ شروع کردیا۔ تگرے میں رفاحی کاموںکو روکنے، انسانی حقوق کی پامالی، مواصلاتی نظام کو موقوف کرنے جیسے الزامات ابی احمد سرکار پر لگے مگر ابی احمد نے 54ممالک کی نمائندگی والی تنظیم افریقی یونین کے ساتھ مل کر اپنے مقاصد کو حاصل کرلیا اور اس سال نومبرکے اوائل میں ایک غیرمعمولی سمجھوتہ عمل میں آیا۔ عالمی سیاست اور افریقہ کی حالت پر نظررکھنے والے ماہرین و مبصرین کی رائے ہے کہ ابی احمد نے اولاً فوجی کارروائی کرکے اپنے حریف کو انتہائی کمزور کردیا اور کمزور کرنے کے بعد مصالحتی میز پر اپنی شرائط پر سمجھوتہ کرائے۔ ا س امن سمجھوتہ کو عمل میں لانے کے لئے جو میکنزم تیار کیا گیا ہے کہ اس کے مطابق ایتھوپیا کے پارلیمنٹ کے اسپیکر تھگسی چافو اس عمل آوری کی نگرانی کریںگے۔ اس معاہدہ کے تحت باغیوں کو غیرمسلح کیا جائے گا، تگرے میں فیڈرل اتھارٹی مقرر کی جائے گی تاکہ وہاں پر مرکزی سرکار کے ادارے اور ایجنسیاں سرگرم ہوجائیں اور مرکز علاقے میں نہ صرف یہ کہ علیحدگی پسند جنگجوئوں سے اسلحہ چھینیں اور ان کو مین اسٹریم میں لائے اور عوام کو راحت پہنچانے کے لئے غذائی اجناس، کیش وغیرہ کی سہولت دے۔ اس پورے علاقے میں دوائوںکی زبردست کمی ہے۔ حالات کے خراب ہونے کی وجہ سے ڈاکٹر اور طبی عملہ وہاں جانے کے لئے تیار نہیں ہے۔ اس دوران کئی اداروں نے الزام لگایا ہے کہ فریقین جنگ بندی کے معاہدوںپر عمل نہیں کر رہے ہیں۔ امریکہ نے بھی الزام لگایا ہے کہ مغربی تگرے میں نسلی تطہیر کی جارہی ہے۔ تگرے ایک وسیع علاقہ ہے جو ایریٹریا کی سرحد سے ملا ہوا ہے اور وہاں تک بجلی، ٹیلی فون لائنوں، انٹرنیٹ اور بینکنگ جیسی سہولیات فراہم کرنا مشکل کام ہے۔ کئی اداروںنے یہ الزام لگایا ہے کہ ایریٹیریا کی حکومت اور دیگر گروپ کی تگرے میں مداخلت برقرار ہے اور ایریٹیریا کی افواج اپنی سرحد سے ملے ہوئے علاقوں میں گھس کر فوجی کارروائیاں ابھی تک انجام دے رہے ہیں جبکہ ایریٹریا کی سرکار اس کی تردید کر رہی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ بین الاقوامی ادارے اقوام متحدہ کی برادری اس پرپیچ وادی میں کس حد تک اور کب تک غیریقینی صورت حال پر قابوکرسکے گی۔ مگرجو موجودہ صورت حال ہے اس میں نہیں لگتا ہے کہ یہ پرپیچ تنازع ا س قدرآسانی سے حل ہوجائے گا کیونکہ امریکہ اور دیگر مغربی ممالک تگرے میں ایتھوپیا اور افریقہ کے مفادات میں کام ہو، اس پر آسانی سے راضی ہوجائیں۔ اس کا امکان کم ہی ہے۔