2023 سیاسی پارٹیوں کیلئے اہمیت کا حامل

0

عارف شجر

آئندہ سال یعنی 2023 میں ہونے والے 9 ریاستوں میں اسمبلی انتخابات اپوزیشن اور بی جے پی کے لئے پریشان کن ہوسکتے ہیں۔ جن ریاستوں میں انتخابات ہونے والے ہیں ان میں میگھالیہ، ناگا لینڈ، ترپورہ، کرناٹک، جموںو کشمیر ، تلنگانہ، راجستھان، چھتیس گڑھ، مدھیہ پردیش اور میزورم شامل ہیں ان ریاستوں میں جو سب سے زیادہ بی جے پی اور کانگریس کے لئے وقار کا مسئلہ بنیںگے اور دونوں کو ان ریاستوں میں اقتدار حاصل کرنا ہے ان میں کرناٹک، مدھیہ پردیش اور راجستھان شامل ہیں۔ ان تین ریاستوں میں سے ایک کانگریس بر سر اقتدار ہے تو وہیں دو ریاستوں پر بی جے پی کا قبضہ ہے، نئے سال 2023 میں سب سے پہلے کرناٹک میں انتخاب ہونے والے ہیں جہاں بی جے پی اقتدار میں ہے اور اس ریاست کو کانگریس ہر حال میں جیتنا چاہے گی کیوں کہ بی جے پی نے کانگریس کے ممبران اسمبلی کو لالچ دے کر یہاں حکومت بنائی تھی۔ قابل ذکر ہے کہ 2018 کے انتخابات میں کرناٹک میں کسی بھی پارٹی کو اکثریت نہیں ملی تھی اور بی جے پی کے بی ایس یدی یورپا نے سی ایم کا عہدہ سنبھالا تھا چونکہ تعداد کی کمی کے وجہ کر انہیں استعفیٰ دینا پڑا تھا اور پھر کانگریس اور جے ڈی ایس اتحاد نے حکومت بنائی لیکن 14 ماہ کے اندر ہی یدیورپا نے دونوں پارٹیوں کے منحرف ایم ایل اے کی مدد سے واپسی کی اور بعد میں انہیں ہٹا بھی دیا گیا اس کے بعد بسوا راج بومائی نے چیف منسٹر کا عہدہ سنبھالا۔ کانگریس نہیں چاہے گی کی دوبارہ یہ غلطی ہو اور بی جے پی ممبران اسمبلی کی خرید فروخت کرکے سرکار بنا لے ، کانگریس نے اب پھونک پھونک کر قدم رکھنا شروع کر دیا ہے کہا یہ جا رہا ہے کہ بھارت جوڑو یاترا کے دوران کانگریس کو کرناٹک میں جس طرح سے لوگوں کی حمایت ملی وہ ریکارڈ ہے بھارت جوڑو یاترا میں کانگریس کے ساتھ لاکھوں لوگوں کے جڑنے پر کانگریس پھولے نہیں سما رہی ہے اسے یہ یقین ہے کہ کرناٹک میں پہلے والی غلطی نہیں ہوگی اور اس بار بھاری اکثریت کے ساتھ اقتدار تک پہنچے گی۔
وہیں دوسری طرف اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ بھارت جوڑو یاترا کے دوران سابق سی ایم سدا رامیا اور ریاستی سربراہ ڈی کے شیوکمار نے متحد چہرہ دکھایا لیکن دونوں کے درمیان رقابت پارٹی کے امکانات کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔ راجستھان بھی کانگریس اعلیٰ کمان کے لئے سر درد بنا ہوا ہے۔ حالانکہ راجستھان میں کانگریس حکومت میں ہے لیکن یہاں وزیراعلیٰ اشوک گہلوت اور سچن پائلٹ کے درمیان رسہ کشی شباب پر ہے یہی وجہ ہے کہ کانگریس کے لئے دونوں قائدین پریشانی کا باعث بن رہے ہیں، بی جے پی سے 2018 میں کانگریس نے سی ایم کی کرسی چھینی تھی اور بڑی جیت درج کرکے سب کو چونکا دیا تھا لیکن جس طرح سے اشوک گہلوت اور سچن پائلٹ میں ٹکرائو ہے، اس سے کانگریس کو سب سے پہلے نمٹنا ہوگا۔
2023 میں جموں و کشمیر کے مرکز کے زیر انتظام علاقے میں بھی انتخابات ہو سکتے ہیں، حالانکہ یہ بتانا مشکل ہے کہ کس مہینے میں۔ اگست 2019 میں، ریاست سے آرٹیکل 370 کی بیشتر دفعات کو منسوخ کرنے کے بعد لداخ کو جموں اور کشمیر سے الگ کر دیا گیا تھا اور دونوں کو مرکز کے زیر انتظام علاقہ قرار دیا گیا تھا۔ جموں و کشمیر میں 2019 سے صدر راج نافذ ہے اور حکومت لیفٹیننٹ گورنر چلا رہے ہیں۔ 2023 میں جموں و کشمیر میں اسمبلی انتخابات بھی ہو سکتے ہیں۔یہاں اگر اپوزیشن پارٹیاں یہاں متحد نہیں ہوتی ہیں تو یہ ایک اور مرکز کے زیر انتظام علاقہ ہو سکتا ہے جہاں بی جے پی اقتدار حاصل کر سکتی ہے۔اگر جموں و کشمیر میں انتخابات ہوتے ہیں، تو 5 اگست 2019 کو، اسے مرکزکے زیرانتظام علاقے میں تبدیل کرنے، اسے دو حصوں میں تقسیم کرنے، آرٹیکل 370 کو منسوخ کرنے کے بعد یہ وہاں پہلا انتخاب ہوگا۔ ایسے میں عوام کاردعمل کیا ہوگا، اس پر سب کی نظر رہے گی۔ اب تک بی جے پی یہ دعویٰ کرتی رہی ہے کہ اس فیصلے کو جموں و کشمیر کے عوام کی رضامندی حاصل ہے، جب کہ اپوزیشن جماعتیں اسے ریاست کے عوام کی مرضی کے خلاف لیا گیا فیصلہ قرار دے رہی ہیں۔ جموں و کشمیر میں اسمبلی حلقوں کی حد بندی نئے سرے سے کی گئی ہے۔ اپوزیشن پارٹیوں کا الزام ہے کہ بی جے پی نے یہ حد بندی اپنے فائدے کے مطابق کی ہے۔
مدھیہ پردیش میں بھی کانگریس نے 2018 کے اسمبلی انتخابات کے دوران بی جے پی کی مسلسل طاقت کو جھٹکا دیا تھا۔ اس وقت کے وزیر اعلی شیوراج سنگھ چوہان کا لگاتار تیسری بار تخت حاصل کرنے کا خواب بھی چکنا چور ہو گیا تھا۔ کانگریس نے 230 رکنی اسمبلی میں 114 نشستیں حاصل کی تھیں۔ اس کے بعد ہائی کمان نے مرکز سے کانگریس قائد کمل ناتھ کو وزیر اعلی کے طور پر ریاست بھیجا۔ کمل ناتھ نے 17 دسمبر 2018 کو سماج وادی پارٹی کے 1 ایم ایل اے، بہوجن سماج پارٹی کے 2 ایم ایل اے اور 4 آزاد امیدواروں کی حمایت سے حکومت بنائی۔تاہم، انہیں ‘پیراشوٹ سی ایم’ کے طور پر کھڑا کرنا مقامی طور پر سرگرم جیوترادتیہ سندھیا کے ساتھ اچھا نہیں رہا، جس کی وجہ سے وہ اپنے 22 حمایتی ایم ایل ایز کے ساتھ بی جے پی میں شامل ہوگئے۔ سال 2020 میں، مدھیہ پردیش میں اس سیاسی بحران کے بعد ، کانگریس کی حکومت گر گئی اور شیوراج سنگھ چوہان 23 مارچ 2020 کو دوبارہ وزیر اعلیٰ بن گئے۔
چھتیس گڑھ میں کانگریس کی حکومت ہے۔ یہاں بھوپیش بگھیل وزیر اعلیٰ کی کرسی پر فائز ہیں۔ اگلے سال یہاں اسمبلی انتخابات بھی ہونے والے ہیں۔ چھتیس گڑھ میں کل 90 اسمبلی سیٹیں ہیں۔ قیاس آرائیاں کی جارہی ہیں کہ یہاں بی جے پی مودی کے نام پر الیکشن لڑے گی۔ وزیراعلیٰ کا فیصلہ فتح کے بعد ہو گا۔بی جے پی ذرائع نے بتایا کہ چھتیس گڑھ میں نومبر-دسمبر 2023 میں اسمبلی انتخابات کی تجویز ہے۔ گزشتہ انتخابات کے تلخ تجربات کے پیش نظر مرکزی قیادت پہلے ہی انتخابی موڈ میں ہے۔ پارٹی نے تمام ممبران پارلیمنٹ اور ایم ایل اے کو کمزور بوتھوں کو مضبوط کرنے کی ہدایت دی ہے۔ اس کی رپورٹ ہر ماہ ریاستی بی جے پی کے دفتر کو دی جائے گی۔ اس کے بعد ریاستی صدر اس کا جائزہ لیں گے۔ یہ رپورٹ مرکزی قیادت اور یونین رہنماؤں کے حوالے بھی کی جائے گی۔
بہر حال !کانگریس کے لیے 2024 کے لوک سبھا انتخابات سے قبل ان دونوں ریاستوں میں حکومت کو برقرار رکھنا ایک بڑا چیلنج ہے، وہیںکانگریس کو شکست دے کر بی جے پی بھی 2024 کے لوک سبھا انتخابات سے پہلے ملک کے عوام کو یہ سیاسی پیغام دینا چاہتی ہے کہ یہ دونوں ریاستیں اپنی مطابقت کو ختم کر چکی ہیں۔ان دس ریاستوں میں کرناٹک اور مدھیہ پردیش بھی شامل ہیں، جہاں اس وقت بی جے پی کی حکومت ہے، لیکن ان دونوں ریاستوں میں 2018 میں ہونے والے آخری اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کو دھچکا لگا تھا۔ 2018 کی طرح، بی جے پی کرناٹک اور مدھیہ پردیش دونوں ریاستوں میں اکثریت حاصل کرنے سے محروم نہیں رہنا چاہتی، اس لیے پارٹی نے ان دونوں ریاستوں میں پہلے سے انتخابی تیاری شروع کر دی ہے۔ یہ واضح ہے کہ 2023میں بی جے پی اور کانگریس کے بیچ براہ راست مقابلہ ہوگا لیکن اس کا انحصار اس بات پر ہوگا کہ پارٹیاں انتخابات تک کیسے پہنچتی ہیں منقسم یا متحد، ریاستوںکی حکومتوں کو نہ دہرانے کی تاریخ رہی ہے اور اس روایت کو توڑنے کی ذمہ داری کانگریس پر ہے۔
[email protected]

 

 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS