طالبان پھر اپنی پرانی روش پر

0

صبیح احمد

گزشتہ سال کے وسط (15 اگست 2021) میں راجدھانی کابل پر طالبان کے قبضہ اور پھر افغانستان پر طالبان حکومت کے مضبوط ہونے کے بعد گزشتہ 20 برسوں کے دوران خواتین اور نو عمر لڑکیوں کے ذریعہ حاصل کردہ آزادی کے ختم ہونے کے حوالے سے ایک بار پھر شدید تشویش پیدا ہوگئی ہے۔ طالبان رہنمائوں نے اس بار شروع ہی میں وعدہ کیا تھا کہ اسلامی تعلیمات کے مطابق خواتین کے کام کاج کرنے اور تعلیم حاصل کرنے کے ان کے حقوق کا احترام کیا جائے گا۔ لیکن افغانستان پر اپنی گرفت پھر سے مضبوط کرنے کے بعد گزشتہ کچھ مہینوں کے دوران طالبان حکومت کی سرگرمیاں واضح طور پر اس بات کا اشارہ دے رہی ہیں کہ جہاں تک خواتین کے حقوق اور آزادی کا سوال ہے، یہ سخت گیر گروپ اپنی پرانی روش پرقائمہے۔ خواتین کے حوالے سے اب نئے نئے فرمان جاری کیے جا رہے ہیں۔ تازہ ترین فرمان میں طالبان نے ملک میں مقامی اور بین الاقوامی غیر سرکاری تنظیموں(این جی او) کوکام پر آنے والی خواتین پر آئندہ احکامات تک پابندی عائد کرنے کا حکم جاری کیا ہے۔ حکم نامہ میں یہ انتباہ بھی دیا گیا ہے کہ جو تنظیمیں اس حکم پر عمل درآمد نہیں کریں گی، ان کے ورک پرمٹ معطل کر دیے جائیں گے۔ طالبان کے خواتین کے خلاف جاری کریک ڈاؤن میں متعلقہ وزارت کا کہنا ہے کہ کچھ تنظیمیں خواتین کے لیے لازمی حجاب اور ڈریس کوڈ پر عمل درآمد نہیں کر رہیں جیسا کہ طالبان کی طرف سے ہدایات جاری کی گئی تھیں۔ اس سے قبل گزشتہ ہفتہ ہی لڑکیوں کے ذریعہ یونیورسٹیوں میں اعلیٰ تعلیم کے حصول پر بھی پابندی عائد کردی گئی تھی۔ طالبان نے نجی اور سرکاری یونیورسٹیوں کے داخلی راستوں پر اضافی سیکورٹی فورس تعینات کردی ہے تاکہ پابندی کے باوجود یونیورسٹیز میں داخلے کی کوشش کرنے والی طالبات کو روکا جا سکے۔ طالبان کے ان فیصلوں پر اقوام متحدہ سمیت دنیا کے مختلف ممالک، خاص طور پر سعودی عرب سمیت کئی مسلم ممالک اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے بھی گہری تشویش ظاہر کی ہے اور ان پابندیوں کو انسانی حقوق کے اصولوں کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔
بہرحال 16ماہ قبل اقتدار میں آنے کے بعد طالبان بتد ریج افغانستان میں خواتین کی تعلیم اور ان کی آزادی کے خلاف اپنے سخت گیرموقف پر واپس آ گئے ہیں۔ طالبان کا استدلال ہے کہ یہ فیصلے اسلام کی ’ان کی تشریح کے مطابق‘ ہیں جبکہ افغانستان دنیا کا واحد مسلم ملک ہے جو لڑکیوں کے تعلیم حاصل کرنے سے انکار کرتا ہے۔ حالانکہ کابل پر قابض ہونے کے بعد طالبان نے عالمی برادری سے وعدہ کیا تھا کہ وہ خواتین اور اقلیتوں کے حقوق پر کوئی قدغن نہیں لگائیں گے اور توقع کی جا رہی تھی کہ اپنے سابقہ تجربات کی بنیاد پر طالبان خصوصاً لڑکیوں کی تعلیم اور عموماً خواتین کے حوالے سے اس بار اپنی پرانی غلطیوں کو نہیں دہرائیں گے لیکن خواتین اور سماج کے کمزور طبقات مسلسل ان کی سخت گیر سوچ اور نظریات کا ہدف بن رہے ہیں۔ طالبان 15 اگست 2021 کو کابل میں امریکہ کے زیر قیادت غیر ملکی فوجیوں کے افراتفری پر مبنی انخلا کے دوران اقتدار میں واپس آئے جس سے 20 سالہ جنگ کا خاتمہ ہوا اور صدر اشرف غنی کی مغرب کی حمایت یافتہ حکومت اپنے انجام کو پہنچی۔ سخت گیر اسلام پسند گروپ نے 1996 سے 2001 کے اپنے اقتدار کے پہلے دور کے مقابلے نرم ضوابط کے ساتھ حکمرانی کا وعدہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ خواتین سمیت افغان عوام کے انسانی حقوق کی پاسداری کریں گے۔ ستمبر 2021 میں طالبان کی وزارت تعلیم کے ترجمان عزیز احمد رایان نے بتایا تھا کہ علما کو ’ذمہ داری‘ دی گئی ہے کہ وہ لڑکیوں کی ثانوی تعلیم کے معاملے پر اتفاق رائے تک پہنچیں۔ طالبان نے 12 ستمبر کو اعلان کیا کہ خواتین صنفی لحاظ سے الگ الگ داخلے اور کلاس رومز کے ساتھ یونیورسٹیوں میں جاسکتی ہیں، لیکن انہیں صرف خاتون یا معمر مردپروفیسر ہی پڑھا سکتے ہیں۔ 23 مارچ 2022 کوجب لڑکیوں کے سیکنڈری اسکول دوبارہ کھلنے والے تھے، طالبان نے اس ہدایت کو واپس لے لیا اور لاکھوں نوعمرلڑکیوں کو اسکول آنے سے روک کرانہیں گھروں میں رہنے کا حکم دے دیا گیا۔ طالبان کے سپریم لیڈر ہیبت اللہ اخوندزادہ نے 7 مئی 2022کو خواتین کو عوامی مقامات پر اپنے چہروں سمیت خود کو مکمل طور پر ڈھانپنے اور عام طور پر گھر میں رہنے کا حکم دیا۔ خواتین سے یہ بھی کہا گیا کہ وہ محرم مرد کے بغیر شہر کے باہر سفر نہ کریں۔ طالبان جنگجوؤں نے 13 اگست 2022 کو کابل میں وزارت تعلیم کے باہر ہونے والے مظاہرے کو منتشر کرنے کے لیے ’روٹی، کام اور آزادی‘ کے نعرے لگانے والی خاتون مظاہرین کو مارا پیٹا اور ہوا ئی فائر کیے۔ احتجاج کی کوریج کرنے والے صحافیوں کو بھی حراست میں لیا گیا اور انہیں زد و کوب کیا گیا۔ نومبر 2022 میں خواتین کے پارکوں، تفریحی مقامات، میلوں اور عوامی حماموں میں جانے پر پابندی عائد کر دی گئی۔ مسلح محافظوں نے 21 دسمبر 2022 کو سیکڑوں نوجوان خواتین کو یونیورسٹی کے کیمپس میں داخل ہونے سے اس وقت روک دیاجب وزیر تعلیم کی جانب سے ’خواتین کی تعلیم کو اگلے نوٹس تک معطل کرنے‘ کے حکم کا اعلان کیا گیا۔
افغانستان میں طالبان حکومت کی جانب سے خواتین کے لیے یونیورسٹیز کے دروازے بند کرنے پر انہیں عالمی سطح پر بھی شدید تنقید کا سامنا ہے۔ یہاں تک کہ اسلامی ممالک نے بھی لڑکیوں کی تعلیم کے حوالے سے طالبان کے فیصلے کو قابل مذمت قرار دیا ہے۔ سعودی عرب نے اپنے ردعمل میں اس فیصلے کو واپس لینے کی اپیل کرتے ہوئے کہا ہے کہ طالبان کا یہ قدم اسلامی ممالک کے لیے حیران کن ہے۔ اس فیصلہ کو افغانستان کی خواتین کے حقوق کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے اس بات کی یاد دہانی کرائی ہے کہ خواتین کو تعلیم کا حق حاصل ہے جو سیکورٹی، استحکام اور ترقی میں اہم خدمات انجام دیتی ہیں۔ ترکی نے طالبان کے ان اقدام کو اسلام کے جذبے کے خلاف قرار دیتے ہوئے زور دیا ہے کہ اس کی مذہب میں کوئی جگہ نہیں ہے۔ قطر نے ان فیصلوں پر تشویش اور مایوسی کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ اس طرح کے اقدام سے انسانی حقوق، ترقی اور معیشت پر کافی اثر پڑے گا۔ واضح رہے کہ قطر وہ ملک ہے جس نے افغان طالبان کو اپنے دارالحکومت دوحہ میں اپنا سیاسی دفتر قائم کرنے کی اجازت دی تھی اور طالبان اور امریکہ کے درمیان معاہدہ کرایا تھا۔ پاکستان نے طالبان پر خواتین کو یونیورسٹیوں میں جانے سے روکنے کے فیصلے پر نظر ثانی کرنے پر زور دیا ہے۔ اس کے علاوہ امریکہ، برطانیہ، اقوام متحدہ، انسانی حقوق کی تنظیمیںایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹس واچ نے بھی لڑکیوں کی تعلیم کے حوالے سے طالبان حکمرانوں کو خبردار اور متنبہ کیا ہے۔ مگر طالبان حسب سابق اپنے فیصلوں پر اٹل ہیں۔ اکیسویں صدی میں کسی بھی ملک کی اہم ترین آدھی آبادی یعنی خواتین اگر تعلیم جیسے بنیادی حق سے محروم کر دی جائیں گی تو اس ملک کا کیا حشر ہوگا، یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔ طالبان ہیں کہ انہیں دنیا میں کسی کی کوئی پروا ہے نہ فکر۔ افغان عوام کو اپنے مستقبل کا فیصلہ اب خود ہی کرنا ہوگا۔
[email protected]

 

 

 

 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS