بلقیس بانو: انصاف ملنے کی امید ابھی باقی ہے

0

پروفیسرعتیق احمدفاروقی
عدالت عظمیٰ نے بلقیس بانو کی اُس عرضی کو خارج کردیاجس میں متاثرہ نے اس کے مئی 2022ء کے اس حکم کی نظرثانی کی درخواست کی تھی جس میں کہاگیاتھا کہ گجرات حکومت کو بلقیس بانو کے مجرمین کی رہائی کی درخواستوں پرغورکرنے کا اختیار ہے۔ یقینا اس سے ہرروشن خیال ،حساس اوردانشور شہری کو صدمہ پہنچاہے کیونکہ اس سے قصورواروں کے واپس جیل جانے کی امید کم ہوگئی ہے۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ ہماراذرائع ابلاغ میں اس واقعہ کاکوئی رد عمل نہ پرنٹ میڈیا میں اورنہ الیکٹرانک میڈیا میں کسی مضامین یا مراسلات یا بحث کی شکل میں سامنے آیاہے۔ اگست 2022 میں ہم لوگوں نے آزادی کاامرت مہوتسو منایاہے اوراس موقع پر ہمارے وزیراعظم نریندرمودی جی نے لال قلعہ کی فصیل سے خواتین کی عزت وعصمت اوروقار کی بحالی کا عہد کیاتھا اورعوام سے اپیل کی تھی کہ ایسا کچھ نہ کرنے کا عہدکریں جس سے خواتین کا وقار مجروح ہوتاہو ۔ اس معاملے کی پچھلی سماعت سے یہ بھی انکشاف ہواتھا کہ مجرمین کی رہائی پرغورکرنے کیلئے جوکمیٹی تشکیل کی گئی تھی وہ غیرجانبدار نہیں تھی اوراس کے زیادہ تراراکین کاتعلق حکمراں جماعت سے تھا۔دوسرے ،ان لوگوں کی رہائی کیلئے مرکزی وزارت داخلہ نے منظوری بھی دی تھی ۔مہاراشٹرا ہائی کورٹ کے جس جج نے سزاسنائی تھی اس نے بھی ان کی رہائی پراعتراض کیاتھا۔اُن کی رائے سے پہلے مہاراشٹرا کے اس جج سے بھی رہائی لینی چاہیے تھی۔
اس معاملے سے متعلق ایک دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ عدالت عظمیٰ کے دوججوںکی بنچ سے جو ان معاملات کی سماعت کررہی تھیں ایک خاتون جج بیلا-ایم-ترویدی نے خود کوالگ کرلیاتھا۔ اس واقعہ کو بہت خاموشی سے میڈیا نے نظرانداز کردیا ۔ چند اُردو اخباروںکوچھوڑ کر یہ خبر کہیں شائع نہیں ہوئی ۔ ٹی -وی پربھی اس کا کوئی ذکر نہیں ہوا۔ بیلا ترویدی کے بنچ سے نکل جانے کے بعد نئی بنچ جسٹس اجے رستوگی اوروکرم ناتھ پر مشتمل تھی۔ یہاں یہ بھی سوال پیدا ہوتاہے کہ نئی بنچ میں کسی دوسری خاتون جج کو کیوں نہیں رکھاگیا؟بیلاترویدی نے خود کو بنچ سے کیوں الگ کرلیاتھا؟ واضح ہے کہ اُس جج نے اِس معاملے کو ہندو-مسلم آئینہ سے نہیں دیکھاتھا ۔ اُس نے خواتین پر ہورہے مظالم کی شکل میں اِسے دیکھا اوراس لئے وہ اپنے ضمیر کی آواز کو کچلنے کیلئے تیار نہیں تھے۔ اِس واقعہ نے ہندوستان کی خواتین کو دہلادیاہے۔ یہ صحیح ہے کہ اپنے ملک میں خواتین پر مظالم کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے ۔خواتین پر مظالم کی ایک لمبی فہرست ہے۔
یہ بتانا فضول ہے کہ کس جماعت کی حکومت میں خواتین کے ساتھ مظالم کم ہوئے اورکس کے دوران زیادہ ہوئے۔ اختصار کے ساتھ کچھ واقعات کاذکر کرنے سے حقائق سمجھ میں آجائیں گے۔ 16دسمبر2012ء میں دہلی شہر کی ایک بس میں میڈیکل کی ایک طالبہ نربھیاکے ساتھ جو درندگی ہوئی اس کوآج تک ہم لوگ بھلانہیں پائے ہیں۔ اُس کا رد عمل زبردست تھا اورلگ رہاتھا کہ اب اس طرح کے واقعات بہت کم ہوجائیں گے مگرایسا نہیں ہوابلکہ آٹھ ،دس سال میں خواتین پر مظالم،عصمت دری اوراجتماعی آبروریزی کے واقعات میں اضافہ ہی ہواہے ۔
کشمیر کے کٹھوعہ علاقہ میں کمسن اورخانہ بدوش مسلم لڑکی کے ساتھ ایک مندر میں چند ظالموں نے اجتماعی عصمت دری کی۔ اُس وقت محبوبہ مفتی کی بی جے پی کے ساتھ مخلوط حکومت تھی۔ بی جے پی کے بیشترلیڈران کی کوشش تھی کہ مجرم سزا سے بچ جائیں۔دس سال کاعرصہ اچھا خاصہ ہوتاہے کسی معاملے کے جائزے اور حساب وکتاب کیلئے ۔دس سال میں پہلے سے بھی بھیانک واقعات رونماہوئے اورجرائم کی تعداد میں کئی گنااضافہ ہوا۔ دس سال میں 2021 کے جائزے میں عصمت دری کے428278 واقعات پولیس تھانوں میں درج ہوئے جو 2012کے واقعات کے مقابلے بالکل دوگنے ہوگئے ہیں۔ 2012 میں 244278 واقعات درج ہوئے تھے۔ یہ نیشنل کرائم ریکارڈ بیو روپورٹ کے مطابق ہے۔
گجرات میںجوکچھ ہوا وہ ناقابل بیان ہے ۔ حکمراں پارٹی کے لوگوں نے مجرموںکی رہائی کے بعداُن کی پذیرائی کی اورپھولوںکے ہار پہنائے جیسے قصورواروںنے کوئی بہت بڑا کارنامہ انجام دیاہو۔ اس واقعہ سے سبھی حساس اوردردمندشہری اورحقوق انسانی سے متعلق تنظیمیں دہل گئیں۔دہلی خواتین کمیشن کی چیئرپرسن سواتی مہیوال نے بلقیس بانو کی نظرثانی کی درخواست کو عدالت عظمیٰ سے خارج کئے جانے کے بعد سوال کیاکہ اگرلوگوںکوعدالت عظمیٰ سے بھی انصاف نہیں ملے گاتووہ کہاںجائیں گے؟بہرحال ابھی انصاف کی امید ختم نہیں ہوئی ہے۔ ابھی بلقیس بانو کی وہ عرضی خارج ہوئی ہے جس میں متاثرہ نے اس کے مئی 2022 کے اُس حکم کی نظرثانی کی درخواست کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ گجرات حکومت کو بلقیس بانو کے مجرمین کی رہائی کی درخواستوں پر غورکرنے کااختیار ہے،تاہم عدالت عظمیٰ میں بلقیس بانو کی رٹ پٹیشن ابھی باقی ہے جس میں مجرمین کی رہائی کو چیلنج کیاگیاہے۔ یادرہے کہ مجرمین کی رہائی کے خلاف مفاد عامہ کی چاردرخواستیں اوردائر کی گئی ہیں۔ یہ درخواستیں کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (ایم)پولٹ بیورو کی رکن سبھاشنی علی ، ترنمول کانگریس کی رکن پارلیمان مہواموئترا ،صحافی ریوتی لاؤل اورپروفیسر روپ ریکھا ورما نے دائر کی ہیں۔
یہ واقعہ کئی سوالات کھڑے کرتاہے ۔ اول، جن مجرموں کی رہائی ہوئی ہے وہ بلقیس بانو اوران کے اہل خانہ کیلئے خطرہ ثابت ہوسکتے ہیں۔ دوئم ،قتل اورعصمت دری جیسے گھناؤنے جرم میں سزا یافتہ شخص کی قبل ازوقت رہائی ناانصافی کے مترادف ہے۔ سوئم،اس طرح کی عدالتی کارروائی سے جرم کوبڑھاوا ملے گا۔ چہارم،عصمت دری اورقتل جیسے جرم سے متعلق موجودہ قوانین میں ترمیم کی ضرورت ہے۔پنجم،متاثرہ کی نفسیات پر اس کا منفی اثر پڑے گا۔اگربلقیس بانو اپنا ذہنی توازن کھودیں تو کوئی حیرت کی بات نہیں ہے۔اس واقعہ کے تعلق سے میری رائے یہ ہے کہ عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس ڈی -وائی-چندرچوڑ از خود اِس معاملے کا نوٹس لیں،اپنی صدارت میں ایک بڑی بنچ کی تشکیل کریں اورتمام حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے وہ بنچ اپنا فیصلہ سنائے۔ ان قصورواروں کودوبارہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے بھیجنا معاشرہ کے مفاد میںہوگا۔
[email protected]

 

 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS