شاہنوازاحمد صدیقی
مغربی ایشیا کی شاندار تہذیبی روایات اور ثقافت کے علمبردار ممالک کو وقت نے سبق سکھا دیا ہے کہ اندھی رقابتیں نہ صرف ان کی خودکی ترقی اور خوشحالی میں مانع ہیں بلکہ اس پورے خطے کی سلامتی کے لئے بھی خطرہ ہے۔ عراق، شام، یمن، ایران اور گردوپیش کے ممالک میں بدامنی اور خلفشار مچی ہوئی ہے۔ اس کوختم کرنے کے لئے کئی محاذوں پر مذاکرات کا سلسلہ چل رہا ہے۔ ایک طرف ایران سعودی عرب دوطرفہ مذاکرات کے لئے کوشاں ہیں دوسری طرف کئی ممالک اوران کی راجدھانیوں میں سفارتی عمل چل رہا ہے۔ عراق کے وزیراعظم جواپنے ملک میں خانہ جنگی، فرقہ وارانہ منافرت سے پریشان ہیں نہ صرف یہ کہ اپنے عظیم تاریخ والے ملک کو خوشحال اور پرامن دیکھنا چاہتے ہیں بلکہ قرب وجوار کے پڑوسی ممالک کی فوجی مداخلت اور دراندازی سے بھی نجات حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ ایران اور سعودی عربیہ اور ترکی وغیرہ ان کے ملک میں فوجی کارروائی ختم کرکے وہاں کی ترقی اور ترقیاتی کاموں کو یقینی بنائیں۔ اس سلسلہ میں اردن کی راجدھانی عمان میں مذاکرات ہونے اور فرانس سمیت عمان، قطر، عراق، کویت اور سعودی عرب کے سفارت کاروںنے عراق میں قیام امن کے امکانات تلاش کئے۔ اس کانفرنس میں شرکت کرتے ہوئے ایران کے وزیرخارجہ کا انداز مصالحانہ اور تعاون کرنے والا تھا۔ ایران کے وزیرخارجہ حسین امیر عبدالنہیان نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ کئی ممالک کے ہم منصب وزیر کے ساتھ ان کی بات چیت ہوئی ہے۔ اس سلسلہ میں انہوں نے سعودی عرب کا نام لیتے ہوئے کہا کہ وزیر خارجہ سعودی عرب بھی مذاکرات کے خواہاں ہیں۔
حسین امیرعبدالنہیان تجربہ کار سفارت کار ہیں اور ان کو حساس ممالک بحرین اور افریقی خطے کے کچھ ممالک میں کام کرنے کا موقع ملا ہے۔ خطے کے حساس امورپر ان کی اچھی عملی جانکاری ہے۔ وہ مسئلہ فلسطین کے حساس نکات سے اچھی طرح واقف اور جدوجہد آزادی فلسطین کے مشن سے بھی وابستہ ہیں۔ دو روزقبل انہوںنے عربی زبان میں کئے گئے ٹویٹ میں کہا ہے کہ سعودی عرب کے وزیرخارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان السعود سمیت خطے کے وزرائے خارجہ سے ملے۔ سعودی عرب کے وزیر نے ان کو ایران کے ساتھ مذاکرات جاری رکھنے کی خواہش کی بابت بتایا۔
خیال رہے کہ موحودہ صورت حال ان معنوںمیں قابل قدر ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان سفارتی تعلقات 2016 میں اس وقت منقطع ہوگئے تھے جب تہران میں سعودی عرب کے سفارت خانے پر ہجوم نے حملہ کردیا تھا۔ بہرحال دونوں ملکوں کے درمیان کھٹے میٹھے تعلقات طویل عرصہ سے چلے آرہے ہیں۔ دونوں کی رقابت اور رفاقت کی تاریخ ہے اور تاریخ کا اثرحالیہ مذاکرات اور علاقے کی معیشت اور سیاسی استحکام دونوں پر پڑ رہا ہے۔ ایران میں حجاب کو لے کر پیدا تنازع نے جہاں خود ایک طرف ایران کے اندر عدم استحکام پیدا کیا ہے وہیں خطے میں بھی بدخواہی کے جذبہ کو فروغ دیا ہے۔ ایران کا الزام ہے کہ سعودی عرب ان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کر رہا ہے اور حالیہ مظاہروں کی پشت پناہی کی جارہی ہے۔ ایران نے عراق اور دیگر قرب جوار کے خطوں سے اس کے ملک میں دراندازی کے خلاف سخت فوجی کارروائی کی ہے تو دوسری جانب سعودی عرب نے عراق کے اندر خارجی کارروائی پر ناراضگی کا اظہار کیا ہے۔
دراصل سعودی عرب کا کہنا ہے کہ عراق کے اندر غیرملکی مداخلت کی جارہی ہے۔ سعودی عرب کا اشارہ ایران اور ترکی کی طرف ہے۔ دونوں ممالک کردوں پر کارروائی کر رہے ہیںاورایران میں حجاب کو لے کر ہونے والے مظاہروں اور ترکی اپنی سرزمین پر ہونے والی دہشت گردانہ کارروائیوں کے لئے مغربی عراق میں کرداکثریتی علاقوں میں سرگرم علیحدگی پسندو کو موردالزام ٹھہراتا ہے۔ پچھلے دنوں دونوںملکوںنے عراق پرکارروائی کی۔
دراصل عراق خطے کی بڑی طاقتوںکے درمیان خلفشار ، اختلاف رائے اور تصادم سے پریشان ہے۔ سعودی عرب اور ایران دونوں کی دلچسپی عراق میں ہے۔ عراق دونوں طاقتوں کے تصادم کوختم کرنے کے لئے مذاکرات کر رہا ہے۔ عراق کے وزیراعظم محمدالشعہ السوڈانی کا درددل اور دردجگر چھلک رہا ہے۔ ان کے ملک کے عوام دوپاٹوںمیں پس رہے ہیں۔ اس لئے وہ زیادہ سرگرمی سے مصالحت کرانا چاہتے ہیں۔ السوڈانی ان دونوں ملکوںکے درمیان پانچ ادوار کے مذاکرات کراچکے ہیں مگرایران نے داخلی امور میں مداخلت کا الزام لگاتے ہوئے مذاکرات میں شامل ہونے میں فی الحال فیصلہ محفوظ رکھا ہے۔ اس دوران فرانس، یوروپی یونین چاہتے ہیں کہ اس خطے میں امن قائم ہوجائے۔ فرانس کے صدر امنیوئل میکروں کی کوششوں سے اگست 2021 میں عراق کی راجدھانی بغداد میں مذاکرات کا پہلا دور ’’بغداد اول‘‘ مذاکرات شروع ہوئے تھے اور اب اردن میں مذاکرات کا دور ’’بغداد دوم‘‘ ہوا۔ عراق میں ایک سال کے طویل تعطل کے بعد ایک حکومت سوڈانی کی قیادت میں بن پائی ہے اور السوڈانی چاہتے ہیں کہ ان کے ملک میں خانہ جنگی ختم ہو اور عراق خارجی طاقتوں کے کھیل کا میدان نہ بنے۔
مغربی ایشیا کے کئی ممالک میں خارجی مداخلت کے سبب امن قائم نہیں ہورہا ہے۔ ان ممالک میں عراق کے علاوہ یمن، شام، لبنان میں بھی بدامنی اور عدم استحکام ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اردن اس کانفرنس کی میزبانی کر رہا ہے تواس کانفرنس کے مقام سے کچھ فاصلے پر توانائی کی بڑھتی قیمتوں کے خلاف احتجاج ہورہے ہیں۔
[email protected]