مولاناذکی نور عظیم ندوی
مساجد کو اسلام میں سب سے زیادہ مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ اس کی جانب سب سے زیادہ اور سب سے پہلے توجہ دی گئی۔ سورہ آل عمران کی آیت نمبر96کے مطابق روئے زمین پر بننے والی سب سے پہلی عمارت مسجد حرام خانہ کعبہ ہے لوگوں کے لئے سب سے پہلے بنائی جانے والی عمارت مکہ میں ہے جو مبارک اور لوگوں کی ہدایت کا ذریعہ ہے نبی اکرمؐ نے ہجرت کے موقع پر اپنی جان ومال اور ایمان کی حفاظت کے لیے مدینہ منورہ پہنچنے سے پہلے ہی قبا جا کر مسجد کی بنیاد رکھ کر یہ پیغام دیا کہ اسلام میں مسجد کی کیا اہمیت ہے۔ اللہ نے سورہ توبہ آیت نمبر 108 میںاسی مسجد کے بارے میں فرمایا کہ روز اول سے تقوی کی بنیاد پر قائم کی گئی مسجد میں آپ قیام کے زیادہ حقدار ہیں اور مدینہ منورہ پہنچ کر ابتدائی مرحلے میں ہی مسجد نبوی کی تعمیر کی جانب توجہ دے کر اپنی قیام گاہ سے قریب کے کھلیان اور دو یتیم بچوں کی زمین کو بطور قیمت خرید کر اسلام میںمسجد کی اہمیت کو ایک مرتبہ پھر آشکارا کیا۔
مسجد کی اہمیت کے پیش نظر ہی مسلمانوں کو پنج وقتہ نمازوں کی مسجد میں باجماعت ادائیگی کا پابند کردیا گیا اور اسے زیادہ اجر و ثواب کا ذریعہ بنادیا۔ مسجد میں داخل ہونے پر اس کے لیے ایک الگ نماز “تحیۃ المسجد” کو مشروع کیا گیا اور رمضان میں مسجد کی اہمیت و افادیت کو مزید واضح کرنے کے لئے اخیر کے دس دنوں میں روزے اور تراویح کے ساتھ مزید عبادت و تلاوت اور شب قدر کے حصول کے لیے دس دن کا اعتکاف مسنون قرار دیا گیا۔
مسجد کو صرف نماز کے لئے ہی خاص نہیں کیا گیا بلکہ نبی اکرمؐ نے ہجرت کے بعد ابتدائی دنوں سے ہی مسجد نبوی میں واقع چبوترہ پر اصحاب صفہ کے ساتھ درس و تدریس اور تعلیم و تربیت کا سلسلہ شروع کر کے اسے ایک تعلیمی مرکز بھی بنادیا۔ اہم ترین موقعوں پر مشورہ کے لئے بھی مسجد کا انتخاب کیا گیا اور کبھی کبھی تو جنگی معاملات، باہر سے آنے والے وفود کے استقبال اور ان کی رہنمائی اور دیگر اہم امور پر غور و خوض کے لئے بھی مسجد ہی کو منتخب کیا گیا۔ گویا اسلام میں مسجد صرف عبادت گاہ ہی نہیں بلکہ ایک کمیونٹی سنٹر اور ہر طرح کی سماجی اصلاح، تعلیمی بیداری اور ضرورتوں کی تکمیل کا اہم ادارہ اور مرکزبن گیا۔
مساجد کی تعمیر اور اس میں حصہ داری نیک عمل ہے اسلام میں اس کی جانب کافی توجہ دلائی گئی ہے۔ بخاری شریف میںحضرت عثمان سے مروی ایک حدیث میںاللہ کے لیے مسجد بنانے والے کو جنت میں گھر کی بشارت دی گئی، اس وجہ سے مسلمانوں میں مسجد کی تعمیر کی جانب خصوصی توجہ اور عوامی بیداری بھی پائی جاتی ہے۔اور اگلے کئی سالوں کو مد نظر رکھ کر کافی وسیع و عریض کشادہ مسجدیں تعمیر کرنے کا مسلمانوں میں مزاج عام ہے۔
کشادہ مسجدوں کو صرف نمازوں کے لئے ہی نہیں بلکہ ان عمومی ضرورتوں اور مقاصد کے لئے استعمال کیا جانا چاہئے جن کے لئے نبی اکرمؐ کے زمانے میں مسجدوں کا استعمال ہوتا تھا۔ بیک وقت وہ تعلیم گاہ، مشورہ و میٹنگ کی جگہ اور دیگر رفاہی و تعلیمی کام کیلئے بھی استعمال کرنا چاہئے۔ الحمدللہ حرم مکی میں “معہد الحرم المکی” کے نام سے مستقل تعلیمی ادارہ، اور حرم مدنی میں تحفیظ القرآن کے منظم حلقے اور تصحیح قرأت کے ساتھ وہاں دروس قرآن، دروس حدیث، کتب عقائد و فقہ دیگر موضوعات پر دروس کا باقاعدہ مستقل انتظام اس سلسلہ میں نہایت مثبت اور قابل تقلید امور ہیں جن کو ہم اپنے علاقے کی مسجدوں میں بھی نافذ کر سکتے ہیں۔ حالیہ دنوں میں نکاح اور شادی بیاہ میں فضول خرچی، رسم و رواج، جہیز، بارات اور سماج پر بوجھ بننے والی دیگر رسمیں اور اس سے پنپنے والی سماجی برائیوں سے بچنے کے لیے مسجدوں میں نکاح اور اس کے بعد بلا کسی غیر ضروری دھوم دھام کی رخصتی و ولیمہ کی مہم چلائی جا رہی ہے۔ یہ بھی مسجد کا ایک مثبت استعمال ہے جس کے ذریعے بہت سے منکرات اور غیر شرعی رسوم سے بچنے میں انشااللہ مدد مل سکتی ہے۔ اس سلسلہ میںترمذی میں حضرت عائشہ کی ایک حدیث بھی ملتی ہے”کہ نکاح کا اعلان کرو اور نکاح مسجدوں میں کرو اگرچہ کہ یہ حدیث ضعیف ہے لیکن مذکورہ بالا اسباب اور ضرورتوں کے پیش نظر نکاح کے لئے مسجدوں کا استعمال ایک مثبت اور قابل ستائش و قابل تقلید امر ہے، جس کو رواج دے کر بہت سی خرافات اور سماجی برائیوں و بوجھ سے بچنا ممکن ہو سکتا ہے۔
مسجدوں میں نکاح کے تعلق سے یہ بات دیکھنے میں آرہی ہے کہ بعض لوگ کسی بڑے اور مہنگے ترین ہال یا لان میں خوب دھوم دھام سے عالیشان انداز میں رخصتی کی تقریب سے قبل مسجدوں میں نکاح کو مسنون سمجھتے ہیں اور کسی مسجد میں جاکر کسی بڑے عالم اور بزرگ سے نکاح پڑھوانے کے لیے کافی اہتمام اور اضافی کوشش کرتے ہیں۔ اور الگ سے گاڑیوں کے ایک لمبے قافلے کے ساتھ، لڑکی اور لڑکے والے الگ الگ، مسجد میں پہنچ کر اس اضافی کوشش اور رسم کو انجام دیتے ہیں۔ اور بعض لوگ تو اس کے لئے الگ سے کارڈ چھپواتے یا شادی کارڈ میں ہی الگ سے اس کا تذکرہ بھی کرتے ہیں۔ اور پھر تقریب کے لئے طے شدہ ہال یا لان میں پورے دھوم دھام اور شریعت کی پرواہ کئے بغیر تمام رسم ورواج بلکہ ہر طرح کے خرافات کے ساتھ جشن مناتے ہیں ایسی صورت میں مسجدوں میں نکاح کسی طرح مسنون نہیں ہو سکتا بلکہ یہ ایک غیر ضروری اضافی رسم ہے جو ایک اضافی بوجھ اور نکاح کو آسان بنانے میں مانع اور سنت سمجھ کر کی جانے والی ایک نئی برائی کے طور پر عام ہو رہی ہے۔
کسی بڑی مسجد یا مذہبی جگہ جاکر کسی عظیم مذہبی شخصیت سے نکاح پڑھوانا غلط نہیں لیکن اس کو نکاح، ازدواجی زندگی اور دنیوی واخروی زندگی میں کامیابی کی تنہا علامت سمجھ لینا یا قرار دینا کسی طرح درست نہیں۔ اگر کامیابی کی ضمانت چاہئے تو نکاح کے موقع پر پڑھی جانے وا لی آخری آیت پر عمل کریں جس میں صاف اور واضح طور پر کہا گیا ہے کہ بڑی کامیابی تو اسے ملے گی جواللہ اور رسول کی اطاعت کرے گا ۔ اور شادی اور ازدواجی زندگی ہی نہیںبلکہ دنیا کے تمام امور میں کامیابی کی شاہ کلید اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت ہی ہے۔ اور اس کے بعد اس رشتہ کے حقوق کی ادائیگی ایک دوسرے کا اور ان کے رشتہ داروں کا احترام اور حسن سلوک سے بہتر انسان کے مقام تک پہونچا جا سکتا ہے۔ جس کی تعلیم نبی اکرمؐ نے بھی دیتے ہوئے فرمایا کہ تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو اپنے اہل و عیال کے لئے بہتر ہے۔
لہذا بیجا خرچ اور اسراف سے بچنے اور غلط رسم و رواج کو چھوڑنے کے لیے مسجدوں میں نکاح کو عام کرنا یقینا وقت کی ضرورت ہے۔ لیکن الگ اضافی اہتمام اور رسم کے طور پر مسجدوں میں نکاح اور پہر الگ سے رخصتی میں ہونے والی تمام خرافات کو انجام دینے سے اسلام میں نکاح کو آسان اور کم خرچ بنانے میں ہرگز مدد نہیں مل سکتی، بلکہ یہ اس عظیم اور وقت کی سب سے بڑی ضروری مہم کے لئے نہایت نقصان دہ اور اس میں مانع ہی ہوگا۔