طلبا پر ہوئے مقدمات کو واپس لینے کا حکومت سے مطالبہ
علی گڑھ (ایس این بی)
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں15 دسمبر 2019 کی رات پولیس نے طلبا پر جو مظالم کیے تھے، اس نے سبھی کوہلا کر رکھ دیا تھا۔ اے ایم یو میں ہوئے اس سانحہ کی آج تیسری برسی کے موقع پر طلبا کی بڑی تعداد نے کیمپس میں ایک کینڈل مارچ نکالتے ہوئے اپنے غم وغصہ کااظہار کیا۔طلبا کا کہنا تھا ہمارے ساتھیوںنے اس ظلم کے عوض میں اپنے ہاتھ تک گنوائے، وہیں پولیس نے ہمارے ساتھ جو سلوک کیا وہ دنیا نے دیکھا ہم پر لاٹھی چارچ ،ٹیئر گیس اور گرینڈ تک پھینکے گئے اس سانحہ کی مذمت کے لئے ہم آج جمع ہوئے ہیں اور انصاف کا مطالبہ کررہے ہیں۔طلبا لیڈرمحمد عارف خاں اور زید شیروانی نے کہا کہ ہم پولیس کے مظالم کو بھولے نہیں ہیں نہ بھولیںگے بلکہ ہمارا مطالبہ ہے کہ حکومت سے طلبا پر ہوئے مقدمات کو واپس لیا جائے۔ انھوں نے اس رات کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ 15دسمبر 2019کی رات کو کیمپس میں وہ سب کچھ کیا گیا پولیس کے ذریعہ جو نہیں کیا جانا تھااوررات گزرنے کے بعد صبح اے ایم یو کیمپس میں یونیورسٹی سرکل پرکثیرتعداد میں پولیس اہلکار تعینات تھے۔ یونیورسٹی سرکل سے لئے کر باب سید، سی وی سی لاج سے ڈک پوائنٹ تک، آفتاب ہاسٹل اور آس پاس کے علاقہ اور مختلف جگہوں کی سڑکوں کو مکمل طور پر سخت سردی اور کہرے کے باوجود صاف ستھرا کر دیا گیا تھا، کیمپس میں مختلف مقامات پر نیم فوجی دستے تعینات تھے ،ایسا محسوس ہوتا تھا کہ پولیس کے ظلم زیادتی اور بربریت کے ہر ثبوت کومٹانے کی ناکام کوشش کی گئی ہے لیکن سڑکوں پر پڑے پتھر کے نشان اور دیگر بہت سی ایسی علامات تھیں جو زبان یہ بتا رہی تھی پچھلی رات سر سید کے چمن کے پھولوں پر کیا قیامت گزری ہے ۔ انھوںنے کہا کہ آج ہم یہ بھی باور کرانا چاہتے ہیں کہ اگر دوبارہ سے ملک میںناانصافی کی گئی تو اے ایم یو پھر سے اس کے خلاف کھڑی ہوگی۔
واضح رہے کہ دسمبر2019میں مرکزی حکومت کی جانب سے متنازع سی اے اے جیسے قانون بنانے کے بعد ملک بھر میں صدائے احتجاج بلند ہونے لگی تھی، جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی کے طلبا پر پولیس زیادتی کی خبر منظر عام پر آنے کے بعد اے ایم یو کیمپس کا ماحول گرم ہو نے لگا تھا ، اس درمیان اے ایم یو انتظامیہ ایسے حالات سے بے خبر تھی کہ کیمپس میں بھی چنگاری آگ پکڑ سکتی ہے نہ طلبا کو سمجھانے اور ان کے د رمیان جاکر کوئی بات کرنے کی کوشش کی گئی اور کچھ ہی دیر بعد ضلع انتظامیہ نے پر تشدد کاررواہی کی اور کچھ ہی دیر میں اے ایم یو کیمپس میں نیم فوجی دستوں اور پولیس کے بوٹوں کی آوازیں سنائی دینے لگی اور پھر سر سید کے خوابوں کا تاج محل یا یوں کہیں کہ سر سید کے اس چمن جس کو سرسید نے اپنے خون دل سینچاتھا ، بارود، آنسو گیس ، پولیس کی گولیوں ، اپنے ہاسٹل میں موجود بے گناہ طلبا کی چیخیں، پولیس زیادتی سے بچنے کے لئے مددکی گہارسے بھر گیا ، وہیں اے ایم یو انتظامیہ اپنے طلبا کو امداد پہنچانے یا انھیں پولیس زیادتی سے بچانے کی کوشش کرنے کے بجائے،اس بات میںمیں زیادہ دلچسپی لے رہی تھی کہ جتنی جلد ممکن ہو سکے طلبا سے یونیوسٹی کیمپس کو خالی کرادیا جائے ۔ اس کے لئے یونیورسٹی انتظامیہ کے فوراً ہی سردی کی چھٹیوں کا اعلان کر دیا تھا۔آج اس دن کے تین سال مکمل ہونے پر طلبا اپنے اوپر ہوئے ان مظالم کو یاد کرکھے کانپ جاتے ہیں۔کینڈل مارچ کے دوران بڑی تعداد میں طلبا موجود رہے۔