روسی صدر ولادیمیرپوتن نے جن امیدوںاور مقاصد کے تحت یو ایس ایس آر کی سابق ریاست یوکرین پر حملہ کیا تھا ان کو لے کر تذبذب کا شکار ہوگئے ہیں اور لگ رہا ہے کہ طویل ہوتی ہوئی جنگ ان کے لئے گھاٹے کا سودا ثابت نہ ہوجائے۔
90کی دہائی کے ابتدائی سالوں میں جب یوایس ایس آر منتشر ہوا اور اس سے آزاد ہوکر ایک درجن سے زائد آزاد ممالک کا قیام عمل میں آیا تو پوری دنیا کا نظام ہی بدل گیا۔ اس سے قبل دنیا دو گروپوں میں تقسیم تھی۔ ایک گروپ یو ایس ایس آر یا سوویت یونین کی قیادت میں وارسا دفاعی سمجھوتے کے تحت ایک الگ دنیا بسائے ہوئے تھا تواس کے فوجی استبداد کے خلاف مغربی ممالک کا گروپ جس میں امریکہ، برطانیہ، فرانس وغیرہ شامل تھے، ناٹو معاہدہ کے تحت ایک الگ نظام جوکہ آزادانہ معیشت کے اصولوں پر مبنی تھا برسرپیکار تھا۔ میخائل گورباچوف کے دور اقتدار میں سوویت یونین منتشر ہوا اور وارسا معاہدہ بھی ختم ہوگیا تواہل مغرب کو پوری دنیا میں اپنا دبدبہ برقرار رکھنے کا موقع مل گیا۔ لیکن اب جب کہ حالات بدلے ہوئے ہیں اور روس سابق سوویت ریاستوں کی ایک ڈھیلی فیڈریشن کے ساتھ اپنے آپ کو مضبوط سمجھ رہا تھا اور روسی صدر کے دل میں منتشر سوویت یونین کو متحد کرکے 1990کی دہائی کی فوجی طاقت بننے کا بھوت سوار ہوا۔ گزشتہ 8-9سالوںمیں روس نے یو ایس ایس آر کے سب سے بڑے رقبے والے یوکرین میں مداخلت کی کوشش کی اور اس کے کئی علاقوں پر براہ راست اور بالواسطہ دونوں طریقے سے قبضہ کرنے کی کوشش کی۔ اس سال کے رواں میں روس نے یوکرین پر حملہ کردیا اور اس کو لگ رہا تھا کہ ایک کامیڈین اور غیرتجربہ کار حکمراں زولینسکی کی قیادت میں اس کا یوروپ کے اتنے بڑے رقبے پر قبضہ کرنا زیادہ مشکل نہیں ہوگا۔ مگر پچھلے دو مہینے کے واقعات نے یہ ثابت کردیا ہے کہ نہ صرف یہ کہ روسی صدر اپنے دوررس مسائل کو حل کرنے میں ناکام رہیںگے بلکہ شاید وہ روسی فیڈریشن کے ممالک پر اپنی گرفت اور رابطہ کھودیںگے۔ روس سابق سوویت یونین کی ریاستوں میں حکمرانوںکے دفاع کے لئے اپنی اور اپنے فوجی دوست کی دفاعی کمپنی ویگنر کے جنگجو بھیجتے رہے ہیں۔ سوویت یونین کے ان ریاستوں میں جب بھی کوئی داخلی سوزش پیدا ہوئی تو روس نے دفاعی افواج بھیج کر ان تمام کوششوںکو ناکام بنا دیا۔ یہی نہیں روس نے پڑوس اور دوردراز کے کئی ممالک میں اپنے ہم نوا ممالک کو فوجی مدد پہنچانے میں بھی تامل نہیں کیا۔ اس معاملے میں شام اور لیبیا اورحال ہی میں اتھوپیا وغیرہ کی مثالیں قابل ذکر ہیں۔ لیکن حالیہ ہفتے میں جو صورت حال سامنے آئی ہے وہ حیران کردینے والی ہے۔ ازبکستان جوکہ 90کی دہائی میں سوویت یونین کے چنگل سے آزاد ہونے والا ایک اہم اور طاقتور مسلم اکثریتی ملک نے روس کو آنکھیں دکھانی شروع کردی ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ روس کے خلاف جب سے مغربی ممالک نے تجارتی اور دفاعی پابندی عائد کی ہے تب سے کچھ ممالک ولادیمیرپوتن کی پالیسیوںسے کنارہ کشی کرتے ہوئے دکھائی دیے ہیں۔ ان میں ایک اہم نام ازبکستان کا سامنے آیا ہے۔ ابھی پچھلے دنوں ازبکستان کے وزیر خارجہ عبدالعزیز کامیلوو نے کہا ہے کہ سب سے پہلے فوجی کارروائیاںاور تشد د کو روکا جانا چاہئے اور ریپبلک آف ازبکستان یوکرین کی آزادی اور اقتداراعلیٰ علاقائی سالمیت کے تحفظ کی حمایت کرتی ہے۔ یہ بیان ان معنوںمیں اہم ہے کہ کئی ملکوںکو یہ لگ رہا ہے کہ سوویت یونین کے موجودہ صدر اپنی خواہشات اور مقاصد کو حاصل کرنے کے لئے ان کی آزادی کو سلب کرکے فوجی طاقت کے بل بوتے پر پرانے سوویت یونین کی طرز کے کسی نظام (دفاعی سمجھوتے)میں ان کو باندھ کر ان تمام اقتصادی طورپر کمزور ملکوں کوپھر پرانے دورکی طرف نہ دھکیل دے۔ ازبکستان کے وزیر خارجہ نے ایک اور اہم بات کہی ہے جو یوکرین پر جارحیت سے متعلق ہے۔ سینٹرل ایشیا کے مسلم اکثریتی ملک ازبکستان نے روس کو آنکھیں دکھاتے ہوئے کہا ہے کہ اس نے دونشیک اور لوہانسک کے جن دوخطوں پر قبضہ کرکے اپنے ملک کے ساتھ ملایا ہے ازبکستان اس قبضے کو بھی تسلیم نہیں کرتا۔ مغربی ملک جوکہ روس کی توسیع پسندانہ کارروائیوں کی نکتہ چینی کرتے رہے ہیں عبدالعزیز کلیمو کا یہ بیان کافی راحت دینے والاہے۔ 2016میں اقتدار میں آنے والے ازبکستان کے صدر شوکت مریزواور روس کے صدر ولادیمیرپوتن کے درمیان بڑی قربتیں تھیں اور دونوں ملکوں نے اپنے تعلقات کو بہتر بنا لیا تھا اور ازبکستان نے تجارتی شراکت دار روس کے ساتھ روابط اس قدر مضبوط کرلئے تھے کہ اس نے چین کو بھی پیچھے چھوڑ دیا تھا۔ اس کے علاوہ ازبکستان کے صدر روس کے صدر پوتن کے دوست علی شیر عثمانوف سے بھی قریبی مراسم رکھتے ہیں۔ ان تینوںکی دوستی ازبکستان میں مرزاروف کی اقتدارکو مضبوط بنانے میں کافی معاون ثابت ہوئی تھی۔ روس چاہتا تھا کہ وہ اپنی پرانی ریاستوں کے ساتھ یورو۔ایشین اکنامک یونین میں شامل ہوجائے اور ساتھ ساتھ دفاعی سمجھوتہ بھی جس کو کلکیٹو ٹریٹی آرگنائزیشن کے نام سے جانا جاتا ہے، میں شامل ہوجائے۔ ازبکستان نے اس سلسلے میں کچھ میٹنگوںمیں حصہ بھی لیا تھا۔ مگر آج کے بدلے ہوئے حالات میں ازبکستان نے اس طرح کا بیان جاری کرکے روس کو صدمے کا شکار بنا دیا ہے۔ فوجی ماہرین کا کہنا ہے کہ عثمانوف روس کے بجائے اپنے مستقبل اور مفادات کو لے کر زیادہ فکرمند ہیں۔ ان کے خود کے تجارتی اور کاروباری اہداف و مقاصد ہیں اور ان مقاصد کی توسیع کے لئے وہ نہیں چاہتے کہ روس کے صدر کا دم چھلا بن جائیں اور پوری دنیا سے رابطہ منقطع کرلیں۔ روسی صدر کے خلاف مغربی ممالک نے جو پابندیاں عائد کی ہیں وہ عثمانوف کو محدود کرسکتی ہیں اور ان کے کاروبار کی توسیع میں رکاوٹ بن سکتی ہیں۔ لہٰذا انہوں نے ایسے وقت میں روسی صدر سے فاصلہ قائم کرنا بہتر سمجھا۔ کئی مبصرین کا کہنا ہے کہ ازبکستان تمام پابندیوںاور محدود اختیارات کے باوجود دیگر سینٹرل ایشیائی ممالک کے مقابلے میں اپنے تجارتی مقاصد کو پورا کرنے میں زیادہ کامیاب ہیں اور اگر وہ آج کے بدلے ہوئے حالات میں روس سے ہی چپکے رہتے ہیں تو وہ ازبکستان کی معیشت کے لئے فائدہ مند ثابت نہیں ہوگا۔ ازبکستان سینٹرل ایشیا کا وہ ملک ہے جس کی سرحدیں روس، چین، افغانستان اور سینٹرل ایشیا کے ممالک کرغستان، قزاکستان، تاجکستان وغیرہ سے بھی ملتی ہیں۔ ازبکستان ایسے حالات میں نہیں چاہتا کہ وہ اپنے کاروبار کو روسی صدر کی پالیسی کا دست نگر بناکر نقصان اٹھائے۔ دفاعی ماہرین کا کہنا ہے کہ یوکرین پر روس کے حملے کے بعد خطے میں حفاظتی منظرنامہ بدل گیا ہے اور کئی عوامل نے مل کر خطے کے استحکام، علاقائی یکجہتی کو کمزورکیا ہے۔ اب کئی طاقتیں یہ سوچتی ہیں کہ یہ اچھا موقع ہے کہ جب روس جوکہ کئی محاذوں پر گھرا ہوا ہے اس کی دسترس سے باہر نکل کر ایک آزاد اورخودمختار ملک کے طورپر اپنے دائرہ کار کو وسیع کیا جائے۔ سینٹرل ایشیا کی کم سے کم پانچ ریاستیں روس پر منحصر ہیں۔ 2021 کے اعدادوشمارکے مطابق سینٹرل ایشیا کے ڈھائی ملین لوگ روس میں کام کرتے ہیں اور کرغستان، تاجکستان اور کسی حد تک ازبکستان کی بڑی آبادی روس میں برسرروزگار ہے۔ مغربی ممالک کی پابندیوںکے بعد روس کمزورہوا ہے اور اس کے اثرات سینٹرل ایشیا کے ان ممالک پر بھی پڑ رہے ہیں۔ پچھلے دنوں ترکی کے صدر طیب اردگان نے اپنے ہمنوا کئی سینٹرل ایشیائی ممالک کے ساتھ اپنے کاروباری، سفارتی رشتے بہتر بنائے ہیں اور یوکرین پر حملے کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال میں جو نقصان روس کو ہوا ہے اس کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کی ہے۔ روس چاہتا ہے کہ خطے کے دیگرممالک کے ساتھ اقتصادی مراسم بہتر کرکے وہ ایک متبادل کے طورپر سینٹرل ایشیائی ملکوںکو اپنی خدمات پیش کرے اور اس حکمت عملی سے ترکی میں جو فی الحال اقتصادی کسادبازاری ہے اس کو بھی کنٹرول کرنے میں کامیابی حاصل کرے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ ممالک کس حد تک روس کی گرفت سے باہر ہونے میں کامیاب ہوتے ہیں۔٭٭
سینٹرل ایشیا میں روس کو جھٹکا؟
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS